اماں جی کی نگاہ دلنواز

808

اللہ جل شانہ، نے جب انسان کو بنانے کا ارادہ کیا تو خاک سے سیدنا آدم ؑ کو تخلیق کیا اور پھر ان کی پسلی سے اس کائنات کی حسین ترین خاتون اماں حواؑ کو پیدا فرما کر سیدنا آدم ؑ کی دل بستگی کا ساماں پیدا کیا۔ پھر خالق کائنات نے اماں حواؑ کو اپنی صفات میں سے سب سے منفرد صفت ودیعت فرما کر یعنی تخلیق کا ذریعہ بنا کر انہیں ممتا کے جذبے سے بہرہ ور فرمایا اور اس طرح انہیں نہ صرف پوری نسل انسانی کی ماں ہونے کا شرف بخشا بلکہ ماں کے قدموں تلے جنت کی نوید سنا کرماں کو ایک آفاقی کردار بنادیا۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث قدسی میں پیغمبر عظیم سیدنا محمد مصطفیؐ نے اللہ تعالیٰ کی اپنی مخلوق سے محبت و انس کے سلسلے میں بھی ماں کی مثال دی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے ماں سے بھی زیادہ قریب ہیں۔
ماں کو کسی خاص فرد، ہستی، شخصیت یا عمر کے کسی مخصوص حصے تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔ ماں بچے کی پیدائش سے پہلے مجسم دعا، پیدائش کے بعد سراپا دوا اور آسرا، عنفوان شباب میں مداوا، بڑھاپے میں صدا اور اپنی موت کے بعد اپنی اولاد کے لیے اپنی نیکیوں کی جزا ہے۔ 21؍نومبر کو اماں جی کو دارفانی سے کوچ کیے دس سال بیت چکے ہیں لیکن محسوس ہی نہیں ہوتا کہ وہ ایسے سفر پر روانہ ہوچکی ہیں جہاں سے کبھی کوئی واپس نہیں لوٹا بلکہ ہم سب کو ایک دن خود اس سفر پر چلے جانا ہے جو ہمیں ہماری آخری منزل تک پہنچادے گا۔ لیکن اماں جی جدا کب ہوئی ہیں؟
ابھی زندہ ہے ماں میری مجھے کچھ بھی نہیں ہوگا زید
میں جب گھر سے نکلتا ہوں دعا بھی ساتھ چلتی ہے
جی ہاں! اماں جی اللہ تعالیٰ نے میری زندگی میں جن بیکراں نعمتوں سے نوازا ہے، وہ سب آپ کی دعاؤ ں کے طفیل ہے۔ میں نے جب ہوش سنبھالا تھا آپ کو بڑھاپے میں داخل ہوتے پایا تھا۔ آپ منحنی جسم کی مالک تھیں لیکن آپ کا عزم پہاڑ جیسا آہنی اور بلند تھا، سخت جاڑوں میں بھی آپ نماز روزے کی پابند رہیں، صوم و اعتکاف اور نماز تہجد سے آخری عمر تک غفلت نہیں برتی۔ آپ کی رنگت سرخ و سفید تھی اور چہرے سے ایسی پاکیزگی اور نور چھلکتا تھا کہ دیکھنے والا مرعوب ہوجاتا تھا۔ آپ کی طبیعت نرمی و سختی کا حسین امتزاج تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بچپن میں آپ ہم بہن بھائیوں کو صبح سویرے جگا دیا کرتی تھیں، نماز اور تلاوت قرآن پر زور دیتی تھیں۔ تب میری عمر ساڑھے تین چار سال تھی، آپ سارا دن گھر کے کام کاج میں مصروف رہتی تھیں، عصر کے بعد بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دیتی تھیں، عشاء کے بعد ہم بہن بھائیوں کو لے کر بستر پر لیٹ جاتی تھیں اور لوری کے انداز میں کبھی ہمیں نبی کریمؐ کی پیدائش مبارک کا واقعہ، حلیمہ سعدیہ ؓ کے ہاں آپؐ کے قیام، سیدنا آدم ؑ کی پیدائش، سیدنا ابراہیمؑ کے حالات زندگی، سیدنا اسماعیل ؑ کی قربانی، سیدنا ایوبؑ کے صبر، سیدنا یوسف ؑ کے بھائیوںکا ان کے ساتھ سلوک، سیدنا یعقوب ؑ کی بینائی سے محرومی، سیدنا یونس ؑ کی آزمائش اور دوسرے پیغمبروں کے قصے سنایا کرتی تھیں اور سونے سے پہلے چھوٹی سورتیں اور دعائیں یاد کروایا کرتی تھیں (آپ کی سکھائی ہوئی تسبیح تراویح اور دوسری دعائیں اب تک میرے کام آرہی ہیں)۔
اماں جی! مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب آپ کی ’’بہن زینب‘‘ آئی تھیں اور میں نے انہیں خالہ جی کہہ کر سلام کیا تھا اور آپ نے مجھے فوراً ٹوک دیا تھا اور بتایا تھا کہ ’’بہن زینب تمہاری خالہ نہیں ماں ہیں۔ انہیں جھک کر سلام کرو‘‘۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا تھاکہ ’’بہن زینب‘‘ دائی تھیں اور اس رشتے سے بقول آپ کے، وہ آپ کی محسنہ اور میری ماں تھیں۔
اماں جی! وہ وقت تو شاید میں کبھی نہ بھول سکوں گا جب ابھی ولایتی ٹوائلٹ کا رواج نہیں آیا تھا اور اکثر گھروں کی چھتوں یا ڈیوڑھی میں بیت الخلا ہوتے تھے، خاکروب مرد یا خواتین روزانہ ان کی صفائی کیا کرتے تھے اور گلی کے بچے انہیں ’’چوہڑا‘‘ اور ’’چوہڑی‘‘ کہتے تھے۔ بیت الخلا کی صفائی کے لیے ہمارے گھر میں حمیدہ نامی خاموش طبع بوڑھی خاتون آپ کو ’’آپا جی‘‘ کہاکرتی تھیں اور آپ انہیں کبھی بغیر کھانا کھلائے نہ جانے دیتی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دن کسی بات پر میں ’’چوہڑی‘‘ کہہ کر ان کا حوالہ دے بیٹھا تھا۔ والد صاحب نے غصہ بھری نگاہوں سے مجھے دیکھا تھا لیکن شفقت پدری مانع تھی، ایسے میں میرے منہ پر زناٹے کا ایک تھپڑ منہ پڑا تھا اور ساتھ ہی آواز آئی تھی ’’بد تمیز! ماں کو چوہڑی کہہ رہے ہو‘‘۔ جی ہاں، اماں جی یہ تھپڑ آپ کی طرف سے پہلا اور آخری ’’انعام‘‘ تھا اور آپ کی موجودگی میں شاید میری آخری بدتمیزی بھی۔ اس کے بعد میں نے اس خاتون کو ہمیشہ ’’ماں جی‘‘ ہی کہا تھا۔ ’’ماں‘‘ حمیدہ کے انتقال کے بعد روزی آئی تھیں، وہ پورے محلے کے لیے روزی تھیں لیکن ہم سب بہن بھائیوں کے لیے انہیں ’’آپا‘‘ قرار دیا تھا۔
اماں جی! آپ نے گھر میں جو ماحول قائم کررکھا تھا وہ بہت کم خوش قسمت لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ آپ کا وہ لوہے کا بڑا سا ٹرنک ایک مکمل لائبریری تھی جس میں پنج سورے، دعاؤں کی کتابیں اور نعتوں کے مجموعے محفوظ تھے۔ اس کے علاوہ والد صاحب کے خریدے ہوئے 1916ء کے سرعبدالقادر کے ماہنامہ ’’مخزن‘‘ کے کچھ شمارے اور ماہنامہ ’’آئینہ‘‘ لاہور اور ماہنامہ ’’لیل و نہار‘‘ لاہور کے تازہ شمارے ہوتے تھے۔ واجبی تعلیم ہونے کے باوجود آپ زیادہ تر ’’آئینہ‘‘ کا مطالعہ کیا کرتی تھی جس میں انبیاء کرام، صحابہ کرام، اغواث واقطاب، عباد وزہاد اور اولیاء و اصفیاء کا ذکر ہوتا تھا اور رات کو سونے سے پہلے آپ ہمیں ان برگزیدہ شخصیات کی سیرت وتعلیمات سے آگاہ کیا کرتی تھی۔
اماں جی! مجھے یاد ہے کہ جب میں تیسری جماعت میں تھا، میں نے روزنامہ ’’امروز‘‘ لاہور کے ہفتہ وار میگزین ’’بچوں کی دنیا‘‘ جو ہر بدھ کو بارہ چھوٹے صفحات پر شائع ہوتا تھا، میں ایک چھوٹی سی کہا نی لکھی تھی تو آپ نے میری خوب حوصلہ افزائی کی تھی لیکن ساتھ ہی تلقین بھی کی تھی کہ بہتر ہوتا کوئی اسلامی کہانی لکھتے۔ پھر میں نے اینگلو ورنیکلر اسکول جناح کالونی فیصل آباد میں چھٹی جماعت میں داخلہ لیا تھا، کہنے کو تو یہ انگلش میڈیم اسکول تھا لیکن اردو پر بھی یکساں زور تھا، اسکول سے ماہنامہ ’’باغ وبہار‘‘ باقاعدگی سے شائع ہوتا تھا۔
افتاد طبع سے مجبور ہوکر میں نے ’’رشید کی ایمانداری‘‘ کے عنوان سے اس میں ایک کہانی لکھی تھی اور باغ و بہار کا متعلقہ شمارہ آپ کو پیش کیا تھا، کہانی پڑھنے کے بعدآپ نے کچھ نصیحتیں کی تھیں اور اس کے بعد ’’باغ وبہار‘‘ میں میری جتنی بھی کہانیاں شائع ہوتی رہیں، وہ آپ ہی کی سنائی اور بتائی ہوئی تھیں۔
اماں جی! مجھے یاد ہے کہ جب میں نے سٹی اسکول عید گاہ روڈ میں نویں جماعت میں داخلہ لیا تھا تو آپ کی حوصلہ افزائی کی بدولت میں ہر امتحان میں حسب معمول نمایاں پوزیشن حاصل کرتا رہا تھا۔ تاہم سالانہ تقریب انعامات میں نظر انداز کیے جانے پر دل گرفتہ ہوکر میٹرک کے امتحانوں کے دنوں میں پڑھنا چھوڑ دیا تھا۔ آپ راتوں کو اٹھ اٹھ کر سمجھایا کرتی تھیں کہ امتحان کی تیاری کرو اور اکثر خفا ہو جایا کرتی تھیں۔ رات میں جب بھی میر ی آنکھ کھلی، میں نے آپ کو اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پایا تھا، آپ کے ہاتھوں کا لمس میں اب تک اپنے چہرے پر محسوس کرتا ہوں۔ جس دن رزلٹ آیا تھا، آپ نے اصرار کرکے اخبار منگوایا تھا (ان دنوں رزلٹ اخبار میں آیا کرتا تھا) اور فرسٹ ڈویژن دیکھ کر بہت خوش ہوئی تھیں اور ساتھ ہی یہ کہتے ہوئے اچھی خاصی ’’کلاس‘‘ بھی لے ڈالی تھی کہ کیا زندگی ختم ہوگئی ہے کہ منہ بسورے پھرتے ہو۔ ابھی ابتدا ہے، تمہیں زندگی میں ابھی اور بہت کچھ دیکھنا اور سیکھنا ہے، کیا ابھی سے ہمت ہار دو گے؟ ناکامی کا مطلب ’’بس‘‘ نہیں بلکہ ’’اور‘‘ ہے۔ اور پھر ’’مرض‘‘ بڑھتا رہا جوں جوں دواکی۔ اس کے بعد اماں جی! آپ کی دعائیں دوا اور مداوا بنتی چلی گئی تھیں۔
میں جس صحرا میں بھی جائوں مجھے گھر لگتا ہے
یہ سب میری ماں کی دعائوں کا اثر لگتا ہے
اماں جی! جب میں تلاش معاش کے سلسلے میں اسلام آباد آنے کا ارادہ رکھتا تھا، والد صاحب راضی نہیں تھے کہ وہ بڑھاپے میں اولاد کو اپنی نظروں سے دور کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے لیکن یہ آپ تھیں جنہوں نے کہا تھا کہ جب یہ گھر سے ہی نہیں نکلے گا تو اپنا مستقبل کیسے بنائے گا؟ چنانچہ 17؍جولائی 1974ء کو میں اسلام آباد روانہ ہونے کے لیے صبح چار بجے گھر سے نکلا تھا توآپ برقع اوڑھے گلی کی نکڑ تک آئی تھیں اور پیار سے سر پر ہاتھ پھیر کر رخصت کیا تھا، ابھی نیم تاریکی تھی، میں نے رکشے میں سے پیچھے مڑکر دیکھا تو آپ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے کھڑی تھیں۔ قصہ مختصر میں اسلام آباد پہنچا اور چار ماہ کے بعد ریڈیو پاکستان کے شعبہ خبر میں روزانہ اجرت کی بنیاد پر ملازمت مل گئی۔ آپ کی حوصلہ افزائی اور دعائیں میرے لیے سرمایہ ثابت ہوئیں اور میں ہمیشہ نئے عزم کے ساتھ آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا اور کنٹرولرنیوز کے عہدے تک جا پہنچا۔
اماں جی! آپ اگر عزم و استقامت کا پہاڑ تھیں تو ساتھ ہی حیا و وفا کی پتلی بھی تھیں۔ 13؍ستمبر 1993ء کو والد صاحب سڑک کے ایک حادثے میں زخمی ہوکر چلنے پھرنے سے معذور ہوگئے تھے اور آپ نے پچاسی سال کے قریب عمر ہونے کے باوجود ان کی دن رات تیمارداری کرکے وفا کی ایک درخشاں مثال قائم کی۔ ساڑھے تین سال تک صاحب فراش رہنے کے بعد جب7؍مارچ 1996ء کو والد صاحب کا انتقال ہوا تھا تو اماں جی میں نے پہلی بار کوآپ کو آنسو بہاتے دیکھا تھا ورنہ آپ تو ہمیشہ لبوں پر تبسم سجائے رکھتی تھیں۔
اماں جی! اللہ سب کو ہر قسم کی تکالیف اور مشکلات سے محفو ظ رکھے۔ 2؍اکتوبر 2004ء کو آپ کو پیش آنے والے حادثے کو یاد کرکے میرا دل تڑپ اٹھتا ہے، آپ بذریعہ ریل کار فیصل آباد سے لاہور روانہ ہوئی تھیں لیکن ریلوے کے اوقات تبدیل ہونے کے سبب ٹرین آدھا گھنٹہ پہلے لاہور پہنچ گئی تھی اورآپ کا نواسہ عظمت نوید آپ کو اسٹیشن پر نہ پاکر پریشان ہوگیا تھا اور تلاش بسیار کے باوجود پانچ دن تک آپ کا کوئی سراغ نہیں مل سکا تھا۔ دل مختلف خیالات کی آماجگاہ بن گیا تھا۔ سب سے ہولناک خیال یہ تھا کہ قدرت کو شاید یہی منظور تھا کہ ہم آخری مرتبہ آپ کو دیکھ بھی نہ سکیں، بہرحال میو اسپتال کے ڈاکٹر فیاض رانجھا نے رابطہ کرکے بتایا تھا کہ آپ پانچ دنوں سے لائلپور وارڈ میں دنیاو مافیہا سے بے خبر پڑی تھیں اور چند منٹ کے لیے ہوش میں آنے پر اسٹاف کو میرا نام پتا بتاکر دوبارہ بے ہوش ہو گئی تھیں۔ بعد میں آپ نے ہمیں بتایا تھا کہ آپ ریل کار میں اپنے ہم سفر ایک جوڑے کی چکنی چپڑی باتوں میں آگئی تھیں اور انہوں نے آپ کو چائے پلا کر بے ہوش کردیا تھا اور پرس اور زیور وغیرہ سے محروم کردیا تھا اور کوئی خدا ترس آدمی آپ کو ریلوے اسٹیشن کے مسافر خانے میں بے یارومددگار پڑے دیکھ کر اسپتال پہنچا گیا تھا۔
اماں جی! پچاسی سال کی عمر میں آپ بہت نحیف و نزار ہو چکی تھیں لیکن اس واقعے کے بعد آپ مزید کمزور ہوگئی تھیں، تاہم اس کے باوجود آپ 17؍ اکتوبر 2009ء کو میری بڑی بیٹی آمنہ عروج کی شادی پر اسلام آباد آئی تھیں، واپس فیصل آباد روانہ ہوتے ہوئے آپ نے کہا تھا کہ شایدآپ آئندہ اسلام آباد نہ آسکیں گی۔
اماں جی! واقعی یہ آپ کا اسلام آباد کا آخری پھیرا ہی ثابت ہوا تھا۔ 24؍اکتوبر 2010ء کو بطور ڈپٹی کنٹرولر نیوز اپنی ترقی پر میں مٹھائی لے کر فیصل آباد آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا تو آپ چارپائی پر لیٹی ہوئی تھیں۔ اس سے پہلے ہمیشہ اٹھ کر گلے لگاتی تھیں اور پیشانی پر بوسہ دیتی تھیں لیکن اب ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکی تھیں اور آپ میری آواز سن کر صرف اپنا ہاتھ ہلاسکی تھیں۔ میں خود جھک کر آپ کے گلے لگ گیا تھا اور بوسے کے لیے پیشانی آگے کردی تھی۔ اس کے بعد مٹھائی پیش کی تھی تو آپ نے کہا تھا ’’میں اتنی مٹھائی کہاں کھائوں گی گلی کے بچوں میں تقسیم کردو‘‘۔
اماں جی!21نومبر 2010ء کو شام پانچ بجے فیصل آباد سے چھوٹے بھائی مسعود اعجاز الدین نے فون کرکے بتایا تھا کہ آپ کی طبیعت زیادہ خراب ہے۔ پھر رات نو بجے فون آیا کہ فوراً پہنچوں۔ چنانچہ میں فیملی کو لے کرجب فیصل آباد پہنچا تو کچھ بھی باقی نہ بچا تھا سوائے آپ کی دعائوں کے جو میرے کانوں میں گونج رہی تھیں۔
ابھی زندہ ہے ماں میری مجھے کچھ بھی نہیں ہوگا زید
میں جب گھر سے نکلتا ہوں دعا بھی ساتھ چلتی ہے
آپ اس دنیائے فانی سے بے نیاز ہوچکی تھیں۔ اناللہ وانا الیہ راجعون
22نومبر 2010ء کو اماں جی جب آپ کی تدفین ہورہی تھی تو لحد میں اتارنے والوں میں سے کسی نے قبر پر پانی کے چھڑکائو اور پھول بکھیرنے کو کہا تھا اور میرے کزن مختار احمد نے فوراً اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا: ’’پھوپھی نے جتنے لوگوں کو قرآن پاک پڑھا دیا اس کے بعد تو وہ ویسے ہی جنت میں چلی جائیں گی‘‘۔ بے شک یہ سوگواروں کے طرف سے آپ سے عقیدت و محبت کا اظہار تھا۔
اماں جی! آپ کی رحلت کے کچھ عرصہ بعد فیصل آباد سے ایک دوست کا فون آیا تھا، کہنے لگا سنا ہے ماں جی ابدی نیند سوگئی ہیں، میں نے جواب دیا تھا:
’’اک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابشؔ
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے‘‘
اماں جی! آپ بھلا سوئی کہاں ہیں، کاش کوئی انہیں سمجھائے، مائیں سویا نہیں کرتیں، وہ اپنی دعائوں کے ساتھ اپنی اولاد پر ہمیشہ سایہ فگن رہتی ہیں۔