پاکستان چین تزویراتی تعلقات

398

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات خطے میں امن و استحکام، باہمی اعتماد اور مشترکہ نظریات پر مبنی تزویراتی شراکت داری (اسٹرٹیجک پارٹنر شپ) پر قائم ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ ’’ون چائنا‘‘ پالیسی پر مضبوطی سے عمل کیا اور قومی مفاد کے بنیادی امور پر چین کی حمایت کی ہے۔ چین کا اعلیٰ سطحی سیاسی اور عسکری وفد تین روزہ دورے پر پاکستان میں ہے۔ جس کی قیادت چینی وزیر دفاع جنرل وی فینگ کر رہے ہیں منگل کو وزیراعظم سے چینی وزیر دفاع اور اسٹیٹ کونسلر کی ملاقات ہوئی۔ جس کا اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے۔ اعلامیے کے مطابق وزیراعظم نے چینی وزیر دفاع سے گفتگو کرتے ہوئے کورونا کی وبا سے پیدا ہونے والی صورت حال سے کامیابی سے نمٹنے، پاکستان کے ساتھ اظہار یکجہتی اور امداد، قومی ترقیاتی اہداف کے حصول اور مسئلہ کشمیر پر چین کی اصولی حمایت پر چین کی حکومت اور عوام کا شکریہ ادا کیا۔ وزیراعظم نے بھارت میں اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک، پرتشدد اقدامات اور آر ایس ایس کے نظریہ سے پیدا ہونے والے سنگین خطرے کی نشان دہی کی اور کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے غیر قانونی طور پر بے گناہ کشمیریوں کی تمام آزادیاں سلب کر رکھی ہیں۔ اس موقع پر چینی وزیر دفاع نے چینی صدر شی جن پنگ اور وزیراعظم لی کی کیانگ کی طرف سے خیرسگالی کا پیغام پہنچایا۔ چینی وفد نے پاکستان سے تعلقات کی مضبوطی کی اہمیت پر زور دیا۔ چینی وزیر دفاع نے قبل ازیں بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی ملاقات کی جس میں اہم دفاعی اور تزویراتی امور زیر غور آئے۔ ایوانِ صدر کی ایک پروقار تقریب میں چینی وزیر دفاع کو نشان امتیاز (ملٹری) بھی دیا گیا جس میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان بھی شریک تھے۔ چین اور پاکستان کے تعلقات اپنے قیام کے وقت سے مستحکم ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ان میں بڑھوتری بھی آئی ہے۔ عالمی حالات میں تبدیلی کے بعد ان تعلقات کی دفاعی اور تزویراتی اہمیت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ چین اقتصادی اور سیاسی سطح پر عالمی قوت کے طور پر اُبھر رہا ہے۔ اس تناظر میں چین کا بی آر ٹی منصوبہ امریکا کی اقتصادی اور عسکری بالادستی کو چیلنج کرنے کا سبب بن گیا۔ بی آر ٹی منصوبے کے بعد ایشیا، یورپ اور افریقا کی تجارتی شاہراہوں پر بالادستی حاصل ہو جائے گی۔ گزشتہ دنوں پاکستان کی عسکری قیادت نے سی پیک کو سبوتاژ کرنے کے بھارتی عزائم کے شواہد پیش کیے تھے۔ اس مقصد کے لیے امریکا اور بھارت کے درمیان گٹھ جوڑ قائم ہوچکا ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازع پر جھڑپیں بھی ہوچکی ہیں، جس میں بھارت کو عسکری ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ چین اور پاکستان کے درمیان اقتصادی، تزویراتی اور دفاعی تعلقات پاکستان کی سلامتی کا ایک سبب ہیں۔ افغانستان میں امریکا اور ناٹو کی مشترکہ شکست نے عالمی اور علاقائی تزویراتی صورت حال میں جو تبدیلی پیدا کی ہے اس کا مرکزی محرک پاکستان ہے۔ افغانستان میں امریکا اور ناٹو کی طویل ترین جنگ نے چین کو دنیا پر اقتصادی کنٹرول اور ٹیکنیکل عروج کا موقع فراہم کیا۔ اسی وجہ سے سی پیک منصوبے کو خطے کی سیاست اور پاکستان کے نقطہ نظر سے ’’گیم چینجر‘‘ قرار دیا گیا۔ اب سی پیک کا منصوبہ محض ایک تجارتی شاہراہ کا منصوبہ نہیں ہے بلکہ تزویراتی اور دفاعی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ عالمی تبدیلی کو پاکستان اور امت کے حق میں تبدیل کرنے کے لیے جو بصیرت، تدبر اور کردار ہونا چاہیے، اس سے ہماری قیادت محروم ہے۔ چین اور پاکستان کے تزویراتی تعلقات پاکستان کی سلامتی کی ضمانت ہیں۔ اگر پاکستان جوہری طاقت نہ ہوتا تو امریکا بھارت کے ذریعے پاکستان کو عراق اور شام کی طرح تباہ کردیتا۔ ہمارے سیاسی اور عسکری حکمرانوں کی ناکامی یہ ہے کہ وہ داخلی طور پر پاکستان کو سیاسی استحکام نہیں دے سکے۔ سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ ہماری سیاسی، عسکری قیادت اور نام نہاد ٹیکنوکریٹ ملک کی معیشت کو آئی ایم ایف کے شکنجے سے آزاد نہیں کراسکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں مہنگائی اور بے روزگاری عروج پر ہے اور قوم ان اقتصادی ثمرات سے محروم ہے جس کا مژدہ سی پیک کی کامیابی کی صورت میں سنایا جارہا ہے۔ چین کے ماڈل پر دوسروں کی طرح پاکستان کے حکمرانوں کی رال بھی ٹپک رہی ہے اور وزیراعظم نے بھی ایک سطحی بیان دیا ہے کہ ہم چین کے ترقیاتی ماڈل کی نقل کریں گے۔ چین نے اس احساس کے ساتھ ترقی کی ہے کہ وہ ایک غریب ملک ہے، کمیونسٹ ہونے کے باوجود سرمایہ دارانہ ماڈل کی نقل کررہا ہے اور دونوں ماڈل ہمارے لیے ناقابل تقلید ہیں۔ میرٹ پر سختی سے عمل اور اجتماعی مفادات کو شخصی اور گروہی مفادات پر ترجیح ترقی و عروج کی ضمانت ہے۔