موددی سرکار کسانوں کو منانے میں ناکام ، احتجاج شدید تر

339
بھارت: ہزاروں کسان دہلی ہریانہ سرحد پر بیٹھے ہیں‘ زراعت اور ریلوے کے وزرا کاشت کار یونین کے رہنماؤں سے مذاکرات کررہے ہیں

نئی دہلی (انٹرنیشنل ڈیسک) بھارت میں مودی سرکار کے منظور کرائے گئے نئے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کا احتجاج مسلسل شدت اختیار کررہا ہے۔ دہلی کے باہر 8روز سے دھرنے اور مظاہرے جاری ہیں۔ مودی سرکار کسانوں کو منانے میں اب تک ناکام رہی ہے، جس کے باعث اب دیگر ریاستوں میں بھی کسانوں نے مظاہروں کا اعلان کر دیا ہے۔ کشیدہ صورت حال کو سنبھالنے کے لیے وزیر داخلہ امیت شاہ نے بدھ کے روز کئی اہم وزرا اور حکام کے ساتھ ملاقاتیں کیں، جن میں ایک بار پھر کسانوں کو منانے کی کوششیں کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ اسی دوران پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں نے دہلی میں داخل ہونے والے 5 راستے پوری طرح بند کر دیے ہیں۔ یہ بھارت میں حالیہ برسوں کے دوران کسانوں کا سب سے بڑا احتجاجی مظاہرہ ہے۔ ہزاروں کسان دہلی کی سرحدوں پر جمع ہیں اور انہوں نے وہاں خیمے گاڑ دیے ہیں۔ وزیر داخلہ آججمعرات کے روز ایک بار پھر کسانوں کو منانے کی کوشش کریں گے، تاہم کسانوں کا کہنا ہے کہ متنازع قوانین واپس لیے جانے تک وہ اپنا احتجاج جاری رکھیں گے، خواہ اس کے لیے انہیں 6 ماہ تک انتظار کرنا پڑے۔ کسانوں کے ’’دہلی چلو‘‘ مظاہرے کو روکنے کے لیے تمام حربے ناکام ہونے کے بعد مودی سرکار نے منگل کے روز کسانوں سے بات چیت کی تھی، لیکن وہ انہیں احتجاج ختم کرنے پر آمادہ نہیں کر سکی۔ اس تحریک کو صرف پنجاب کے کسانوں کا احتجاج بنا کر پیش کرنے کی حکومتی کوشش بھی ناکام رہی۔ پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں نے دہلی میں داخل ہونے والی سرحدوں کو پوری طرح جام کردیا ہے۔ ان تمام پانچوں سرحدوں پر ہزاروں کسان جمع ہو چکے ہیں، جب کہ اترپردیش، ہریانہ اور پنجاب کے مختلف اضلاع نیز ملک کے مختلف حصوں سے کسانوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ حالاں کہ بعض مقامات پر انہیں گرفتار بھی کیا جارہا ہے۔ کسانوں کے مظاہروں کی وجہ سے ملک کے دیگر حصوں کو قومی دارالحکومت سے جوڑنے والی بیشتر اہم قومی شاہراہیں بند ہوگئی ہیں۔ کورونا کی وجہ سے جو چند ایک ٹرینیں چل رہی تھیں ان میں سے بھی بیشتر کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔ کسانوں کی اس تحریک کو مختلف حلقوں سے حمایت مل رہی ہے۔