بھائی مختار گوہر کو ہمارا آخری سلام پہنچے

1060

شاہ ولی اللہؒ کے زمانے تک برصغیر کے مسلمانوں میں فقط ’آداب و تسلیمات‘ ہی کا رواج تھا۔ آداب بجا لاتا ہوں۔ تسلیم۔ تسلیمات۔ سلام عرض ہے۔ چچاجان قبلہ! سلامِ مسنون۔ ابّا سلام۔ امّاں سلام۔ چھوٹے خالو سلام۔ بڑی خالہ سلام۔ وغیرہ وغیرہ!
ایک روز شاہ ولی اللہ کی محفل میں ایک نوجوان تشریف لائے۔ محفل میں داخل ہوتے ہی گرج دار آواز میں فرمایا:
’’السّلامُ علیکُم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ‘‘
یہ نوجوان بعد میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کے شاگرد ہوئے اور ’’امیر تحریکِ مجاہدین‘‘ بنے۔
شاہ ولی اللہ ؒ سلام کے یہ کلمات سُن کر حد درجہ مسرور ہوئے۔ اور نہایت مسرت آگیں لہجہ میں جواب دیا:
’’وعلیکُم السّلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ‘‘
اس کے بعد حاضرین سے مخاطب ہوکر فرمایا:
’’سلام کرنے کا مسنون طریقہ یہی ہے‘‘۔
پھر اپنے شاگردوں‘ مریدوں‘ معتقدین اور متوسّلین کو حکم دیا:
’’آئندہ ہر شخص بہ طریق سنّتِ نبویؐ سلام کیا کرے‘‘۔
یوںشاہ ولی اللہؒ اور آپ کے پیروکاروں نے ایک بھولی بسری سنّت کا احیاء کردیا۔ اِن کلماتِ سَلام کو اِس قدر رواج دیا کہ اب ہمارے معاشرے میں یہ کلمات قطعاً اجنبی نہیںہیں۔ انتہائی معروف اور مانوس کلمات ہیں۔ اب پُرانا طریقہ ٔ سلام ہی بیش تر غیر معروف اور نامانوس ہو چکا ہے۔
مگرجو بات ابھی تک غیر معروف اور نامانوس ہے، وہ یہ ہے کہ ہم میں سے کم لوگوں کو یہ احساس رہ گیا ہے کہ ’سلام کرنے‘ کو رسول اللہؐ نے تمام عادتوں میں سب سے اچھی عادت قرار دیا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ کی روایت کردہ ایک حدیث کی رُو سے، سب سے اچھی عادت ہے: ’’ہر مسلمان کو سلام کرنا خواہ تُم اُسے جانتے ہو یا نہ جانتے ہو‘‘۔
یہ اچھی عادت ہم نے اپنے کالم نگار بھائی مختار گوہر میں دیکھی۔ جو کل ۲۹ نومبر ۲۰۲۰ء کو اپنے رب سے جا ملے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ آج جب اُن کی سناؤنی سنی تو سب سے پہلے یہی بات یاد آئی کہ وہ سب کو سلام کیا کرتے تھے۔
ایک روز صدر (کراچی) میں لکی اِسٹار کے قریب مل گئے۔ لپک کر معانقہ کیا اور بہ طریقِ سنّتِ نبویؐ سلام کیا۔ چائے کی دعوت دی۔ ’کفرانِ چائے‘ تو کبھی ہم نے کیا ہی نہیں۔ فی الفور دعوت قبول کرلی۔
اب چائے خانے کی تلاش میں چلے جارہے ہیں اور باتیں بھی کرتے جارہے ہیں۔ مگر ہر بات اور ہر جملہ کے آغاز، درمیان اور اختتام پر ایک عدد ’السّلامُ علیکم‘ کا نگینہ بھی جڑا ہوا ہے۔ بات یہ ہے کہ صدر میں کھوے سے کھوا چھلتا ہے۔ جملہ شروع نہیں ہوتا کہ سامنے سے کوئی مسلمان آجاتا ہے۔ پورا نہیں ہوتا کہ دوسرا مسلمان آجاتا ہے۔ ابھی ختم ہونے ہی کو ہوتا ہے کہ تیسرے مسلمان پر سلام بھیجنا پڑ جاتا ہے۔
ہے تو بڑی محنت اور بہت مشقت کی بات۔ مگر یہ بات بھائی مختارگوہر کی عادت میں شامل ہوگئی ہے۔ اِس کا ثمرہ ہم نے یہ دیکھا کہ ہمارے بھائی مختار گوہر سے محبت کرنے والے بہت ہیں۔ کیوں نہ ہوں؟ معلم انسانیتؐ کے ایک اور ارشاد کے مطابق سَلام کو کثرت سے رواج دینے سے محبت بڑھتی ہے۔
بھائی مختار گوہر سے محبت کرنے والوں کی تعداد میں صرف اضافہ ہی نہیں ہوتا، جسے اُن سے ایک بار محبت ہوجائے، وہ ہمیشہ کے لیے ان کی محبتوں کا اسیر ہوجاتا۔ وہ جزوقتی نہیں ’کل وقتی مبلغ‘ تھے۔ اُن کا نقطۂ نظر یہ نہیں تھا کہ اپنی مصروفیات میں سے وقت نکالیے اور الگ سے ایک وقت نکال کر اُس میں اللہ کے دین کی دعوت دیجیے۔ شاید وہ یہ کام بھی کرتے ہوں۔ مگر ہم نے اُن کے ساتھ چل کر دیکھا کہ وہ جس کام میں مصروف ہوں، اُسی کام میں اللہ کے دین کی دعوت دے رہے ہوتے ہیں۔ یہ کبھی نہیں سوچتے کہ کہیں کام بگڑ نہ جائے۔
مختار گوہر بھائی میئر عبدالستار افغانی کے دور میں لانڈھی کورنگی سے بلدیہ کے کونسلر بھی منتخب ہوئے تھے۔ اُن کی ایڈورٹائزنگ ایجنسی بھی تھی۔ وہ ’جسارت‘ کے شعبۂ اشتہارات سے بھی منسلک رہے ہیں۔ اُن کا تعلق طباعت و اشاعت کے کام سے بھی رہا ہے۔ مختلف مصنوعات کے سیلز ایجنٹ رہے ہیں اور کالم نگار تو تھے ہی۔ وہ جس جگہ ہوں اور جہاںبھی ہوں، وہیں اللہ کے دین کی دعوت دینے میں مصروف رہتے۔ بات کرتے کرتے اپنا پیغام پہنچا دیتے۔ جو بھی اُن کا پیغام اور اُن کی دعوت قبول کرلیتا اُسے اجتماعیت سے مربوط کردیتے اور چراغ سے چراغ جلاتے رہتے۔ اُن کا محلہ ہو، گھر ہو، دفتر ہو، سفر ہو، حضر ہو یا ٹیلی فونک خطاب۔ ہرجگہ دعوتِ دین کے کارکن ہوتے۔ شاید وہ ’انفرادی اصلاح‘ سے اجتماعی انقلاب لانے کے لیے کوشاں تھے۔ اُن کا نقطۂ نظرتھا: … ’ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا‘…
گفتگو بہت دلچسپ کرتے۔ اور اسی دلچسپ گفتگو میں اُن کا پیغام پنہاں ہوتا۔ ہفتے میں کم ازکم ایک بار تو ہمیں (کراچی سے اسلام آباد) فون ضرور کرتے، اور بڑی باقاعدگی سے کرتے۔ شرمندگی ہمیں ہوتی کہ ہم ایک بار بھی نہیں کرپاتے۔ اُن کی اہلیہ کا انتقال ہوا تو پہلی بار اُنہیں دُکھی پایا۔ اُن کا شوخ وشنگ شرارتی لہجہ اور اُن کا کھنکتا قہقہہ مرجھا کر رہ گیا۔ شریک سفر کا ساتھ چھوٹا، تو ایک اور آزمائش آئی۔ ان کو فالج ہوگیا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے شفادی۔ پھر بھی ماشاء اللہ چاق و چوبند رہے اور اپنی معمول کی زندگی، یعنی دعوتی زندگی کی دنیا میں واپس آگئے۔ ایک مزے کی بات یہ ہے کہ صرف روحانی علاج کے نسخے ہی نہیں، جسمانی علاج کے نسخے بھی بتاتے تھے۔
معروف معاشرتی اقدار کو پسند کرتے۔ ایک بار اُن کا فون آیا تو برسبیل تذکرہ ایک دلچسپ بات بتائی۔ کہنے لگے:
’’سنیے! میں ایک صاحب سے ملاقات کے لیے اُن کے گھر پہنچا۔ گھنٹی بجائی۔ اندر سے جواب آیا… ’صاحب گھر پر نہیں ہیں‘ … میں چلا آیا۔ بعد میں وہ صاحب ملے تو میں نے اُن کو بتایا کہ میں آپ کے گھر گیا تھا، مگرآپ کی ملازمہ نے بتایا کہ … ’صاحب گھر پر نہیں ہیں‘ … میری بات سن کر وہ صاحب ہنسنے لگے۔ بولے … ’میرے گھر میں کوئی ملازمہ نہیں ہے، میری اہلیہ ہی مجھے صاحب کہتی ہیں‘… حاطب بھائی! مجھے اتنا اچھا لگاکہ کہیں تو شوہر کا احترام کرنے کی روایت موجود ہے۔ ارے بھائی احترام دو گے تو احترام ملے گانا‘‘۔
ہم اُن کی ہر گفتگو میں اُن سے کوئی نہ کوئی نئی بات ضرور سیکھتے۔ مگر ہم نے اُن سے سب سے اچھی بات وہی سیکھی۔ ہر ایک کو سلام کرنا۔ نجانے مختار گوہر بھائی نے اپنے اِس طرزِ عمل سے اس نیکی کو کہاں کہاں تک رواج دے ڈالا ہوگا۔
اللہ اُن کے اس مسلسل نیک عمل کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے۔ ان کے اس صدقۂ جاریہ کو ان کے لیے جنت الفردوس کے باغات کے ذخائر میں اضافے کا سبب بنائے۔ ان کی بہترین میزبانی فرمائے اور ان کے متعلقین سمیت ان کے تمام چاہنے والوں کو صبر عطا فرمائے۔ آمین۔ بھائی مختار گوہر کو ہمارا آخری سلام پہنچے۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہٗ۔