جاڑے کے دن اور جاڑے کی راتیں

543

اِن دنوں ہم سب جاڑے کو بھگت رہے ہیں۔ نومبر کے آخری عشرے میں پورے ملک میں بارشیں ہوئیں جن سے موسمی امراض نزلہ، زکام، کھانسی اور بخار کا زور تو ٹوٹ گیا لیکن جاڑا چمک اُٹھا۔ جاڑے کے دن چھوٹے اور راتیں لمبی ہوتی ہیں۔ سورج بے شک سات بجے تک نکل آتا ہے لیکن اس کی کرنیں جاڑے سے کپکپاتی رہتی ہیں اور کوئی گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے بعد ان میں کچھ جان سی محسوس ہوتی ہے، اگر آسمان پر بادل کا کوئی آوارہ ٹکڑا سورج اور اس کے شیدائیوں کے درمیان حائل نہ ہوجائے تو پھر جشن کا سماں ہوتا ہے اور دھوپ کی سنہری چادر بچوں، بوڑھوں، جوانوں سب کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے، لیکن اب مکانوں کے ڈیزائن ایسے ہوگئے ہیں کہ گرمی ہو یا سردی، دھوپ ان کے اندر داخل نہیں ہوسکتی۔ دھوپ صرف چھتوں پر نظر آتی ہے۔ اِن دنوں دھوپ کی قربت حاصل کرنے بلکہ دھوپ سینکنے کے لیے چھت سے بہتر کوئی اور جگہ نہیں ہے، البتہ کئی کئی منزلہ پلازوں کے مکین اس نعمت سے محروم ہیں۔ چھوٹے شہروں میں یہ مسئلہ نہیں ہے۔ وہاں زیادہ تر ایک یا دو منزلہ مکانات ہیں اور چھتیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں، ہم بھی ایک چھوٹے سے شہر کہوٹا میں رہتے ہیں جو ایک نیم پہاڑی علاقہ ہے اور یہاں پنجاب کی نسبت سردی بھی زیادہ پڑتی ہے۔ خصوصاً جب مری میں برفباری ہورہی ہو تو اس کی برفانی ہوائیں سیدھا کہوٹا کا رُخ کرتی ہیں۔ ایسے میں آسمان صاف ہو اور سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہو تو چھتوں پر خوب گہما گہمی نظر آتی ہے۔ ان دنوں یوں بھی کورونا نے اسکولوں میں چھٹی کرادی ہے، بچے وفاقی وزیر تعلیم جناب شفقت محمود کے اس فیصلے سے بہت خوش ہیں کہ چلو دو مہینے کے لیے ہی سہی پڑھائی سے تو جان چھوٹی ہے۔ بچے فیس بک پر شفقت محمود کی تعریف میں نئے نئے نعرے اور شعر پوسٹ کررہے ہیں۔ ایک شعر نظر سے گزرا۔
جب تک سورج چاند رہے گا
شفقت تیرا نام رہے گا
ہم نے ایک بچے سے کہا ’’بیٹا تم لوگ شفقت محمود کے حق میں اچھا نہیں کررہے ہو۔ اگر عمران خان کو معلوم ہوگیا کہ شفقت محمود طلبہ میں مقبول ہورہے ہیں تو کل ہی کابینہ سے ان کی چھٹی ہوجائے گی‘‘۔ وہ حیرانی سے ہمیں دیکھنے لگا۔
کورونا کی دوسری لہر واقعی شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔ یومیہ ہلاکتوں کی شرح بھی بڑھ رہی ہے اور متاثرین کی تعداد میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے لیکن حکومت ہو یا اپوزیشن دونوں کورونا پر سیاست کرنے میں مصروف ہیں۔ حکومت کو کورونا کی آڑ میں اپوزیشن کے جلسوں کو روکنے اور اس کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا موقع مل گیا ہے، جب کہ اپوزیشن حکومت کی دشمنی میں کورونا کی سنگینی کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔ وہ ضد اور ہٹ دھرمی کے ذریعے عوام کی جانوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ جماعت اسلامی نے موجودہ صورتِ حال کے پیش نظر اپنی رابطہ، عوام مہم دو ہفتوں کے لیے ملتوی کردی ہے۔ اس کے لیے جماعت کو حکومت سے مشاورت کی ضرورت نہ تھی۔ یہی کام پی ڈی ایم بھی کرسکتی ہے لیکن وہ تو ہوا کے گھوڑے پر سوار ہے۔ کوئی معقول بات بھی سننے اور اس پر عمل کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اس کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ عمران خان استعفا دیں اور گھر واپس جائیں۔ بھلا جلسے جلوسوں سے بھی یہ مطالبہ منوایا جاسکتا ہے؟
خیر چھوڑیے اس قصے کو، ہم تو اس وقت جاڑے کی یلغار میں ہیں۔ جاڑے کا دن زیادہ سے زیادہ آٹھ گھنٹے کا ہوتا ہے اور یہ آٹھ گھنٹے کاروبار اور روزگار کی نذر ہوجاتے ہیں۔ جو لوگ ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں انہیں موجودہ مصروف زندگی میں ان آٹھ گھنٹوں کی قدر وقیمت نہیں معلوم، بس دن نکلتا ہے اور تمام ہوجاتا ہے اور بہت سارے کام دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور انہیں مکمل کرنے کے لیے ہفتہ وار چھٹی کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ہاں جاڑے کی راتیں اتنی لمبی ہوتی ہیں کہ کاٹے نہیں کٹتیں۔ ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے جب نہ ٹیلی ویژن تھا، نہ انٹرنیٹ اور موبائل سروس۔ سورج ڈھلتے ہی اندھیرا چھا جاتا تھا۔ گلیوں میں کتے بھونکنے لگتے تھے اور مائیں بچوں کو تھپک کر سلا دیتی تھیں۔ اب جدید ذرائع ابلاغ نے سارا کلچر ہی بدل دیا ہے۔ اب ہر گھر میں راتیں جاگتی ہیں، بچے انٹرنیٹ پر اپنی پسند کے کھیل کھیلتے رہتے ہیں اور جوان بھی اپنی دُنیا میں مگن رہتے ہیں۔ انٹرنیٹ نے گھر کے ہر فرد کو الگ الگ کردیا ہے اور وہ گھریلو ماحول باقی نہیں رہا جو کبھی ہوا کرتا تھا۔ دیر سے سونا اور دیر سے جاگنا نئے کلچر کا حصہ بن گیا ہے اور وہی گھر اس سے محفوظ ہیں جہاں فجر کے وقت اُٹھنے اور نماز فجر یا جماعت پڑھنے کی روایات موجود ہے پھر نماز کے بعد تلاوت کی آواز گھروں میں گونجتی ہے۔ قدرت نے اپنا طریقہ تبدیل نہیں کیا۔ جب سے یہ کائنات بنی ہے اور موسم وجود میں آئے ہیں جاڑے کے دن چھوٹے اور راتیں لمبی چلی آرہی ہیں۔ لیکن انسان وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا چلا جارہا ہے اب دیکھیے وہ اور کیا رنگ بدلتا ہے۔