جمہوریت کی حقیقت ـ جاوید اکبر انصاری

1699

آج تقریباً پوری دنیا میں جمہوری عمل رائج ہے اور بیش تر ممالک جیسے کہ پاکستان میں اس کا کوئی متبادل طرزِ حکمرانی مقبول عام نہیں۔ بحیثیت اسلامی انقلابی ہم اس عمل میں شرکت پر مجبور ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اس عمل کی نوعیت اور ماہیت سے ہمارا ہر کارکن آگاہ ہو۔
جمہوریت کی تعریف اور تاریخ: لنکن نے کہا جمہوریت کا مطلب حکمرانی عوام کی حکمرانی عوام کے لیے، عوام کے ذریعے۔ یہ تاریخ انسانی کے سب سے بڑے جھوٹوں میں سے ایک اہم جھوٹ ہے۔ جمہوریت کے یہ معنی ہرگز نہیں۔ عوام نے پوری انسانی تاریخ میں حکومت کی ہے نہ کبھی حکومت کر سکتے ہیں۔ یہ بات بالواسطہ نمائندہ اور پس جمہوریت سب کے لیے یکساں درست ہے۔ جمہوری نظریات (لبرل ازم، اشتراکیت، فاشزم، انارکزم) اس حقیقت کو چھپانے کی کوششیں ہیں۔ لیکن جمہوری عمل محض دھوکا نہیں بلکہ یہ وہ طریقہ ہے جس کے ذریعہ کسی مخصوص گروہ کے لیے وقتاً فوقتاً عوامی تائید مہیا کی جاتی رہتی ہے۔ جمہوری عمل کا ابتدائی کامیاب تجربہ قدیم ایتھنز اور روم میں کیا گیا۔ وہاں جمہوری عمل بالواسطہ تھا لیکن وہاں بھی حکومت ایک اقلیت ہی کرتی رہی اور ان ملکوں کے باشندوں کی عظیم اکثریت محکوم اور مجبور رہی۔ انیسویں صدی سے یورپی اور امریکی سامراجی نظام کے پھیلائو پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ جمہوریت کے غلبے کی راہ ہموار کر دی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد تقریباً تمام نو آزاد ایشیائی اور افریقی ممالک اس نظام میں ضم ہو گئے۔
سرمایہ دارانہ نظام جمہوری عمل کے فروغ کے بغیر استحکام حاصل نہیں کر سکتا۔ سرمایہ داری بنیادی طور پر ایک روحانیت ہے۔ وہ حرص و حسد سے مغلوب انفرادیت اور معاشرت کو فروغ دیتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ سرمایہ دارانہ طرز حیات عام ہو جائے۔ حرص اور حسد سے مغلوب انفرادیت اپنی خواہشات نفسانی کی تکمیل کے علاوہ کسی معیار خیر و شر کو قبول نہیں کرتی۔ لہٰذا حریص و حاسد انفرادیت اور معاشرت کو فروغ دینے کے لیے لازم ہے کہ ریاستی نظام میں انفرادیت کی بالادستی قائم کی جائے۔ ریاستی اقتدار کو انفرادی حرص و حسد کے حصول کا ذریعہ بنایا جائے۔ سرمایہ دارانہ حقوق فراہم کیے جائیں۔ سرمایہ دارانہ عدل کو قائم کرنے کی جستجو کی جائے۔
ہر سرمایہ دارانہ ریاست (لبرل، اشتراکی، فاشسٹ) اپنے شہری کو یہ باور کرانے کی کوشش کرنے پر مجبور ہے کہ ریاستی عمل کا مقصد خواہشات نفسانی کو پورا کرنا ہے۔ اس کے بغیر حرص و ہوس سے مغلوب نہ انفرادیت قائم کی جا سکتی ہے نہ سرمایہ دارانہ معاشرت۔ چنانچہ ہر سرمایہ دارانہ ریاست جمہوری عمل کی توسیع پر مجبور ہے۔ یہ بات لبرل، سوشلسٹ اور فاشسٹ سب سرمایہ دارانہ ریاستوں کے لیے درست ہے۔ جمہوری عمل ریاست تک محدود نہیں۔ سرمایہ دارانہ ریاست سرمایہ دارانہ معاشرے کو تشکیل دیتی ہے۔ سول سوسائٹی روایتی مذہبی معاشرت کی ضد ہے۔ مذہبی معاشرت کا جذبہ محرکہ محبت اور صلہ رحمی ہے۔ اس کی ادارتی صف بندی خاندان، برادری، عبادت گاہوں اور بازاروں میں کی جاتی ہے۔ یہ تمام ادارے محبت اور صلہ رحمی اور خدا شناسی کا ذریعہ ہیں۔ سول سوسائٹی محبت، صلہ رحمی اور خدا شناسی کو دیس نکالا دینے کا دوسرا نام ہے۔ سول سوسائٹی کا جذبہ محرکہ غرض ہے۔ انفرادی غرض اجتماعی غرض، قومی غرض، طبقاتی غرض، گروہی غرض، سول سوسائٹی میں قدر کا واحد پیمانہ اغراض کا حصول بن جاتا ہے۔ تمام مذہبی ادارے (خاندان، برادری، عبادت گاہیں، بازار) کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ معاشرہ جمہوری ہو جاتا ہے۔ ہدایت کا سرچشمہ احکام الٰہی نہیں نفس امارہ کے احکام بن جاتے ہیں۔ فرد کی جستجو ادائیگی فرائض نہیں حصول سرمایہ دارانہ حقوق کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
مستحکم سرمایہ دارانہ معاشرت سرمایہ دارانہ ریاست قائم کرتی ہے۔ سرمایہ دارانہ ریاست سول سوسائٹی پر سرمایہ دارانہ عقلیت (جاہلیت خالصہ) کو مسلط کرتی ہے۔ اس تسلط کو قائم کرنے کے لیے جو بنیادی ذریعہ اختیار کیا جاتا ہے وہ تحکم قانون سرمایہ ہے۔ تحکم قانون سرمایہ کی کارفرمائی کے واسطے جو ادارے قائم کیے جاتے ہیں وہ ہیں کارپوریشن، سود اور سٹہ کے بازار، پارلیمنٹ، نوکرشاہی، عدلیہ، فوج اور پولیس اور میڈیا۔ یہ سب ادارے ریاست کے جزو ہیں اور حکومت محض سرمایہ دارانہ ریاست کا ایک ذیلی ادارہ ہے۔ حکومت گاہے گاہے بدلتی رہتی ہے لیکن فوج، پولیس، کارپوریشن، سود اور سٹہ کے بازار، عدلیہ، انتظامیہ اور میڈیا ان معنوں میں مستقل حیثیت رکھتے ہیں کہ ان کے اہل کاروں میں تبدیلی براہ راست عوامی تائید پر منحصر نہیں۔ پوسٹ ڈیموکریسی میں ان ریاستی اداروں کا اختیار اور دائرہ کار وسیع اور مقننہ اور سیاسی جماعتوں کا اقتدار محدود ہوتا جاتا ہے۔ حکومتی تبدیلی بھی سرمایہ دارانہ دستور کی پابندی کے تناظر میں عمل میں آتی ہے۔ سرمایہ دارانہ دساتیر عموماً سرمایہ دارانہ حقوق کو مقدس گردانتے ہیں اور کتاب اللہ کو معطل کردیتے ہیں۔ لہٰذا حکومت کی تبدیلی سے عموماً نظام اور طرز حکومت میں تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔
حکومت میں تبدیلی کو بذریعہ انتخابی عمل سرمایہ داری کے خاتمے کے لیے استعمال کرنے پر ہم مجبور ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کم از کم پاکستان میں سرمایہ دارانہ نظام کے غلبے کا کوئی بیرون نہیں اور انتخابی عمل سے گریز تحکم قانون سرمایہ کی تحدید کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ سرمایہ دارانہ قوت کا اصل سرچشمہ معاشرہ میں حرص و حسد کا عمومی پھیلاؤ ہے۔ لیکن پاکستان میں ڈیڑھ سے دو کروڑ ایسے مخلصین دین موجود ہیں جنہوں نے اپنے نفوس کو حرص وہوس کے شیطانوں کے سپرد نہیں کیا اور جو دل و جان سے اتباع شرع مطہرہ کے خواہش مند ہیں۔ یہ اسلامی انقلاب کی mass base ہے اور اس کو معاشرتی سطح پر منظم ومتحد کرکے ہم ریاستی عمل میں بامعنی مداخلت کر سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری ریاستی جمہوری جدوجہد ہماری معاشرتی جمہوری تحلیلی جدوجہد پر مبنی ہو گی۔ اسے negation of the negation کہتے ہیں۔ ہم جمہوری عمل کے اس تضاد سے فائدہ اٹھائیں کہ عوامی تائید کا حصول سرمایہ دارانہ اقتدار کے جواز کے لیے ضروری ہے۔ ہم جمہوری تائید کو سرمایہ دارانہ اقتدار کی تسخیر اور انہدام کے لیے استعمال کریں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہماری سیاست ردعملی اور سلبی نہیں اقدامی ہو۔ ہم سرمایہ دارانہ حکومتوں سے سرمایہ دارانہ حقوق کی فراہمی کے مطالبات پر اکتفا نہ کریں بلکہ مخلصین دین کی قیادت میں عوام کو مقامی سطح پر اس طرح منظم و متحد کریں کہ سرمایہ دارانہ ریاستی اداروں، نوکرشاہی، عدلیہ، کارپوریشن، بینکوں، پولیس اور میڈیا سے ریاستی اقتدار مخلصین دین کی سربراہی میں کارفرما اداروں میں بتدریج منتقل ہوتا رہے اور تنفیذ شریعت کا عمل نیچے سے اوپر تک پھیلتا چلا جائے۔