اماں جی کی نگاہ دلنواز (آخری حصہ)

898

افتاد طبع سے مجبور ہوکر میں نے ’’رشید کی ایمانداری‘‘ کے عنوان سے اس میں ایک کہانی لکھی تھی اور باغ و بہار کا متعلقہ شمارہ آپ کو پیش کیا تھا، کہانی پڑھنے کے بعدآپ نے کچھ نصیحتیں کی تھیں اور اس کے بعد ’’باغ وبہار‘‘ میں میری جتنی بھی کہانیاں شائع ہوتی رہیں، وہ آپ ہی کی سنائی اور بتائی ہوئی تھیں۔
اماں جی! مجھے یاد ہے کہ جب میں نے سٹی اسکول عید گاہ روڈ میں نویں جماعت میں داخلہ لیا تھا تو آپ کی حوصلہ افزائی کی بدولت میں ہر امتحان میں حسب معمول نمایاں پوزیشن حاصل کرتا رہا تھا۔ تاہم سالانہ تقریب انعامات میں نظر انداز کیے جانے پر دل گرفتہ ہوکر میٹرک کے امتحانوں کے دنوں میں پڑھنا چھوڑ دیا تھا۔ آپ راتوں کو اٹھ اٹھ کر سمجھایا کرتی تھیں کہ امتحان کی تیاری کرو اور اکثر خفا ہو جایا کرتی تھیں۔ رات میں جب بھی میر ی آنکھ کھلی، میں نے آپ کو اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پایا تھا، آپ کے ہاتھوں کا لمس میں اب تک اپنے چہرے پر محسوس کرتا ہوں۔ جس دن رزلٹ آیا تھا، آپ نے اصرار کرکے اخبار منگوایا تھا (ان دنوں رزلٹ اخبار میں آیا کرتا تھا) اور فرسٹ ڈویژن دیکھ کر بہت خوش ہوئی تھیں اور ساتھ ہی یہ کہتے ہوئے اچھی خاصی ’’کلاس‘‘ بھی لے ڈالی تھی کہ کیا زندگی ختم ہوگئی ہے کہ منہ بسورے پھرتے ہو۔ ابھی ابتدا ہے، تمہیں زندگی میں ابھی اور بہت کچھ دیکھنا اور سیکھنا ہے، کیا ابھی سے ہمت ہار دو گے؟ ناکامی کا مطلب ’’بس‘‘ نہیں بلکہ ’’اور‘‘ ہے۔ اور پھر ’’مرض‘‘ بڑھتا رہا جوں جوں دواکی۔ اس کے بعد اماں جی! آپ کی دعائیں دوا اور مداوا بنتی چلی گئی تھیں۔
میں جس صحرا میں بھی جائوں مجھے گھر لگتا ہے
یہ سب میری ماں کی دعائوں کا اثر لگتا ہے
اماں جی! جب میں تلاش معاش کے سلسلے میں اسلام آباد آنے کا ارادہ رکھتا تھا، والد صاحب راضی نہیں تھے کہ وہ بڑھاپے میں اولاد کو اپنی نظروں سے دور کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے لیکن یہ آپ تھیں جنہوں نے کہا تھا کہ جب یہ گھر سے ہی نہیں نکلے گا تو اپنا مستقبل کیسے بنائے گا؟ چنانچہ 17؍جولائی 1974ء کو میں اسلام آباد روانہ ہونے کے لیے صبح چار بجے گھر سے نکلا تھا توآپ برقع اوڑھے گلی کی نکڑ تک آئی تھیں اور پیار سے سر پر ہاتھ پھیر کر رخصت کیا تھا، ابھی نیم تاریکی تھی، میں نے رکشے میں سے پیچھے مڑکر دیکھا تو آپ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے کھڑی تھیں۔ قصہ مختصر میں اسلام آباد پہنچا اور چار ماہ کے بعد ریڈیو پاکستان کے شعبہ خبر میں روزانہ اجرت کی بنیاد پر ملازمت مل گئی۔ آپ کی حوصلہ افزائی اور دعائیں میرے لیے سرمایہ ثابت ہوئیں اور میں ہمیشہ نئے عزم کے ساتھ آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا اور کنٹرولرنیوز کے عہدے تک جا پہنچا۔
اماں جی! آپ اگر عزم و استقامت کا پہاڑ تھیں تو ساتھ ہی حیا و وفا کی پتلی بھی تھیں۔ 13؍ستمبر 1993ء کو والد صاحب سڑک کے ایک حادثے میں زخمی ہوکر چلنے پھرنے سے معذور ہوگئے تھے اور آپ نے پچاسی سال کے قریب عمر ہونے کے باوجود ان کی دن رات تیمارداری کرکے وفا کی ایک درخشاں مثال قائم کی۔ ساڑھے تین سال تک صاحب فراش رہنے کے بعد جب7؍مارچ 1996ء کو والد صاحب کا انتقال ہوا تھا تو اماں جی میں نے پہلی بار کوآپ کو آنسو بہاتے دیکھا تھا ورنہ آپ تو ہمیشہ لبوں پر تبسم سجائے رکھتی تھیں۔
اماں جی! اللہ سب کو ہر قسم کی تکالیف اور مشکلات سے محفو ظ رکھے۔ 2؍اکتوبر 2004ء کو آپ کو پیش آنے والے حادثے کو یاد کرکے میرا دل تڑپ اٹھتا ہے، آپ بذریعہ ریل کار فیصل آباد سے لاہور روانہ ہوئی تھیں لیکن ریلوے کے اوقات تبدیل ہونے کے سبب ٹرین آدھا گھنٹہ پہلے لاہور پہنچ گئی تھی اورآپ کا نواسہ عظمت نوید آپ کو اسٹیشن پر نہ پاکر پریشان ہوگیا تھا اور تلاش بسیار کے باوجود پانچ دن تک آپ کا کوئی سراغ نہیں مل سکا تھا۔ دل مختلف خیالات کی آماجگاہ بن گیا تھا۔ سب سے ہولناک خیال یہ تھا کہ قدرت کو شاید یہی منظور تھا کہ ہم آخری مرتبہ آپ کو دیکھ بھی نہ سکیں، بہرحال میو اسپتال کے ڈاکٹر فیاض رانجھا نے رابطہ کرکے بتایا تھا کہ آپ پانچ دنوں سے لائلپور وارڈ میں دنیاو مافیہا سے بے خبر پڑی تھیں اور چند منٹ کے لیے ہوش میں آنے پر اسٹاف کو میرا نام پتا بتاکر دوبارہ بے ہوش ہو گئی تھیں۔ بعد میں آپ نے ہمیں بتایا تھا کہ آپ ریل کار میں اپنے ہم سفر ایک جوڑے کی چکنی چپڑی باتوں میں آگئی تھیں اور انہوں نے آپ کو چائے پلا کر بے ہوش کردیا تھا اور پرس اور زیور وغیرہ سے محروم کردیا تھا اور کوئی خدا ترس آدمی آپ کو ریلوے اسٹیشن کے مسافر خانے میں بے یارومددگار پڑے دیکھ کر اسپتال پہنچا گیا تھا۔
اماں جی! پچاسی سال کی عمر میں آپ بہت نحیف و نزار ہو چکی تھیں لیکن اس واقعے کے بعد آپ مزید کمزور ہوگئی تھیں، تاہم اس کے باوجود آپ 17؍ اکتوبر 2009ء کو میری بڑی بیٹی آمنہ عروج کی شادی پر اسلام آباد آئی تھیں، واپس فیصل آباد روانہ ہوتے ہوئے آپ نے کہا تھا کہ شایدآپ آئندہ اسلام آباد نہ آسکیں گی۔
اماں جی! واقعی یہ آپ کا اسلام آباد کا آخری پھیرا ہی ثابت ہوا تھا۔ 24؍اکتوبر 2010ء کو بطور ڈپٹی کنٹرولر نیوز اپنی ترقی پر میں مٹھائی لے کر فیصل آباد آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا تو آپ چارپائی پر لیٹی ہوئی تھیں۔ اس سے پہلے ہمیشہ اٹھ کر گلے لگاتی تھیں اور پیشانی پر بوسہ دیتی تھیں لیکن اب ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکی تھیں اور آپ میری آواز سن کر صرف اپنا ہاتھ ہلاسکی تھیں۔ میں خود جھک کر آپ کے گلے لگ گیا تھا اور بوسے کے لیے پیشانی آگے کردی تھی۔ اس کے بعد مٹھائی پیش کی تھی تو آپ نے کہا تھا ’’میں اتنی مٹھائی کہاں کھائوں گی گلی کے بچوں میں تقسیم کردو‘‘۔
اماں جی!21نومبر 2010ء کو شام پانچ بجے فیصل آباد سے چھوٹے بھائی مسعود اعجاز الدین نے فون کرکے بتایا تھا کہ آپ کی طبیعت زیادہ خراب ہے۔ پھر رات نو بجے فون آیا کہ فوراً پہنچوں۔ چنانچہ میں فیملی کو لے کرجب فیصل آباد پہنچا تو کچھ بھی باقی نہ بچا تھا سوائے آپ کی دعائوں کے جو میرے کانوں میں گونج رہی تھیں۔
ابھی زندہ ہے ماں میری مجھے کچھ بھی نہیں ہوگا
میں جب گھر سے نکلتا ہوں دعا بھی ساتھ چلتی ہے
آپ اس دنیائے فانی سے بے نیاز ہوچکی تھیں۔ اناللہ وانا الیہ راجعون
22نومبر 2010ء کو اماں جی جب آپ کی تدفین ہورہی تھی تو لحد میں اتارنے والوں میں سے کسی نے قبر پر پانی کے چھڑکائو اور پھول بکھیرنے کو کہا تھا اور میرے کزن مختار احمد نے فوراً اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا: ’’پھوپھی نے جتنے لوگوں کو قرآن پاک پڑھا دیا اس کے بعد تو وہ ویسے ہی جنت میں چلی جائیں گی‘‘۔ بے شک یہ سوگواروں کے طرف سے آپ سے عقیدت و محبت کا اظہار تھا۔
اماں جی! آپ کی رحلت کے کچھ عرصہ بعد فیصل آباد سے ایک دوست کا فون آیا تھا، کہنے لگا سنا ہے ماں جی ابدی نیند سوگئی ہیں، میں نے جواب دیا تھا:
’’اک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابشؔ
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے‘‘
اماں جی! آپ بھلا سوئی کہاں ہیں، کاش کوئی انہیں سمجھائے، مائیں سویا نہیں کرتیں، وہ اپنی دعائوں کے ساتھ اپنی اولاد پر ہمیشہ سایہ فگن رہتی ہیں۔