ؒافکار سید ابوالاعلیٰ مودودی

243

حیات النبیؐ کے بارے میں آج کل جس طریق پر علماے کرام کے مابین بحث چل رہی ہے، اس کی نہ کوئی ضرورت ہے نہ اس کا کچھ حاصل ہی ہے۔ عقیدے کی حد تک ہمارا اس بات پر ایمان کافی ہے کہ آپؐ اللہ کے نبی ہیں اور آپؐ کی ہدایت ابد تک کے لیے کامل ہدایت ہے۔ عمل کے لیے یہ بالکل کافی ہے کہ ہم آپؐ کے اسوہ حسنہ کی پیروی کریں، جسے معلوم کرنے کی خاطر قرآن وسنت ہمارا مرجع ومنبع ہے۔ اب آخر اس بحث کی حاجت ہی کیا ہے کہ نبی کریم اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد کس معنی میں زندہ ہیں۔ پھر یہ بحث اس لیے بھی غیر ضروری اور لا حاصل ہے کہ ہم اس خاص معاملے میں کوئی متعین عقیدہ رکھنے کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے مکلف ہی نہیں کیے گئے ہیں۔ اگر کوئی مسلمان اس مسئلے سے بالکل خالی الذہن ہو یا اس میں راے قائم کیے بغیر مرجائے تو اس کے ایمان میں کوئی نقص واقع نہ ہوگا، نہ آخرت میں اس سے پوچھا جائے گا کہ تونے حیات نبی کے برزخی وجسمانی ہونے کے بارے میں کیا عقیدہ رکھا تھا۔ قرآن وحدیث میں کوئی ایسی واضح اور قطعی ہدایت اس باب میں نہیں دی گئی جو ہمیں ایک خاص عقیدہ رکھنے کا پابند کرتی ہو، نہ یہ مسئلہ صحابہ کرامؓ کے درمیان زیر بحث تھا، نہ آپؐ کے جانشینوں نے کسی کو اس معاملے میں کوئی خاص عقیدہ رکھنے کی کبھی تلقین کی۔ میں تو ایسا محسوس کرتا ہوں کہ حیات النبی کے مسئلے میں حضرات علماء وہی غلطی کررہے ہیں جو خلق قرآن کے مسئلے میں خلیفہ مامون نے کی تھی۔ یعنی جس چیز کو اللہ اور اس کے رسول نے اسلام کا ایک عقیدہ اور ایمانیات کا ایک رکن نہیں قرار دیا تھا اور نہ جسے ماننے یا نہ ماننے پر آدمی کی نجات کا مدار رکھا تھا، اور نہ جس پر اعتقاد رکھنے کی خلق کو دعوت دی تھی، اسے خواہ مخواہ عقیدہ اسلام اور رکن ایمان بنایا جارہا ہے، اس کے ماننے یا نہ ماننے کو مدار نجات قرار دیا جارہا ہے، اس پر اعتقاد رکھنے کی دعوت دی جارہی ہے، اور اعتقاد نہ رکھنے والوں کی تکفیر وتفسیق کی جارہی ہے۔ (رسائل ومسائل، اول)
٭…٭…٭
آدمؑ اور جنت
آدمؑ جس جنت میں رکھے گئے تھے، اس کی جائے وقوع کا مسئلہ اسلام میں کوئی بنیادی تو درکنار، فروعی مسئلہ بھی نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص محض قرآن کو سمجھنے کی کوشش میں اس کے متعلق کسی خیال کا اظہار کرے تو زیادہ سے زیادہ اس سے اتنا ہی تعرض کیا جاسکتا ہے کہ اس کی رائے کو آپ پسند کریں تو قبول کرلیں، نہ پسند کریں تو رد کردیں۔ مگر بدقسمتی سے ہماے ہاں ہر مسئلہ پہلے ردو کد اور بحث ومناظرہ کا موضوع بنتا ہے اور پھر یہی ردوکد اس کو ایک اعتقادی مسئلہ بناکر رکھ دیتی ہے جس پر دو فریق ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آرا ہوجاتے ہیں، اور جب تک فریقین کے نکاح نہ ٹوٹ جائیں، معاملہ ختم نہیں ہوتا۔ (رسائل ومسائل، اول)