اسٹیٹ بینک سودی نظام کا سب سے بڑا محافظ

559

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے 1948ء میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر کہا تھا اور ملک کے ماہرین کو ہدایت کی تھی کہ وہ اقتصادیات و معیشت میں مغرب کے ناکام استیصالی نظام کی پیروی کرنے کے بجائے اسلام کے فطری اصولوں پر پاکستان کے اقتصادی نظام کی بنیاد رکھیں۔ لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مرکزی بینک سود اور سودی کاروبار کے قرآن و سنت سے متصادم ہونے کے باوجود آج بھی اسی کاروبار پر نہ صرف بضد بلکہ اس کی ترقی اور پرورش کے لیے سودی بینکاری کو اسلامی رنگ میں ملبوس کرنے میں سرگرم بھی نظر آتا ہے۔
وفاقی شرعی عدالت نے 114 کیسز کی مشترک سماعت کے دوران میں پاکستان سمیت دنیا بھر کے بینکرز‘ اکانومسٹس‘ حکومتی نمائندوں اور علماء کو تفصیلی طور پر سنا اور دقیق بحثیں کیں اور تحریری اور زبانی بیانات حاصل کیے اور اکتوبر 1991 میں 157صفحات پر مشتمل اپنا تاریخی فیصلہ سنایا۔ اْس وقت کی وفاقی شرعی عدالت جسٹس تنزیل الرحمن صاحب بطور چیف جسٹس‘ جسٹس فدا محمد خان صاحب اور جسٹس عبید اللہ خان صاحب پر مشتمل تھی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں نہ صرف یہ کہ سود کی ایسی تعریف متعین کی جسے معیار بنا کر مروّجہ نظامِ معیشت میں پائے جانے والے سودی معاملات اور آئین اور دستور میں مذکور سودی دفعات کا جائزہ لیا جاسکتا تھا، بلکہ رائج تمام سودی قوانین (22قوانین) کا جائزہ لے کر بینکنگ سمیت تمام سودی لین دین کو حرام قرار دیا اور وفاقی حکومت اور تمام صوبوں سے بھی کہا کہ وہ 30جون 1992ء تک متعلقہ قوانین میں تبدیلی کرلیں اور یہ بھی کہ یکم جولائی 1992ء سے تمام سودی قوانین غیر آئینی ہوجائیں گے اور تمام سودی کاروبار غیر اسلامی ہونے کی بنا پر ممنوع قرار پائے گا۔
اس کے بعد عدالت عظمیٰ کے شریعت اپیلیٹ بینچ نے ہر قسم کے سود اور سودی کاروبار کو قرآن و سنت سے متصادم اور غیر اسلامی قرار دے کر فیصلہ دے دیا کہ سود اور سودی کاروبار کے بارے میں تمام مروجہ قوانین13مارچ 2000ء کو خودبخود ختم ہو جائیں گے۔ جسٹس خلیل الرحمان خان، جسٹس منیر اے شیخ، جسٹس وجیہ الدین اور جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی پر مشتمل اپیلیٹ بینچ نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف متعلقہ فریقوں کی اپیلوں کی طویل سماعت کے بعد یہ تاریخی فیصلہ صادر کیا اور حکومت پاکستان کو ہدایت کی کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں ایک ماہ کے اندر کمیشن قائم کیا جائے جو دو ماہ کے اندر موجودہ مالیاتی نظام کو شریعت کے مطابق ڈھالے۔ جبکہ فیصلے میں وزارت ِ قانون کو ہدایت کی گئی کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی معاونت سے ایک ماہ کے اندر ٹاسک فورس بنائی جائے جو اس بات کا جائزہ لے کہ اسلامی مالیاتی نظام کے لیے کون سے قوانین بنائے جا سکتے ہیں۔
اب اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے کر دار کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ اس نے عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر عمل نہ کرنے لیے کس قدر سنجیدگی سے کوششوں کا آغاز فیصلے کے فوری بعد شروع کر دیا تھا اور آج بھی وہ اپنی سی بھر پور کوشش میں مصروف نظر آرہا ہے۔ 1999 سے 2005ء کے دوران اسٹیٹ بینک کے گورنر ڈاکٹر عشرت حسین تھے جو عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر عمل کو یقینی بنانے کے بجائے یہ اعلان کرتے پھر رہے تھے اور یہ سب کچھ ریکارڈ پر موجود ہے گورنر ڈاکٹر عشرت حسین سے ڈاکٹر باقر تک اسٹیٹ بینک کے تمام ہی گورنر ز اسٹیٹ بینک کی سود کے بغیر بینکاری کے لیے کوئی نمایاں کام نہیں کر سکے۔ اس کے برعکس اسٹیٹ بینک نے یو بی ایل کی مدد سے دوبارہ یہ بحث شروع کرا دی ہے کہ ’’سود اور بینک انٹرسٹ الگ الگ ہے‘‘ یہ ایک بڑا المیہ ہے جس پر سر ہی پیٹا جاسکتا ہے۔ یہ بھی ریمارکس دیے گئے کہ افراط زر کی وجہ سے کرنسی کی قدر میں تبدیلی ہوجاتی ہے۔ یہ ساری باتیں پہلے ہی زیر بحث آچکی ہیں۔ اپیلیٹ بینچ کے فیصلے کے بعد ریویو کے لیے وفاقی شرعی عدالت کو مقدمہ بھیجنے کا کوئی جواز نہ تھا۔ تمام ماہرین کا یہ کہنا تھا کہ یہ سب کچھ بڑی بددیانتی کے ساتھ کیا گیا تھا۔ 2000ء میں اسٹیٹ بینک نے ملکی بینکاری کو مکمل طور پر ’’سود فری‘‘ بنانے کے لیے ’’حنفی کمیٹی‘‘ بنا دی تھی جس نے بینکاری قوانین اسلامی قوانین میں تبدیل کرکے اسٹیٹ بینک کو بھیج دیے تھے اور یہ سب اسٹیٹ بینک کے ریکارڈ میں موجود ہے لیکن اس پر بھی کوئی مدد لینے کے بجائے فائلوں میں بند کر دیاگیا۔
یہ معاملہ 2008ء تک سرد خانے میں پڑا رہا جس کے بعد سماعت شروع کی گئی جو چھ ماہ تک جاری رہی۔ اس مسئلے پر دوبارہ بحث ہوتی رہی۔ پوری دنیا کے ماہرین کے موقف کو دوبارہ سنا گیا جس کے بعد اپیلیٹ بنچ نے فیصلہ دیا کہ 1991ء کا فیصلہ درست تھا۔ 2002ء سے مقدمے کو سردخانے میں ڈالا ہوا تھا۔ کچھ لوگوں نے بڑی کاوشوں کے بعد اسے سرد خانے سے باہر نکلوایا ہے لیکن اب اس کے ساتھ جو سلوک ہورہا ہے وہ سب پر عیاں ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ اللہ کے عذاب کو دعوت دینے کی کوشش ہی کہی جاسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کسی انجام بد سے بچائے۔
جوعالمی سودی نظام کا پیدا کردہ ہے اور یہودی ساہوکاروں نے جس مقصد کے لیے یہ نظام تشکیل دیا تھا یہ اس کا نقطہ ٔ عروج ہے جو بتدریج اپنے درجہ تکمیل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اب یہ فیصلہ کرنا عالم اسلام اور مسلم حکومتوں کا کام ہے کہ مروجہ عالمی معاشی نظام کے نیٹ ورک کے اندر رہتے ہوئے اپنے گرد معاشی غلامی کے اس خوفناک شکنجے کا حصار خود اپنے ہاتھوں تنگ کرتے چلے جانا ہے یا اس منحوس و ملعون اور استیصالی نظام کو کلیتاً مسترد کر کے اس طلسم ہوش ربا سے نجات حاصل کرنی ہے۔ سود اور اس کے نظام سے نجات ہمارا صرف دینی مسئلہ نہیں بلکہ معیشت و اقتصاد کے حوالے سے ملت اسلامیہ کی آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے اور یہودی ساہوکاروں کے آہنی شکنجے سے چھٹکارا حاصل کرنے کا واحد ذریعہ بھی ہے جس کے لیے پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت اور عدالت عظمیٰ کے شریعت اپیلیٹ بینچ کے یہ تاریخی فیصلے پورے عالم اسلام کے لیے راہنمائی کا روشن مینار ہیں۔ لیکن اسلامی ممالک کے حکمران اسی نور کو ختم کرنے کے لیے اپنی پوری توانائی صرف کرنے میں مصروف ہیں اور اس کے لیے عالم اسلام کے وسائل کو تباہ اور معیشت کو بر باد کرکے مسلمانوں کو بھوک افلاس اور غربت سے دو چار کر رہے ہیں۔ اب ایک بات جو عدالت عظمیٰ سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے کہ ’’حکومت یا یو بی ایل کو اس بات کا اختیار نہیں تھا وہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کرے۔