عالمی میڈیا کی اسلام دشمنی

588

مسلم حکمرانوں میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کو یہ خصوصیت حاصل ہوگئی ہے کہ وہ امت مسلمہ کو درپیش مسائل پر آواز بلند کرتے ہیں۔ انہوں نے یورپ اور امریکا کے ذرائع ابلاغ کی اسلام دشمنی پر بھی آواز بلند کی ہے۔ ترکی صدر رجب طیب اردوان نے ’’وبا کے بعد عالمی نظام بدلنے کے محرکات‘‘ کے عنوان سے منعقد ہونے والے آن لائن اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عالمی ذرائع ابلاغ کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی سطح پر نگرانی سے بالاتر میڈیا خود سر ہوگیا ہے جسے اب لگام دینا ناگزیر ہے۔ برائیوں اور جرائم کے مرتکب افراد کو سزا نہ دینے کا نام آزادی یا انسانی حقوق کی حفاطت نہیں ہے۔ عالمی میڈیا نے یورپ میں رونما ہونے والے واقعات کے سامنے انتہائی بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے اور یورپ نے میڈیا کی جانب سے نبی اکرمؐ کی شان میں گستاخیوں کو معمولی سمجھ کر بھیانک غلطی کی ہے۔ یہ وہ موضوع ہے جسے مسلم ممالک کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہونا چاہیے۔ اس وقت 57 آزاد مسلم ممالک ہیں اور باقی ممالک میں بھی موثر مسلمان آباد موجود ہے۔ اگر طیب اردوان کی طرح تمام مسلم حکومتیں عالمی میڈیا کی اسلام دشمنی کے خلاف آواز اُٹھائیں تو اس کے نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ توہین رسالت کی وارداتیں عالم اسلام پر فوجی حملے کے مترادف ہیں۔ یورپی اور امریکی میڈیا جنگی پروپیگنڈے کا آلہ کار ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ امت مسلمہ اس تصور سے غافل ہوچکی ہے کہ وہ حق کو باطل پر غالب کرنے کی جدوجہد کے ذمے دار ہیں۔ لیکن مسلم حکمرانوں کی اکثریت خود اپنے ملکوں میں اسلام کی آواز کو کچل رہی ہے تو وہ کس منہ سے آواز بلند کرسکتے ہیں۔ سلمان رشدی کی گستاخانہ کتاب سے لے کر چارلی ایبڈو کو غلاظت تک عالمی میڈیا اسلام دشمن کا آلہ کار بنا ہوا ہے۔ رجب اردوان کی طرح دیگر مسلم حکمرانوں کو عالمی سطح پر میڈیا کی اسلام دشمنی کے خلاف حکمت عملی بنانی چاہیے۔