عالمی اسلامک کرمنل کورٹ بنا کر ہی امریکی جنگی جرائم کی تحقیقات ممکن ہے

797

کراچی (رپورٹ /محمد علی فاروق) یہ بات کسی شک و شبے سے بالاتر ہے کہ امریکا افغانستان میں جنگی جرائم کا مرتکب ہوا ہے لیکن امریکیوںکو سز ا دلوانا بہت مشکل کام ہے ، جنگی جرائم پر صرف کمزور ملکوںاور لیڈرز کو ہی سزا مل سکتی ہے۔کیا جنگی جرائم میں صرف امریکا ملوث ہے یا پھر اس سے امداد لینے اور اس کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے والوں کو بھی شریک جرم سمجھا جائے گا ؟معصوم بچوں کے شہید اور زخمی کرنے میں جو بھی ممالک ملوث ہیں ا ن سب کیخلاف مقدمہ چلنے سے ہی انصاف کے تقاضے پورے ہوسکتے ہیں ۔امریکا کے خلاف افغانستان میں جنگی جرائم سے متعلق بالکل ویسے ہی ٹرائل ہونا چاہیے جس طرح نازیوں کے خلاف نیورمبرگ میں ہوا تھا لیکن جنگی جرائم کے ثبوت کہا ںسے لائے جائیں گے اور ان کو پیش کو ن
کرے گا ؟اسلامی دنیا اور خاص طور پر پاکستان، ترکی ، ایران ،افغانستان کو ایک اسلامی بلا ک بنا کر اسلامک کرمنل کو رٹ بنا نی چاہیے جس میں امریکی جنگی جرائم کی تحقیقات کی جائیں اوراس کی روشنی میں سزا دی جائے ۔ان خیالات کا اظہار سابق وفاقی وزیر انسانی حقوق انصار برنی ،معروف صحافی اور افغان امور کے ماہر رحیم اللہ یوسف زئی ،جماعت اسلامی کے سابق رکن قومی اسمبلی شبیر احمد خان ،معروف دانشور نصرت مرزااور بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر مونس احمر نے روزنامہ جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ انصار برنی نے کہا کہ امریکا کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ ضرور چلائیں لیکن ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس تمام صورتحال میں امریکا سے امداد لینے والے ممالک اور ان کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے والے بھی اس جرم میں برابر کے شراکت دار ہیں یا نہیں ۔جب ریاستیں جنگی جرائم کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہوں تو پھر ان کے خلاف آواز دھیمی پڑ جاتی ہے اور مقدمہ کسی عدالت میں چلا تو انصاف کے تقاضوں کے مطابق بہت سے ممالک کے نام بھی سامنے آسکتے ہیں ۔ ا ن سب کے خلاف مقدمہ چلنے سے ہی انصاف کے تقاضے پورے ہوسکتے ہیں ۔رحیم اللہ یوسفزئی نے کہا کہ امریکا نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ ملکر7اکتوبر 2001ء میں افغانستان پر حملہ کیا ،وہا ں بے شمارایسے واقعات رونما ہوئے جو جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں ۔ امریکا جب کسی ملک پر حملہ آور ہوتا ہے تو پہلے وہ وہاں کی کمزور حکومتوں سے یہ فیصلہ کر واتا ہے کہ امریکی فوجیوں کے خلاف اس ملک کے قوانین کے تحت کوئی مقدمہ نہیں چلا یا جائے گا ، امریکیوںکا کہنا یہ ہے کہ امریکا میں ہمارے قوانین ہیں ہم امریکی فوجیوں کے خلاف خود مقدمہ چلائیں گے اور سزائیں دیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ظاہر ہے کہ ان کی مرضی ہے وہ حملہ آور ہیںجارحیت بھی انہوںنے کی ہے ،ایک ملک پر قبضہ کیا اور ایک حکو مت کو ہٹایا اپنی مرضی کی حکو مت لے کر آئے اور ان کا موقف ہے کہ امریکی فوجیوں پر مقامی قوانین لاگو نہیں ہونے چاہئیں، گزشتہ دنوں بھارت میں بھی ایک بڑا واقعہ رونما ہوا تھا جس میںفوجی لوگوںکے گھروں میں گھس گئے تھے ، اور وہا ںپر کئی افراد کو انہوں نے تشدد کا نشانہ بنایا جس میں خواتین ہلاک ہوئی تھیں اس واقعے میں ایک امریکی افسر پکڑا گیا اس کو امریکا لے گئے ، اس پر مقدمہ چلایا گیا ۔ اب اس کو کیا سزا ہوئی یہ دیکھنا باقی ہے ، مگر اس نے جو جرم کیا تھا اس کے مقابلے میں اس کی سزا بہت کم تھی ۔انہوںنے کہا کہ امریکا اور اس کے اتحادیوںنے افغانستان میں بے گناہ بچوں اور بچیوں سمیت سیکڑوں افراد کو شہید کیا،ان واقعات کی تصدیق ہیومن رائٹس کے اداروں کی بے شمار رپورٹس ہیں جس میںسرفہرست قندوز میں مدرسے پر بمباری ،عام شہریوںکے قافلوںکو نشانہ بنا یا ، شادی کی تقریب ، جنازے کے اجتماع پر بمباری کی گئی اس کے باوجود کسی قسم کا کو ئی مقدمہ نہیں چلا یا گیا اور افغان حکومت بے بس اور مجبورہے جو انہی سے مدد لیتی ہے۔جنگی جرائم کی عدالت انٹر نیشنل کرمنل کو رٹ(آئی سی سی) کے نمائندے کی حیثیت سے تحقیقات کرنے والی خاتون فاتو بینسودا کو ٹرمپ کی جانب سے دھمکیاں دی گئیں اور ان پر امریکا میں داخلے پر پابندی عاید کی گئی ، تحقیقات سے ثابت ہوا تھا کہ امریکا نے افغانستان میںکتنا ظلم کیا ہے اور ان مظالم میں نیٹو ممالک بھی برابر کے شریک ہیں، آسٹریلیاکی مثال سامنے ہے جہاں حکومت نے مجبوری کی حالت میں کارروائیوں کا فیصلہ لکھا گیا ، دیکھتے ہیں کہ ان فوجیوںکو کیا سز ا دی جاتی ہے۔ امریکا کے خلاف بالکل اسی طرح ٹرائل کرنے چاہئیں جس طرح ہٹلر کے نازیوں کے خلاف نیوریمبرگ ٹرائل ہوئے تھے ، اگر ایسا نہ بھی کر سکیں تو تب بھی امریکی جنگی جرائم کیخلاف آواز اٹھانی چاہیے ۔امریکیوں کے خلاف سنگین جنگی جرائم کی خلاف ورزیوںپر مقدمہ چلنا چاہیے ۔ امیر جماعت اسلامی صوبہ خیبر پختونخوا سابق رکن قومی اسمبلی شبیر احمد خان نے کہا کہ امریکا اور نیٹوفورسز نے افغانستان میں 19برسوں میں بے دریغ قتل وغارت کی ہے اس سے پہلے یہ تباہی روسی فوج نے کی تھی ، امریکا نے ہر قسم کا خطر ناک ہتھیار افغانستا ن میںآزمایا ہے اور سول آبادی ،جنازوں کے اجتماعات ، مساجد ،دینی مدارس ،تعلیمی اداروںکو ہدف بنایا گیا جس کے نتیجے میں لاکھوںکی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیںہزاروں بچے اور بچیاںبھی شہدا میں شامل ہیں ۔ انہوںنے کہا کہ امریکا اور اس کے اتحادیوںکیخلاف عالمی عدالت انصاف میں مقدمات چلنے چاہئیں اور انہیں قرار واقعی سزائیں دی جائیں۔نصرت مرزا نے کہا کہ امریکانے عراق، افغانستان، ویتنام ، کمبوڈیا سمیت دیگر کئی ممالک میں لاکھوں بے گناہ انسانوں کو قتل کرکے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے، ویتنام میں 30لاکھ لوگ اور امریکا کے 58ہزار فوجی مارے گئے تھے۔ویتنام کی جنگ کے دوران امریکی فضائیہ نے گھنے جنگلوں میں ڈائی اوکسین ایجنٹ اورنج نامی گیس کا اسپرے کیا تھا، اس گیس سے متاثر ہونے والے کئی لوگ آج بھی ذہنی اور جسمانی عارضوں میں مبتلا ہیں۔امریکیوں کا کہنا تھا کہ وہ اقوام عالم کی جانب سے 126ممالک کے دستخط سے بننے والی عدالت کا رکن نہیں ہے اس لیے ان پر اس عدالت کے قوانین کا اطلا ق بھی نہیں ہوتا۔ امریکا کے جنگی جرائم کی فہرست بہت طویل ہے۔ نصرت مرزانے کہا کہ وقت کا تقاضا ہے کہ اب اسلامی دنیا کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ امریکا کسی کا خیر خواہ نہیں ۔ اسلامی دنیا اور خاص طور پر پاکستان، ترکی ، ایران،افغانستان کو ایک اسلامی بلاک بنا کر اسلامک کرمنل کو رٹ بنا نی چاہیے جس میں امریکی جنگی جرائم کی تحقیقات کی جائیں اور تحقیقات کی روشنی میں سزا دی جائے ۔پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر نے کہا کہ امریکا کی جانب سے افغانستان اور عراق میںبڑی تباہی دیکھنے میں آئی ، عراق میں امریکا اور برطانیہ نے خود سے حملہ کیا جبکہ افغانستان میں حملہ باقاعدہ سیکورٹی کونسل میں منظوری کے بعد کیا گیا۔ جنگی جرائم کی خلاف ورزیوںکے حوالے سے اس سے قبل بو سینیا اور سوڈان میں بھی کارروائیاں دنیا کے سامنے آئیں ۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ان کا سدباب ہونا چاہیے ،1968ء میں جنگی جرائم کی خلاف ورزیوں پر بھی ویت نام میںتحقیقات کے بعد امریکی فوج پر الزام ثابت ہوئے لیکن چھوٹی سزائیں دے کر معاملہ رفع دفع کردیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ میں مقدمہ چلانے کے لیے جنگی جرائم کی خلاف ورزیوں کے ثبوت ہیو من رائٹس کی تنظیمیں شواہد اکٹھے کریں اور پیش کریں تو شایدکسی حد تک جنگی جرائم میں کمی آسکے ۔ انہوںنے کہا کہ کشمیر میںدیکھیں جو ظلم ہورہا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں ہیے ، بے حسی کی انتہا ہوگئی ہے اس کے خلاف بھی موثر آواز اٹھنی چاہیے ۔جن ممالک کو سیکورٹی کونسل میںویٹو کا اختیار ہے وہ خودجنگی جرائم میں ملوث ہے وہ کبھی بھی اس پلیٹ فارم پر آواز بلند نہیں کریںگے ۔ انہوںنے کہا کہ امریکا میں نئی انتظامیہ آئے گی تو دیکھنا ہے کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوںپر کیا پالیسی اختیار کرتی ہیں ،ان کے ایجنڈے میںیہ بات واضح تھی کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوںکو برداشت نہیںکریں گے ۔انہوںنے کہا کہ جب ریاستیں ہی انسانی حقوق کی پامالی میں شامل ہوںتو اس حوالے سے کچھ بھی نہیںکیا جاسکتا ،بہر حال وقت ایک جیسا نہیں رہتا اس کی مثال ماضی میںجھانکنے سے ملتی ہے گزشتہ 2 دہائیوںقبل سامرانی طاقتیں کمزور ممالک پر قابض ہوجاتی تھیںحالیہ دور میں ایسا کرنا آسان نہیںہے ۔ میرے خیال میںانسانی حقوق کی خلاف ورزیوںپر آواز اٹھتی رہنی چاہیے ۔