متاعِ فقیر…………اقبال

481

مرا دل، مری رزم گاہِ حیات
گمانوں کے لشکر، یقیں کا ثبات

یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیر
اسی سے فقیری میں ہُوں مَیں امیر