نصف اسرائیلی مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کے خواہاں سروے

280

 

مقبوضہ بیت المقدس (انٹرنیشنل ڈیسک) اسرائیلی شہریوں کی بڑی تعداد نے فلسطینیوں پر صہیونی حکوت کے مظالم کی مخالفت کردی۔ رائے عامہ کے ایک تازہ جائزے کے مطابق 49فیصد اسرائیلیوں نے امریکا کے نومنتخب صدر بائیڈن کی ثالثی میں فلسطینیوں کے ساتھ دوبارہ مذاکرات شروع کرنے کی حمایت کا اظہار کیا ۔ یہ سروے یورپی یونین کی نگرانی میں 16اور 17نومبر کو کیا گیاتھا،جس میں 500 سے زیادہ اسرائیلیوں سے سوال پوچھے گئے ۔ شرکا سے استفسار کیا گیا کہ اسرائیل کو متحدہ عرب امارات اور بحرین کے بعد کس عرب ملک کے ساتھ معمول کے تعلقات استوار کرنے چاہییں؟جواب میں 28 فیصد نے فلسطینیوں کے ساتھ امن قائم کرنے کی رائے دی ۔ ایک سوال یہ کیا گیا کہ اسرائیل فلسطین تنازع کے ممکنہ حل کیا ہوسکتے ہیں؟ 48فیصد کا کہنا تھا کہ دو ریاستی حل ہی واحد راستا ہے۔ 11فیصد نے کہا کہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کی ایک ہی ریاست ہونی چاہیے اور اس میں دونوں شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہونے چاہییں۔ قبل ازیں اگست میں فلسطینی سروے ریسرچ نے بھی غربِ اردن ، مشرقی بیت المقدس اور غزہ میں 1200فلسطینیوں سے انٹرویو کیے تھے ۔ ان میں 43فیصد فلسطینیوں نے دوریاستی حل کی حمایت کا اظہار کیا تھا۔ اسرائیلی اور فلسطینی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بائیڈن کی صدارت کے 4سال کے دوران فلسطین میں امن قائم ہوجائے گا۔ واضح رہے کہ اسرائیل کی حمایت اور فلسطینیوں پر دباؤ بڑھانے کے لیے ٹرمپ انتظامیہ نے غربِ اردن اور غزہ کو دی جانے والی 20 کروڑ ڈالر کی امداد منقطع کردی تھی۔ اس کے علاوہ 2018ء میں مشرقی بیت المقدس میں آباد فلسطینیوں کے لیے مختص ڈھائی کروڑ ڈالر کی امداد بھی روک لی تھی۔ ٹرمپ انتظامیہ نے فلسطینی مہاجرین کے لیے کام کرنے والی اقوام متحدہ کی یجنسی اونروا کو دی جانے والی 36 کروڑ ڈالر سالانہ کی امداد روک کر اپنے مذموم مقاصد کو پورا کیا تھا۔