امریکی غلاموں کے ٹولے

454

امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم میں کوئی فرق نہیں‘ مسلم لیگ (ن) پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی امریکی غلاموں کے ٹولے ہیں۔ یہ تینوں ملک کو امریکا اور آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر چلانا چاہتے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان کا یہ بیان محض بیان نہیں ایک تلخ حقیقت ہے۔ ملک کے سول حکمران ہی نہیں فوجی آمر بھی امریکی غلاموں کا کردار ادا کرتے رہے ہیں بلکہ امریکی غلامی کا آغاز جرنیلوں ہی نے کیا۔ جنرل ایوب نے اگرچہ مارشل لا 1958ء میں لگایا مگر امریکی پیپرز کے مطابق وہ 1954ء سے امریکا کے ساتھ رابطے میں تھے۔ وہ خفیہ رابطوں کے ذریعے امریکا سے کہہ رہے تھے کہ پاکستان کے سول حکمران نااہل ہیں اور وہ ملک کو تباہ کر دینا چاہتے ہیں مگر فوج انہیں ایسا نہیں کرنے دے گی۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ ملک میں فوجی مداخلت کا آغاز ہوا ہی چاہتا ہے۔ بالآخر ایسا ہی ہوا۔ جنرل ایوب نے 1958ء میں اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ لیکن جنرل ایوب کا مارشل لا ملک کا آخری مارشل لا نہیں تھا‘ ملک کو ابھی جنرل یحییٰ خان‘ جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کی فوجی آمریتوں کو بھی جھیلنا تھا۔ بد قسمتی سے جو فوجی آمر آیا وہ امریکا کی آشیرباد سے آیا‘ یا اس نے اقتدار پر قابض ہوتے ہی امریکا کا ہاتھ تھام لیا۔ جنرل پرویز مشرف اس کی سب سے بڑی مثال ہیں۔ ایک وقت وہ تھا جب امریکا کے صدر بل کلنٹن جنرل پرویز مشرف کے پاکستان کا دورہ کرنا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ پاکستان آئے بھی تو اسلام آباد ائر پورٹ تک محدود رہے۔ مگر نائن الیون کے بعد امریکا نے جنرل پرویز مشرف کو گود لے لیا۔ جنرل پرویز مشرف نے امریکا کا نمک کھایا تو کھاتے ہی چلے گئے۔ انہوں نے امریکا کے لیے ملک کی آزادی‘ خود مختاری اور عزت وقار کا سودا کر لیا۔ انہوں نے امریکا کے لیے ملک میں خانہ جنگی کروا دی۔ انہوں نے اس خانہ جنگی میں 70 ہزار سے زیادہ لوگوں کو مروا دیا‘ ملک کا سو ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان کرا دیا۔ وہ امریکا کے صدر جارج بش کے لیے اس حد تک بروئے کار آئے کہ مغربی پریس جنرل پرویز کو ’’بشرف‘‘ کہنے لگا۔ ہمارے سول حکمرانوں نے بھی امریکا پرستی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بے نظیر بھٹو خود کو دختر مشرق کہتی تھیں مگر وہ ہمیشہ دختر مغرب کا کردار ادا کرتی ہوئی پائی گئیں۔ ان کے لبرل اور سیکولر تشخص کی وجہ سے امریکا اور یورپ کے پالیسی ساز بھی انہیں پاکستان میں اپنا کارندہ تصور کرتے تھے۔ امریکا کی قومی سلامتی کی مشیر کونڈا لیز رائس نے اپنی خود نوشت میں لکھا ہے کہ جنرل پرویز اور بے نظیر بھٹو کے درمیان این آر او انہوں نے کرایا۔ بے نظیر امریکا پرست نہ ہوتیں تو کونڈا لیزا رائس این آر او کرانے کی غلطی کبھی نہ کرتیں۔ میاں نواز شریف بھی ہر زمانے میں امریکا کی ’’گڈ بکس‘‘ میں شامل رہے ہیں۔ یہ میاں نو از شریف ہی تھے جنہوں نے امریکا کے کہنے پر کارگل سے مجاہدین کو واپس بلایا تھا۔ میاں صاحب کی بھارت نوازی کا ایک حوالہ بھی امریکا ہی ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان بھارت کی طفیلی ریاست بن کر رہے اور میاں نواز شریف کو امریکا کے اس مشورے سے کامل اتفاق رہا ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ نواز لیگ کے رہنما خواجہ آصف مغربی ممالک میں یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ نواز لیگ ایک سیکولر پارٹی ہے اور پی ٹی آئی ایک مذہبی جماعت ہے۔ پاکستان کی سول حکمران امریکا اور یورپ کو خوش کرنے کے لیے اسی طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ عمران خان آئی ایم ایف کو ایک استعمار سمجھا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ’’میں خودکشی کرلوں گا مگر آئی ایم ایف سے قرض نہیں لوں گا‘‘۔ لیکن بالآخر انہوں نے آئی ایم ایف کے آگے گٹھنے ٹیک دیے۔ آئی ایم ایف پوری دنیا میں امریکی طاقت‘ بالادستی اور اس کی استعماری سوچ کا مظہر ہے اور آئی ایم ایف کے آگے گھٹنے ٹیکنے کا مطلب امریکا کے آگے گھٹنے ٹیکنا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو امیر جماعت اسلامی نے نواز لیگ‘ پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کو امریکا غلامی کا مظہر قرار دیا ہے تو بالکل درست قرار دیا ہے۔ بدقسمتی سے اس سلسلے میں عوام کا شعوور بیدار نہیں۔ عوام کی اکثریت تینوں بڑی جماعتوں کے غیر ملکی حوالوں سے آگا ہی نہیں۔ چنانچہ اس سلسلے میں خصوصی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔