ہوشیار… بغل میں چھری تیار ہے

791

دسمبر کی پہلی تاریخ… دو خبریں ایسی پڑھیں کہ دل رنج سے بھر گیا۔ پہلی یہ کہ اسرائیلی قابض افواج یہودی ربی یہودا گلیک کی قیادت میں مسجد اقصیٰ میں داخل ہوئے اور مقدس مقامات کی بے حرمتی کی یہ ربی پچھلے کئی سال سے قبلہ اوّل پر دھاوئوں کی قیادت بھی کرتا رہا ہے حقیقت میں اسے قبلہ ٔ اوّل پر بلوئوں کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ انتہا پسند یہودیوں کو قبلہ ٔ اوّل پر حملے کے لیے اُکساتا ہے۔ وہ دُنیا بھر سے یہودیوں کو جمع کرکے اسرائیل لاتا رہا ہے اور یہودی آباد کاروں کو زور دیتا ہے کہ مسجد اقصیٰ میں اپنی عبادت کے لیے جمع ہوں اور فلسطینی نمازیوں پر حملے کریں۔ اس کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کا جبل مکبر (مسجد اقصیٰ) پر کوئی حق نہیں۔ یہودی اس مقام کے متولی ہیں اور یہاں مذہب اور سیاست دونوں کرنے کی ذمے داری یہودیوں کی ہے۔
وہ اکثر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو مشورہ دیتا رہا ہے کہ فوج اور پولیس کو یہاں سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کا اختیار دیا جائے۔ یہ دیدہ دلیری دیکھیے اور دوسری خبر پر نظر ڈالیے کہ دسمبر کی پہلی تاریخ سے سعودی عرب نے باضابطہ طور پر اسرائیل کے لیے فضائی حدود کھول دیں۔ اب باقاعدہ سرکاری طور پر اسرائیلی ہوائی جہازوں کو سعودی عرب کی فضا سے گزرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ 29 نومبر کا دن اقوام متحدہ کی اپیل پر ہر سال فلسطینیوں کے ساتھ عالمی یکجہتی کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ خاص اس دن کے بعد سعودی عرب کا یہ اقدام بھی بہت معنی خیز ہے۔ اگست میں متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے کا اعلان کیا تو وہ پچھلے بیس سال میں ایسا کرنے والا پہلا عرب ملک تھا۔ 15 ستمبر کو بحرین اور اردن نے اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کرلیے۔ سعودی عرب نے فی الحال اس راستے پر چلنے سے انکار تو کیا ہے لیکن ساتھ ہی اسرائیل کی شہری ہوا بازی کی کمپنیوں کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ بحرین سعودی عرب کا قریبی اتحادی ملک ہے۔ بحرین میں جب کبھی حکومت کے خلاف آواز اُٹھائی گئی تو سعودی عرب نے وہاں کی حکومت کی مدد کے لیے اپنی فوج روانہ کی۔ بحرین میں امریکا کے دو فوجی اڈے ہیں۔ جہاں بڑی تعداد میں اُس کے فوجی تعینات ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ نے اسرائیل کے ساتھ عرب امارات اور دیگر عرب ممالک کے تعلقات کے لیے جو محنت کی ہے اب وہ نظر آرہی ہے۔ ٹرمپ کے داماد اور سینیٹر مشیر جیراڈ کشنر اور وزیر خارجہ پومپیو نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ حقیقت میں امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے اقتدار کے لیے اسرائیلی لابی کی حمایت جس وعدے پر حاصل کی تھی وہ اپنے اقتدار کے دوران پورے کیے۔ پہلے اپنے سفارت خانے کو یروشلم منتقل کیا، یہ وعدہ تو اپنے اقتدار کے پہلے سال ہی پورا کر دکھایا اب تو معاملہ بہت آگے بڑھ چکا ہے۔ اس مقام پر پہنچانے میں ٹرمپ کا ایک اہم حربہ معاشی دبائو بھی ہے۔ اسرائیل کی حمایت میں ٹرمپ انتظامیہ نے فلسطینیوں کو دی جانے والی 36 کروڑ ڈالر کی امداد روک دی، یہ امداد اقوام متحدہ کے ذریعے فلسطینی مہاجرین کو دی جاتی تھی۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ امریکا نے اسرائیل کی حمایت میں کچھ دوسرے اقدامات بھی اُٹھائے۔ لہٰذا سوڈان میں عمرالبشیر کی حکومت کے خاتمے کے بعد عبوری حکمران کونسل کے چیئرمین نے کہا کہ ’’اسرائیل سے راہ و رسم بڑھانا سوڈان کے قومی مفاد میں ہے‘‘۔
قومی مفاد کے نام پر امریکی اور اسرائیلی دبائو کے آگے ہتھیار ڈالنے کی رسم کوئی نئی نہیں۔ لیکن معاملہ یہ ہے کہ خود اسرائیل میں فلسطینیوں کے اوپر مظالم کے خلاف آواز اُٹھائی جارہی ہے۔ پچھلے دنوں اسرائیلی فوجی خاتون ’’ہلیل رابن‘‘ نے ان مظالم کے خلاف اسرائیلی فوج سے علٰیحدگی اختیار کرلی۔ حالاں کہ اس اقدام پر اسے پہلے 56 دن جیل میں نظر بند رکھا گیا اور پھر اپنے فیصلے پر قائم رہنے کے باعث مزید 80 دن قید میں رکھا گیا۔ آخر کار عدالتوں میں سماعت کے بعد اُس کے اس عمل کو سیاسی مخالفت قرار دے کر رہا کردیا گیا۔ یعنی اس بات کو تسلیم ہی نہیں کیا گیا کہ کوئی اسرائیلی فلسطینیوں کے اوپر ہونے والے مظالم پر آواز اُٹھا سکتا ہے۔ لیکن یہ ہورہا ہے۔ یورپی یونین کی نگرانی میں 2020ء نومبر کے آخری عشرے میں اسرائیل میں سروے کیا گیا جس کے مطابق 49 فی صد اسرائیلیوں نے امریکا کے نومنتخب صدر جوبائیڈن کی ثالثی میں مذاکرات کی حمایت کی اور فلسطینیوں پر صہیونی حکومت کے مظالم کی مخالفت کی۔ 48 فی صد نے 2 ریاستی حل پر زور دیا۔
سچ یہ ہے کہ 1948ء میں اسرائیل کا جنم ناجائز تھا جو آج بھی ناجائز ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے والے مسلم حکمران نہ صرف فلسطینیوں بلکہ پوری اُمت مسلمہ سے غداری کے مرتکب ہیں۔ اس معاملے میں عمران خان کا موقف حق پر مبنی ہے۔ پاکستان کو ان ممالک سے جو اسرائیل سے معاہدے کررہے ہیں بات کرنا چاہیے اور انہیں فلسطینی حمایت پر اپنے موقف پر نظرثانی کے لیے کہنا چاہیے کہ یہود خیر خواہ نہیں ہوسکتے اور یہود اور ہنود بغل میں چھری تیار رکھتے ہیں۔