اسرائیل کو تسلیم کیا تو کشمیر کے لیے کوئی حمایت نہیں کرے گا

678

کراچی(رپورٹ:منیر عقیل انصاری) اسرائیل کو تسلیم کیا تو مقبوضہ کشمیر کے لیے کوئی حمایت نہیں کرے گا، اسرائیل کی حمایت میں باتیں کرنے والے پاکستان سے مخلص نہیں، یہ لوگ ملک میں تصاد م اور انارکی چاہتے ہیں،اسرائیل کو کسی صورت خطے میں قدم جمانے کا موقع نہیں دیا جائے۔عرب معاہدے سے فلسطین کاز کو نقصان پہنچے گا، عرب لیگ اور اوآئی سی پر امریکی تسلط ہے، انہوں نے اسرائیل کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ان خیالات کا اظہار وزیر اعظم پاکستان کے معاون خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی اور چیئرمین پاکستان علما کونسل حافظ محمد طاہر محمود اشرفی،پاکستان مسلم لیگ (نون) کے سینئر رہنما و سینیٹر مشاہد اللہ خان،جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سینئر پروفیسر ڈاکٹر شائستہ تبسم نے جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ عرب لیگ اور اوآئی سی مسئلہ فلسطین پر کوئی نتیجہ خیز کردار ادا نہیں کرسکی اور اس کی وجہ شاید عرب لیگ اور او آئی سی پر امریکی تسلط کا بہت زیادہ ہونا ہے اور امریکا اس طرح کے اداروں سے اپنی بات منوالیتا ہے۔انہوں نے کہا کہ فلسطینی اور ان کے بچوں کے ساتھ بہت زیادتی ہورہی ہے وہ ساری دنیا میں ہجرت کرتے پھر رہے ہیں اور اسرائیل آگے ہی بڑھتا چلا جارہا ہے۔ماضی میں بعض ممالک بڑے مضبوط تھے اردن اور مصر جیسا ملک یہ لوگ جوکہ اپنی بنیاد چھوڑ چکے ہیں، ورنہ ان لوگوں نے ناکوں چنے چبائے ہوئے تھے، اب حماس تنظیم کے سوا کوئی ایسا ملک نظر نہیں آتا ہے جو ان کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکے۔انہوں نے کہا کہ یہ ساری باتیں اگر اکٹھی کریں تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمارے ملک میں آپ دیکھے کہ پہلی دفعہ کسی نے سوچا نہیں تھا کہ حکومت کی چھتری کے نیچے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں ہوں گی،تحریک انصاف ایم این اے قومی اسمبلی میں بات کریں گے،جنرل شعیب روزانہ ٹیلی وژن پر کہیں نہ کہیں ایک 2 جگہ بیٹھے ہوتے ہیں، جنرل شعیب بہت عرصے سے اسرائیل کی وکالت کررہے ہیں اللہ جانے ان کا کہاں سے تعلق ہے کس سے تنخواہ لیتے ہیں کیا کرتے ہیں، اس کے علاوہ ایک دو صحافی جو اپنے آپ کو اینکر کہتے ہیں انہوں نے بھی اسرائیل سے متعلق بڑی کھل کر باتیں کی ہیں،پاکستان میں اس کا تصور بھی نہیں تھا۔ مشاہداللہ خان کا کہنا تھا کہ پھر بھی میں یہ سمجھتا ہوں کہ جو دستے نگر ملک ہوتے ہیں،جیسے اس وقت جو ممالک اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں وہ اسرائیل کے سامنے ہتھیار پھینک چکے ہیں اوران لوگوں کو اندازہ نہیں ہے کہ ہتھیار پھینکنے کے بعد کیا ہوتا ہے پھر جس کے سامنے ہتھیار پھینکا جاتا ہے توپھر اس کی ہی مرضی ہوتی ہے اور اس کے مطابق چیزیں چلتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ آج بھی جو طاقت ور ممالک ہیں جن میں خاص طور پر ترکی،ایران اور پاکستان جن کی فوجیں ہیں،اسی طرح سے حماس ایک ایسی طاقت ہے جو ان کے سامنے کھڑی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس جددجہد میں جو نیکی اور بدی کی قوتیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں اس میں نیکی کی جو قوتیں ہیں انہیں کسی بات پر گھبرانا نہیں چاہیے اور اپنی طاقت کومجتمع کرنا چاہیے۔جو ناانصافی اسرائیل کررہا ہے، فلسطینیوں کے ساتھ اس کو مزید اجاگر کرنے کی ضرورت ہے اور فلسطینیوں کا مزید ساتھ دینے کی ضرورت ہے اور جب یہ سارے مسائل فلسطینیوں کی مرضی اور منشا کے مطابق حل ہوجائے تو پھر جاکر یہ بات سوچنی چاہیے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا ہے یا نہیں کرنا ہے، اس سے پہلے تو سوال ہی نہیں ہونا چاہیے،مشاہد اللہ کا کہنا تھاکہ جب لوگ پیٹ کے پجاری ہوجاتے ہیں تو ہر چیز کو معیشت کے گرد گھومنا شروع کردیتے ہیں معیشت ایک انتہائی اہم چیز ضرور ہے لیکن معیشت ہی تو سب کچھ نہیں ہونا چاہیے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جوآخری خطبہ میں گائیڈ لائن دی تھی کہ کس طریقے سے اس دنیا کو آئندہ چلانا ہے،ان کی اس گائیڈ لائن میں کہی معیشت کی بات نہیں کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ معیشت کی اپنی جگہ ایک اہمت ہے لیکن اصل میں معیشت ایک مادی چیز ہے،مادی چیزوں نے تو ختم ہوجانا ہے،مادی چیزوں کے اندر روح نہیں ہوتی ہے،یہ روح تو انسانوں میں ہوتی ہے جس نے زندہ رہنا ہے اور وہ چاہے اللہ تعالیٰ کی پاس چلی جائے یا دنیا میں موجود ہو اسے تو زندہ رہنا ہے۔لیگی رہنما کے بقول جو چیز مصنوعی ہوتی ہے اس سے بڑی جلدی دل بھر جاتا ہے لیکن لوگوں کو اس مادی چیزوں کے اردگرد گھمایا جارہا ہے،جو مسلم ممالک آگے بڑھ چڑھ کر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں کررہے ہیں اگر وہ اپنی معیشت کی صورتحال دیکھے توانہیں پتا لگ جائے گا کہ ان کی معیشت میں پہلے سے زیادہ کمی واقع ہوئی ہے، ان کے معاشی حالات پہلے سے زیادہ بدتر ہوئی ہے معیشت بہتر ہونے کے بجائے اور خراب ہی ہوگی، اچھی نہیں ہوسکتی ہے، جوں جوں وقت گزرے گا اور اسرائیل سے ان کو فائدہ نہیں پہنچے گا۔انہوں نے کہا کہ ظالم کبھی کسی کو فائدہ نہیں پہنچا سکتا ہے، ظالم کا کام مظالم پر ظلم کرنا ہوتا ہے اور انسانوں اور مسلمانوں کا کام ہے کہ وہ مظلوموں کا ساتھ دیں اور ظالم کے ہاتھوں کو روکے۔جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سینئر پروفیسر ڈاکٹر شائستہ تبسم نے کہا کہ عرب ممالک کا اسرائیل کو تسلیم کرنااس کو علاقائی سطح پر کامیاب کرے گی، عرب دنیا اس چیز کو محسوس نہیں کر رہی ہے کہ وہ اسرائیل کو مزید مضبوط کر رہے ہیں، یہ فلسطینیوں کے ساتھ غداری ہے، اسرائیل مزید زمینوں پر قبضہ کر لے گا جس طرح سے اس نے پہلے ہی بہت جگہوں پر قبضہ کر رکھا ہے اور فلسطینی بے گھر ہوگئے ہیں،دنیا میں جہاں پر بھی مسلمانوں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے اس پر اسلامی ممالک کو مدد کرنی چاہیے یعنی یہ ایک مذہبی مسئلہ بھی ہے۔ پاکستان کا مسئلہ اس لیے مختلف ہے ہمارے ہاں کشمیر کا بھی مسئلہ ساتھ میں ہے، اگر لوگوں کے حقوق کو قربان کر دیں گے تو اگر ہم اسرائیل کو تسلیم کر لیں گے تو سب سے پہلے نقصان ہمارے کشمیری مسئلے کو ہوگا۔ تو دوسرے ممالک کس بناء پر کشمیریوں کی حمایت جاری رکھ سکیں گے اور میں تو یہی سمجھتی ہوں کہ جس طرح سے فلسطینیوں کے مسئلے کو ختم کر کے اسرائیل کو تسلیم کر لیا جائے تو دنیا بھر میں کشمیریوں کی حمایت کون کرے گا۔ اس وقت بہت سخت ضرورت ہے کہ جب یہ تحریک بڑھتی جا رہی ہے امریکی دباؤ کی ممالک پر تو ان ممالک کو اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا وجہ نعرہ پیش کرنا چاہیے جنہوں نے اب تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے انہوں نے ایک طرح سے سوڈان کو خرید لیا ہے ان کے سیاسی مسئلہ کی وجہ سے یہ ایک بہت بڑا نقصان ہے مسلمانوں کے لیے تو او آئی سی بھی غیر فعال ہوگئی کیونکہ او آئی سی بنی ہی اسی وجہ سے تھی کہ ان کے خلاف آواز اٹھائی جائے تو اب او آئی سی کے ارکان ممالک اسی چیز کو تسلیم کر رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ او آئی سی میں دراڑیں پڑ رہی ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان کے معاون خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی اور چیئرمین پاکستان علما کونسل حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کبھی تصور بھی نہیں کرسکتا ہے، اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے پاکستان پر کوئی دباؤ نہیں ہے۔فلسطین اور کشمیر صرف پاکستان ہی نہیں پوری امت مسلمہ کا مسئلہ ہے اور یہ مسئلہ ایک دن حل ہو کر رہے گا،پاکستان فلسطینیوں کے حقِ خود ارادیت کی غیر مشروط حمایت کرتا ہے۔انہوں نے کہاکہ پاکستان اسلامی تعاون تنطیم کا ایک اہم ملک ہے، وہ عالمی امور پر دیگر اسلامی ممالک سے مشاورت ضرور کرتا ہے لیکن پاکستان پر کوئی دباؤ نہیں ڈال سکتا ہے،پاکستان کی ایک آزاد اور خود مختار خارجہ پالیسی ہے اور ہم اپنے فیصلے خود کرسکتے ہیں۔ فلسطینیوں کی رضامندی کے بغیر تنازع فلسطین کا کوئی بھی حل پاکستان کے لیے بھی قابلِ قبول نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم پاکستان اس سلسلے میں واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ فلسطینی عوام کی خواہشات کے مطابق تنازع فلسطین کے منصفانہ حل تک پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرسکتا ہے۔ طاہر اشرفی نے واضح کیا ہے کہ فلسطینی عوام کے لیے قابلِ قبول ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام سے قبل اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔جو لوگ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کررہے ہے دراصل وہ پاکستان سے مخلص نہیں ہے،وہ پاکستان کے اندر بلاوجہ کوئی تصادم اور انارکی چاہتے ہیں۔