مشرق وسطیٰ میں شعلوں کا کھیل

507

مشرق وسطیٰ میں پراسرار دوروں، خفیہ سرگرمیوں اور تلخ بیانات سے حالات کی ایک کھچڑی سی پک رہی ہے۔ ایران کے ایٹمی پروگرام کے سرپرست سائنس دان محسن فخری زادے کا قتل اس دیگ کا پہلا دانہ ثابت ہوا۔ محسن فخری زادے کو تہران کے قریب نشانہ بنا گیا۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے لگی لپٹی رکھے بغیر اس واقعے میں اسرائیل کے ملوث ہونے کی بات کی ہے۔ پاسداران انقلاب کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی نے اعلان کیا ہے اس قتل کا بدلہ لیا جائے گا۔ سپریم لیڈر کے دفاعی مشیر بریگیڈئر حسین دہقان نے کہا ہے کہ ڈاکٹر محسن کے قاتلوں کو پچھتانے پر مجبور کریں گے۔ 59سالہ ڈاکٹر محسن ایران کے ایٹمی پروگرام کے بانی، وزارت دفاع کی ریسرچ اینڈ انوویشن آرگنائزیشن، امام حسین یونیورسٹی میں فزکس کے پروفیسر تھے۔ دوبرس قبل اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ اس نام کو یاد رکھنا۔ سابق وزیر اعظم ایہود المرت نے بھی کہا تھا کہ فخری زادے کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ 2010 سے 2012 تک ایران کے چار ایٹمی سائنس دانوں کو قتل گیا تھا۔ جس کے بعد ایران نے ڈاکٹر محسن فخری زادے کی شناخت کو چھپانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ایٹمی توانائی ایجنسی نے چند برس پہلے ڈاکٹر محسن تک رسائی طلب کی تھی ایران نے سیکورٹی خدشات کے پیش نظر رسائی دینے سے انکار کیا تھا۔ نیویارک ٹائمز نے لکھا تھا کہ اسرائیلی فوجیں ایران پر حملہ کرنے کی تیاری کررہی ہیں۔ یہ حملہ براہ راست بھی ہو سکتا ہے مشرق وسطیٰ میں پراکسیز کے ذریعے بھی کیا جا سکتا ہے۔ نیویارک ٹائمز نے لکھا تھا کہ صدر ٹرمپ نے ایرانی ایٹمی تنصیبات پر حملے کا جائزہ لیا ہے۔ نیویارک ٹائمز کی اس خبر کے بعد ہی آیت اللہ خامنہ ای کے مشیر حسین دوگان نے کہا تھا کہ ایران پر حملہ مکمل جنگ ہوگا۔ افواہوں کی اس دھند میں عراقی وزیر خارجہ نے ماسکو کا دورہ کیا تھا جہاں روسی وزیر خارجہ سیرگی لاوروف نے امریکا کو متنبہ کیا تھا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں چھیڑ چھاڑ سے باز رہے۔ ان سرگرمیوں کا نتیجہ محسن فخری زادے کے قتل کی صورت میں برآمد ہوا۔ جنرل قاسم سلیمانی کے بعد یہ ایران کو لگنے والا سنگین دھچکا ہے۔
عالمی ذرائع ابلاغ میں یہ اشارے مل رہے ہیں کہ ٹرمپ وائٹ ہائوس خالی کرنے سے پہلے ایران پر حملہ کرنے کا جائزہ لے رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ اب امریکا اور اسرائیل نے پراکسی کے ذریعے ایران کو سزا دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ محسن فخری زادے کے قاتلوں کا نقش قدم اسرائیل تک پہنچنا قطعی عجب نہیں۔ یہ اسرائیل کا پرانا طریقہ واردات ہے اس طرح وہ تاریخ کے مختلف ادوار میں فلسطین کے آزادی پسند قائدین کو قتل کر چکا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب وقت گزر گیا ہے اور اب قتل کے جدید طریقے اور ہتھیار متعارف کرائے جاچکے ہیں۔ محسن فخری زادے کے قتل کی جو تفصیل سامنے آئی ہے ہوش رُبا ہے۔ انہیں جدید ترین ہتھیاروں سے نشانہ بنایا گیا اور قتل کرنے والا موقع پر موجود نہیں تھا۔ یہ طریقہ ڈرون حملوں کا انداز تو لیے ہوئے مگر اس میں زیادہ جدت اور ہاتھ کی صفائی موجود ہے۔ ڈاکٹر محسن کی گاڑی جونہی آب سرد میں داخل ہوئی تو ان کی گاڑی پر مشین گن سے حملہ کیا گیا۔ گولی کی آواز کو گاڑی کی آواز سمجھ کر محسن فخری زادے گاڑی سے اُتر گئے۔ اسی دوران سڑک کے کنارے کھڑے نیلے رنگ کے ٹرک میں نصب سیٹلائٹ سے کنٹرول کی جانے والی مشین گن ایک سو پچاس منٹ کی مسافت پر فائر کیا گیا۔ فخری زادے کو تین گولیاں لگیں اور بعد ازاں ٹرک کو بھی اُڑا دیا گیا۔ ایرانی حکام کے مطابق حملے کے وقت جائے وقوع پر کوئی حملہ آور موجود نہیں تھا۔ اسرائیل نے ایران کے الزام کی تردید نہیں کی بلکہ دوسرے لفظوں میں اس کارروائی کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔ اسرائیل کے ایک عہدیدار نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ دنیا کو اسرائیل کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ ہم ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف ضروری اقدامات جاری رکھیں گے۔
ایران کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے اسرائیل اور امریکا مشرق وسطیٰ میں آگ کا ایک نیا الائو روشن کر رہے ہیں۔ جس کے اثرات صرف خلیجی ملکوں تک محدود نہیں رہیں بلکہ پوری دنیا پر مرتب ہوں گے۔ ان مسلسل اشتعال انگیز کارروائیوں کا مقصد ایران کو مشتعل کرنا ہے۔ ماضی میں یہ طریقہ صدام حسین کے خلاف استعمال کیا جا چکا ہے۔ جب بغداد میں امریکی سفیر نے صدام حسین کو کویت پر حملے کا اشارہ دیا اور یوں صدام حسین کے خود اپنے جال میں پھنسنے کا آغاز ہوگیا۔ ایران کے خلاف مسلسل کارروائیوں کا مقصد بھی یہی ہے کہ ایران کو اشتعال دلا کر اسرائیل یا کسی ہمسایہ عرب مملک پر براہ راست حملہ کرنے پر مجبور کیا جائے جس کے بعد وہی ہوگا جو صدام سے قذافی تک اور ان ملکوں کے ساتھ ہوا۔ ایران کی قیادت نے فوری طور پر جوابی ردعمل کا شکار نہ ہونے کا راستہ اپنا کر اس دام میں آنے سے انکار کیا ہے۔ مسلمان دنیا کو شیعہ سنی میں بانٹ کر گرم کیک کی طرح ہڑپ کیا جا رہا ہے۔ جب ضرورت پڑتی ہے تو سنی دوستی کا لبادہ پہن کر کام نکالا جاتا ہے اور نئی ضرورت پر شیعہ دوستی کا چولا پہن کر کام نکالا جاتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اسرائیل کو مشرق وسطیٰ سے ایشیا اور افریقا تک بالادست بنایا جائے۔ جو کسر باقی رہے وہ بھارت کو طاقتور اور بالادست بنا کر پوری کی جائے۔ اس اسکرپٹ میں مسلمان دنیا کے لیے کمی اور مزارع کا کردار تخلیق کیا گیا ہے اس کردار کا کام اپنے مستقبل سے بے خبر اور بے نیاز ہو کر ایک مسلمان ملک کی گردن دبوچے جانے پر تالیاں اور خوشی کے شادیانے بجانا ہے چہ جائیکہ کہ اس کردار کے ہاتھ میں ایٹم بم جیسا مہلک ہتھیار ہو۔ مسلمان دنیا کو اس بات کا احساس نہیں کہ وہ کس بے رحمی سے ٹشو پیپر کی طرح استعمال ہو رہی ہے۔