یہودی اسرائیل کیخلاف تھے مگر پھر

669

عیسائی صہیونیت عیسائیوں کا ایک خفیہ انتہاپسد گروہ یے جس کا یہ عقیدہ ہے کہ یہودیوں کی سرزمین مقدسہ میں واپسی اور 1948 میں ریاست اسرائیل کا قیام بائبل کی پیشگوئی کے مطابق ہے اور اس کا وقوع پذیر ہونا لازمی ہے کیونکہ حضرت عیسٰی علیہ سلام کی دوسری آمد یہودیوں کے اسرائیل میں جمع ہونے پر منحصر ہے۔

اس عقیدے نے 20 ویں صدی کے وسط میں عیسائی بحالی مدارج Christian Restorationism کے عقیدے کو مات دے کر عوام الناس میں مقبولیت حاصل کرلی جبکہ اس کی جڑیں 17ویں صدی سے ہی انگلینڈ میں مظوط ہوچکی تھیں۔

اسرائیلی مورخ انیتا شاپیرا کے مطابق انگلینڈ میں عیسائی صیہونیوں نے یہودیوں کی علیحدہ سرزمین کا خیال یہودی حلقوں میں پھیلایا جبکہ انیسویں صدی کے اوائل تک برطانوی یہودی اسرائیل کے تصور سے بھی ناآشنا تھے اور متعصب قوم پرست یہودیوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔

جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے کہ عیسائی صہیونیوں کا ماننا ہے کہ اسرائیل میں یہودیوں کا جمع ہونا عیسٰیؑ کے دوبارہ آنے کیلئے لازمی شرط ہے۔ اس کے بعد سے ہی پروٹسٹنٹ حلقوں میں اس بات کا شعور زیادہ جڑ پکڑ گیا کہ یہودیوں کیلئے ایک الگ سرزمین کا قیام لازمی ہے اور اسرائیل میں اُن کی آباد کاری کی بھرپور حمایت کرنی چاہئے۔

عیسائیوں کی جانب سے یہودیوں کو یوگینڈا کا ایک حصہ پیش کیا گیا تھا لیکن صیہونی یہدیوں نے اسے ٹھکرا کر فلسطین کو چنا کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ یہ زمین اُن کی وراثت ہے جو خدا کی طرف سے انہی کیلئے مختص کی گئی ہے۔

مغربی ممالک کا اسرائیل کی بقا کیلئے اپنے وسائل صرف کرنا اور اُن کے فلسطینیوں پر مظالم پر خاموشی اختیار کرنا، یہ اس لے نہیں کہ انہیں یہودیوں سے ہمدردی ہے بلکہ وہ یہ سب حضرت عیسٰیؑ کی آمد کیلئے اُس پیشینگوئی کو پایہ تکمیل تک پہنچا رہے ہیں جو ان کی بائبل میں موجود ہے۔ جہاں تک یہدیوں کا سوال ہے تو ایک معروف یہودی عالم نے ایک انٹرویو کے دوران اس بات کا برملا اعتراف کیا ہے کہ جب تک امریکہ (عیسائی) اسرائیل کی حمایت، اسے وسائل اور پیسہ دے رہیں ہے ہم اُنہیں استعمال کرتے رہیں گے۔