برصغیر میں موروثی حکمرانی، تباہی کا باعث

870

ملتان میں پی ڈی ایم کے جلسہ میں آصفہ زرداری کی شرکت کو سیاست میں ان کے پہلے قدم سے تعبیر کیا جارہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ یہ موروثی سیاست کا تسلسل ہے۔ اس بارے میں کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیے کیونکہ موروثی سیاست برصغیر کی دیرینہ روایت ہے اور سیاست دان اس پر فخر کرتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ 1991 میں بے نظیر بھٹو جب اقتدار سے محروم تھیں تو انہوں نے برصغیر کے حزب مخالف کے رہنمائوں کی اسلام آباد میں ایک کانفرنس بلائی تھی جس میں ہندوستان کے وی پی سنگھ، بنگلا دیش کی حسینہ واجد اور سری لنکا کی صدر چندریکا کمار تنگا کے حریف بھائی انورا بندرا نائیکے شریک ہوئے تھے۔ بے نظیر بھٹو نے اس کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے کہا تھا کہ جنوبی ایشیاء کے موروثی حکمرانوں نے عظیم خدمات انجام دی ہیں اور اس علاقہ کے لیے اس میں بہتری ہوگی اگر یہ خاندان دوبارہ بر سر اقتدار آجائیں۔ بلا شبہ بے نظیر بھٹو کے اس خطاب سے خود ستائی عیاں تھی اور اصل مقصد موروثی سیاست کی تباہیوں پر پردہ ڈالنا تھا، جو خود فریبی کے مترادف تھا۔
برصغیر میں موروثی حکمرانی کی ابتدا سری لنکا سے ہوئی۔ گو، بندرا نائیکے کی بیوہ سری ماو پہلی موروثی وزیر اعظم مشہور ہیں لیکن ان سے پہلے عجیب و غریب خاندانی وراثت کا سلسلہ جاری تھا جو سری لنکا کی آزادی کے بعد دس سال تک حاوی رہا۔ سری لنکا میں آزادی کے بعد 47سال تک موروثی حکمرانی رہی جس کے دوران ملک نے 30سال تک تامل ٹائیگرز کی دہشت گردی اور خونریز خانہ جنگی کی تباہی دیکھی۔ 50ہزار سے زیادہ افراد اس خانہ جنگی کی بھینٹ چڑھ گئے اور چار لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوئے۔ دو کروڑ کی آبادی والے اس جزیرے کے لیے یہ خانہ جنگی قیامت سے کم نہیں تھی، جس کی ذمے دار موروثی حکمرانوں کی کوتاہ نظر پالیسی تھی۔ ہندوستان میں نہرو نے اپنی بیٹی اندرا گاندھی کے لیے وزارت عظمیٰ کی راہ بڑے منظم طریقہ سے استوار کی تھی۔ سب سے پہلے انہوں نے اندرا گاندھی کو کانگریس کا صدر منتخب کرایا۔ اس کا مقصد سیاسی تجربہ کے ساتھ کانگریس پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا تھا، خاص طور پر ان رہنمائوں کے ٹولہ سے تعلقات استوار کرنا تھا جو پارٹی میں پادشاہ گر سینڈیکیٹ کے نام سے مشہور تھا، اسی سینڈیکیٹ نے تاشقند میں لال بہادر شاستری کے انتقال کے بعد اندرا گاندھی کو وزارت عظمیٰ پر فائز کیا تھا۔ کانگریس میں موروثی سلسلہ دراصل اندرا گاندھی نے جاری رکھا جو اب تک جاری ہے۔ اندرا گاندھی اپنے چہیتے بیٹے سنجے کو اپنا جانشین دیکھنا چاہتی تھیں لیکن اپنے چلبلے پن میں مشہور سنجے طیارے کے کرتب کے دوران ہلاک ہو گئے۔ یہی سنجے تھے جنہوں نے آبادی میں اضافہ کی روک تھام کے لیے نس بندی کی مہم شروع کی جس کا تمام تر زور مسلم علاقوں میں تھا، پھر انہوں نے پرانی دلی سے مسلمانوں کو نکال کر غازی آباد اور دور بستیوں میں منتقل کردیا۔ سنجے کی ہلاکت کے بعد اندرا گاندھی نے انڈین ائرلائنز میں اپنے ہواباز بیٹے راجیو کو اپنے جانشین کے طور پر تیار کرنا شروع کیا۔
ہندوستان کے عوام کو اندرا گاندھی پر ناز ہے کہ انہوں نے بنگلا دیش کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے مشرقی پاکستان پر حملہ کیا اور پاکستان کو دولخت کر دیا لیکن اس شادمانی کے نشے میں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اندرا گاندھی نے اپنی حکومت بچانے کے لیے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر کے جمہوریت پر کاری وار کیا تھا، اور خالصتان کی تحریک کو کچلنے کے لیے امرتسر کے دربار صاحب میں پناہ گزیں جرنیل سنگھ بھنڈراں والا اور ان کے حامیوں کو نکالنے کے لیے حملہ کیا تھا، جس میں بھنڈراں والا کے ساتھ پانچ سو سکھ ہلاک ہوئے اور خالصتان کے ایک ہزار پانچ سو حامی لاپتا ہوگئے۔ دربار صاحب کے حملہ پر سکھو ں میں اس قدر ناراضی کی آگ بھڑکی کہ اندرا گاندھی کے دو سکھ محافظوں نے انہیں گولی مار کر ہلاک کردیا۔ اس کے جواب میں دلی اور شمالی ہند میں سکھوں کا قتل عام ہوا جس میں دلی میں دو ہزار ایک سو سکھ مارے گئے اور دلی سے باہر آٹھ سو سکھوں کی جانیں گئیں۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد راجیو گاندھی وزارت عظمیٰ پر فائز ہوئے لیکن بوفورس اسلحہ کے اسکینڈل، بھوپال کے گیس سانحہ، سویت کے جی بی سے رقومات کی ترسیل اور کالا دھن جمع کرنے کے الزامات نے ان کا تعاقب شروع کر دیا۔ راجیو گاندھی نے سری لنکا میں تامل ٹائیگرز کے خلاف ہندوستان کی فوج بھیجنے کا فیصلہ کیا جس کی قیمت انہیں مدراس شہر کے قریب تامل ٹائیگرز کے خود کش حملہ میں ہلاک ہونے کی صورت میں دینی پڑی۔ قتل کے بعد راجیو کی اطالوی بیگم سونیا نے کانگریس کی قیادت سنبھالی۔ ان کے ساتھ ان کے بیٹے راہول پارٹی کے صدر رہے ہیں۔ نہرو، اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی نے ملک پر بیالیس سال تک حکمرانی کی اور ورثے میں کشمیر کا خونریز مسئلہ، چین اور پاکستان کے خلاف دو جنگوں کی تباہی اور اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کا دور نمایاں ہے۔ نہرو خاندان کی سیکولرزم کی علم برداری محض ملمع ثابت ہوئی اور جیسے ہی ان کے اقتدار کادور ختم ہوا، ہندوقوم پرستی کا عفریت پورے ملک پر مسلط ہو گیا جس کا مظہر نریندر مودی کی ہندوتوا کی مہم ہے۔ نہرو خاندان کی قیادت پر یہ الزام عاید ہوتا ہے کہ اس نے ملک کے عوام کی ذہنیت بدلنے کے لیے کوئی کاوش نہیں کی، محض اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے میں ساری قوت صرف کر دی۔ بنگلا دیش میں موروثی حکمرانی ابھی پہلی نسل سے آگے نہیں بڑھی۔ شیخ حسینہ واجد اپنے والد شیخ مجیب کے قتل کے بعد ان کی واحد وارث تھیں۔ ان کے مقابلہ میں صدر ضیا الرحمان کے قتل کے بعد سیاست میں ابھرنے والی خاتون بیگم خالدہ ضیا تھیں جو اپنی جماعت بی این پی منظم کرنے کے بعد 1991 میں وزیر اعظم بنیں اور دوبارہ 2001 میں۔ بنگلا دیش میں شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد اور جنرل ضیا الرحمان کی بیوہ کے درمیان موروثی سیاست کی جنگ نے ملک کی سیاست کو تہس نہس کردیا ہے۔
پاکستان میں موروثی سیاست کا آغاز پیپلز پارٹی سے ہوا۔ لیکن مختلف انداز سے۔ پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد ان کی بیوہ بیگم نصرت بھٹو پارٹی کی سربراہ بنیں لیکن ان کا اقتدار صرف پارٹی تک محدود رہا جو ان کی علالت کے باعث بے نظیر بھٹو کو منتقل ہوا اس عمل میں قدرے کشیدگی کا عنصر بھی تھا۔ بہر حال جنرل ضیا الحق کے گیارہ سالہ دور میں دونوں بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر نے متعدد بار گھر میں نظر بندی کی صعوبتیں برداشت کیں اور بے نظیر بھٹو کو جلاوطنی کی مصیبت سہنی پڑی۔ آخر کار 1988 میں طیارے کے پراسرار حادثے میں جنرل ضیا کی ہلاکت کے بعد جب فوج کے سربراہ اسلم بیگ نے عام انتخابات کرائے تو ان میں فتح کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو ایوان اقتدار میں داخل ہوئیں۔ لیکن دو سال بعد ہی صدر غلام اسحاق خان نے کرپشن اور اقربا پروری کے الزامات لگا کر انہیں وزارت عظمیٰ سے برطرف کردیا۔ کرپشن کے علاوہ بے نظیر بھٹو کے دور میں بے روزگاری اپنی انتہا پر تھی جس پر وہ قابو پانے میں ناکام رہیں۔ حکومت عملی طور پر دیوالیہ ہوگئی تھی اور منشیات کی غیر قانونی تجارت عروج پر تھی۔ وہ تمام خواب، چکنا چور ہو گئے جن کی عوام کوپیپلز پارٹی کی حکومت میں شرمندہ تعبیر ہونے کی امید تھی۔
1993کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد بے نظیر دوسری بار وزیر اعظم بنیں لیکن یہ معیاد ان کے لیے بڑی کٹھن رہی۔ ایک طرف ذوالفقار علی بھٹو کے سوئس بینک میں اکائونٹ پر مرتضیٰ بھٹو اور آصف علی زرداری کے درمیان شدید تنازعے نے خاندان میں بحران پیدا کر دیا تھا، پھر کراچی میں مرتضیٰ بھٹو قتل کر دیے گئے جس کا الزام بیگم نصرت بھٹو نے زرداری پر لگایا۔ اسی کے ساتھ ان کے شوہر کے خلاف سنگین کرپشن کے الزامات نے جن کی بناء پر ان کو ٹین پرسنٹ کہا جاتا تھا، بے نظیر بھٹو کی حکومت کو داغ دار کر دیا تھا۔ اور اسی کرپشن کے الزامات کے تحت صدر لغاری نے ان کی حکومت کو برطرف کردیا تھا۔ یہ بات بے نظیر بھٹو کے لیے شرمندگی کا باعث تھی کہ دونوں بار ان کی حکومتیں کرپشن کے الزامات کے تحت برطرف ہوئیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پیپلز پارٹی کی موروثی قیادت کا انداز خالص جاگیردارانہ رہا ہے۔ باپ سے بیٹی اور بیوی سے شوہر اور شوہر سے بیٹے کی جانشینی۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ جمہوریت کی علم بردار جماعت پیپلز پارٹی کی قیادت کے معاملے میں کہیں انتخاب کا کوئی مرحلہ راہ میں نہیں آیا۔ پارٹی کے موجودہ چیئرمین بلاول زرداری کو اگر وصیتی رہنما کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد آصف علی زرداری نے لاڑکانہ میں جمع پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کو دور سے ایک کاغذ دکھایا جس پر ہری روشنائی سے تحریر کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ بے نظیر بھٹو کی وصیت ہے۔ زرداری کے مطابق اس میں بلاول کو پارٹی کو چیئرمین مقرر کیا گیا ہے اور جب تک وہ تعلیم ختم نہ کر لیں وہ شریک چیئرمین رہیں گے۔ عصری تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ جب کسی سیاسی جماعت کا سربراہ وصیت کے ذریعہ مقرر کیا گیا ہو۔ اورآ صفہ زرداری کی سیاست کے میدان میں آمد بھی کچھ اسی انداز کی ہے۔ کسی انتخاب کے بغیر پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے انہیں ملتان کے یوم تاسیس کے جلسہ میں پارٹی کی نمائندگی کے لیے نامزد کیا۔
نواز شریف نے بھی بھٹو کی دیکھا دیکھی اپنی خاندانی وراثت قائم کرنے کی کوشش کی لیکن بہت تاخیر سے کیونکہ نواز شریف جب 1981میں پنجاب کے وزیر خزانہ اور بعد میں وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے سیاست کے میدان میں داخل ہوئے تو اس وقت وہ عملی طور پر اپنے والد محمد شریف کے زیر تربیت تھے اور ان کی بڑی صاحب زادی مریم آٹھ سال کی تھیں اور نواز شریف کے دونوں بیٹے بہت چھوٹے تھے۔ جس طرح بلاول کا نام ان کے نانا بھٹو سے وابستہ کیا گیا ہے مریم صفدر نے بھی سیاسی مصلحت کی بناء پر اپنے آپ کو مریم نواز کہلانا شروع کیا ہے۔ مریم نواز 2013 کے انتخابات میں سیاسی میدان میں آئیں جب انہوں نے نواز شریف کی انتخابی مہم میں حصہ لیا۔ اس وقت نواز شریف کے دونوں صاحب زادے لندن میں تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد جائداد کے بزنس میں مصروف تھے۔ نواز شریف کی یہ خواہش نمایاں نظر آتی ہے کہ مریم نواز ان کی جانشین کی حیثیت سے سیاسی میدان میں ابھریں۔ گو مریم نواز مسلم لیگ ن کی نائب صدر ہیں لیکن ان کا خاندان ان کے لیے ایک بڑی سیاسی دلدل نظر آتا ہے۔ ان کے چچا اور ان کے بیٹے ان کے حریف نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں چار دہائیوں سے سیاست اور اقتدار پر دو گھرانوں کے تسلط کی سب سے بڑی وجہ ہمارا جاگیردارانہ معاشرہ ہے جس کی جڑیں بڑی گہری ہیں، یہی وجہ ہے کہ قومی اسمبلی، چار صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں پنجاب کے 379گھرانے، سندھ کے 110گھرانے، خیبر پختون خوا کے 56گھرانے اور بلوچستان کے 15گھرانے نشستوں پر قابض رہے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ پاکستان میں اقتدار پر دو گھرانوں کی موروثی حکمرانی نے ملک کو اور سنگین مسائل میں گھرے ہوئے عوام کو سوائے کرپشن کی دلدل کے کچھ نہیں دیا۔ نواز شریف کی نااہلی اور زرداری پر کرپشن کے سنگین الزامات نے، بے نظیر بھٹو کا 1991کا دعویٰ باطل ثابت کر دیا ہے کہ جنوبی ایشیاء میں موروثی حکمرانوں نے عظیم خدمات انجام دی ہیں۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ دراصل موروثی سیاست نے پاکستان کی سیاست کو نہ صرف ایک دلدل میں دھکیل دیا ہے بلکہ یہ ملک کی جمہوریت کے جڑوں کو بھی کھوکھلاکر رہی ہے۔