بین الافغان مذاکرات کا پہلا مرحلہ

285

امریکا اور امارت اسلامیہ افغانستان (افغان طالبان) کے درمیان امریکی فوجی انخلا کے معاہدے کے بعد بین الافغان مذاکرات کا پہلا مرحلہ جاری ہے۔افغان حکومت اور افغان طالبان کے مابین مذاکرات کا ابتدائی تحریری معاہدہ طے پا گیا ہے۔ تحریری معاہدے میں مذاکرات کے طریقہ کار کو حتمی شکل دی گئی ہے۔ افغان حکومت کی جانب سے مذاکراتی وفد کے رکن نادر نادری نے کہا ہے کہ آئندہ بات چیت اس دستاویز کے مطابق کی جائے گی۔ طالبان نے بھی ابتدائی معاہدے کی تصدیق کردی ہے۔ امریکا کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے ٹویٹ کیا ہے کہ فریقین نے تین صفحات کے معاہدے پر اتفاق کیا ہے جس میں سیاسی منصوبہ سازی اور جامع جنگ بندی کے لیے مذاکرات کے حوالے سے طریقہ کار اور قواعد و ضوابط موجود ہیں۔ اس معاہدے سے ظاہر ہوتا ہے کہ فریقین مشکل مسائل پر بھی اتفاق کرسکتے ہیں۔اس ابتدائی معاہدے میں صرف مذاکرات کا طریقہ کار اور گفت و شنید کا ایجنڈا طے کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود اسے اہم پیش رفت قرار دیا گیا ہے۔ افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے اور اصرار پر ہوا ہے۔ افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کی مخالفت سی آئی اے اور پنٹاگون کی طرف سے بھی ظاہر ہوگئی تھی۔ امریکی ریاستی اداروں کی مزاحمت کے باوجود امریکا افغانستان میں ایسی ذلت آمیز ہزیمت اُٹھا چکا تھا کہ اسے ہر حالت میں اپنی شکست پر پردہ ڈالنا تھا۔ اس مقصد کے لیے امریکا سے افغان طالبان کے پس پردہ مذاکرات کافی عرصہ پہلے شروع ہوگئے تھے۔ مشرق وسطیٰ کے اہم ملک قطر کے دارالحکومت دوحا میں افغان طالبان کا سیاسی دفتر بھی قائم کردیا گیا تھا۔ مذاکرات کے تمام مراحل قطر میں منعقد ہوئے۔ ان مذاکرات کے باوجود سیاسی مبصرین کو اس بارے میں شک تھا کہ امریکا افغانستان سے مکمل فوجی انخلا پر آمادہ ہوجائے گا۔ یہ شک اب بھی قائم ہے، لیکن افغانستان میں امریکی ناٹو افواج کی علامتی موجودگی برقرار ہے۔ تمام شکوک و شبہات کے باوجود امریکا افغانستان سے فوجی انخلا پر مجبور ہوگیا۔ ان مذاکرات کے دوران میں اور مابعد افغان طالبان کے امتحان میں اضافہ ہوگیا تھا کہ کیا وہ میدان جنگ میں کامیابی کے بعد مذاکرات کے میز پر بھی تدبر کا مظاہرہ کرسکیں گے۔ امریکا سے کامیاب مذاکرات کے بعد سب سے اہم اور نازک مرحلہ بین الافغان مذاکرات تھا۔ کابل میں قائم افغان حکومت اس بات پر ناراض تھی کہ امریکا براہ راست افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کیوں کررہا ہے۔ اسے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہئیں۔ لیکن افغان طالبان نے کابل حکومت کے جواز کو تسلیم نہیں کیا کیوں کہ یہ حکومت امریکی فوج کے اشارے پر قائم ہے۔ امریکا کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے بعد افغان طالبان کے امتحان میں اضافہ ہوگیا تھا۔ اب تک جو خبریں آرہی تھیں اس کے مطابق بین الافغان مذاکرات میں سب سے زیادہ اہم اشرف غنی حکومت کے افغان طالبان سے مذاکرات تھے۔ افغانستان کی تاریخ کے پیش نظر بین الافغان مذاکرات سب سے نازک اور حساس مسئلہ ہے اس لیے کہ سوویت یونین کے اتحاد کے بعد افغانستان داخلی تصادم اور خانہ جنگی کا شکار ہوگیا اور کوئی آزاد حکومت قائم نہیں ہوسکی۔ افغان مجاہدین کا انتشار طالبان کے ابھار کا سبب بنا تھا۔ اس کے بعد نائن الیون کا واقعہ ہوا اور افغانستان امریکی جارحیت کا شکار ہوا۔ اس طویل ترین جنگ کے دوران میں طالبان کی قیادت اس دنیا میں نہیں رہی لیکن طالبان کا مثبت پہلو یہ ہے کہ قیادت کا تسلسل جاری رہا اور طالبان نے دوحا میں امریکا سے کامیاب مذاکرات کیے۔ اب افغانستان کو انتشار سے محفوظ رکھنے کے لیے بین الافغان مذاکرات مستقبل کے سیاسی نظام کی تشکیل کا امتحان ہے۔ عالمی قوتوں کو بھی چاہیے کہ وہ ماضی کے واقعات سے سبق لیں۔ مظلوم افغانستان نے روس اور امریکا کی فوج کشی کی بڑی قیمت ادا کی ہے۔ یہ بات سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ افغانستان کا امن پورے ایشیا کے امن کی ضمانت ہے۔