اراکین اسمبلی کو مہنگائی اور عوام کی تنخواہوں میں اضافے سے سروکار نہیں

290

کراچی ( رپورٹ محمد انور) اراکین اسمبلی کو مہنگائی اور عوام کی تنخواہوں میں اضافے سے سروکار نہیں‘ملازمین کی کم از کم تنخواہیں ایک تولے سونے کی قیمت کے برابر کرنی چاہئیں‘منتخب نمائندے نہیں آئی ایم ایف بجٹ بناتاہے‘اسمبلیوں میں جاگیردار بیٹھے ہیں‘ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ تو لگاتے ہیں لیکن عوام کا احساس تک نہیں کرتے۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز سماجی اور سیاسی شخصیات نے اس سوال کے جواب میں کیا کہ کیااراکین اسمبلی، سینیٹ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے تناظر میں عام سرکاری و نجی ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے لیے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ؟۔ جماعت اسلامی کے مقامی رہنما اور رکن صوبائی اسمبلی سید عبدالرشید نے کہا کہ مجموعی طور پر سماجی دباؤ اراکین پارلیمنٹ پر بھی ہوتا ہے‘ تنخواہوں میں سندھ میں تو اضافہ کیا گیا مگر وفاق نے اضافہ نہیں کیا جبکہ میں نے اسمبلی میں آواز اٹھائی تھی کہ مدینے کی ریاست کی بات کرنے والوں کو ملازمین کی کم از کم تنخواہ ایک تولے سونے کی قیمت کے برابر تو کرنی چاہیے۔ عبدالرشید نے کہا کہ مہنگائی کی وجہ سے اراکین بھی مشکلات میں مبتلا ہیں‘ ہماری تنخواہ و مراعات ماہانہ تقریباً ایک لاکھ 50 ہزار روپے ہے جس میں 50 ہزار روپے تنخواہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے یہاں بجٹ منتخب نمائندے نہیں آئی ایم ایف بناتا ہے‘ ابھی کوئی بھی کچھ بھی نہیں کرسکتا اور یہ بے بس ہیں۔ ممتاز بزنس مین اور پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے ڈائریکٹر احمد چنائے کا کہنا تھا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹ بھی سرکاری ملازم ہیں تو ان کی تنخواہیں بھی عام سرکاری ملازمین کی طرح ہر سال 5 ، 10 یا 15 فیصد بڑھانی چاہیے۔ یہ طریقہ درست نہیں کہ اراکین اسمبلی کی تنخواہوں میں 200 فیصد اضافہ کردیا جائے ‘ انہیں بھی پتا چلنا چاہیے کہ کم تنخواہوں میں گزارا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جیسے وزیراعظم اور صدر مملکت کی کافی تنخواہیں بڑھا دی گئی ہیں‘ ایسے نہیں بڑھانی چاہئیں کیونکہ کم تنخواہ میں اگر وزیراعظم کا گزارا نہیں ہوسکتا تو دیگر کا بھی گزارا نہیں ہوسکتا‘جتنے بھی پرائیویٹ ادارے ہیں وہ بھی ہر سال 5 تا 10 فیصد تنخواہوں میں اضافہ کرتے ہیں۔ ممتاز سینئر صحافی اور مقامی روزنامہ کے بانی و مدیر مختار عاقل نے کہا ہے کہ ہمارے ایوانوں میں اکثریت جاگیرداروں کی بیٹھی ہوئی ہے اور وہ سارے اپنے مفادات کے لیے کام کرتے ہیں اور اپنے اختیارات میں کسی کو شامل نہیں کرنا چاہتے‘ جیسے بلدیاتی اداروں کو بے دست و پا کیا ہوا ہے نہ انہیں اختیارات دینے کے لیے تیار ہیں اور نہ انہیں کام کرنے دیا جاتا ہے۔ مختار عاقل نے کہا کہ یہ اراکین عوام کے لیے اسمبلیوں میں بیٹھ کر سوائے ’’یس‘‘ اور ’’نو‘‘ کے کچھ نہیں کرتے یہ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ تو لگاتے ہیںلیکن ووٹ دینے والوں کا احساس تک نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اگر عوام سے مخلص ہیں انہیں تنخواہیں نہیں لینی چاہیے۔ ممتاز قانون دان اور اسلامک لائرز فورم کراچی کے سیکرٹری محمد عامر ایڈووکیٹ نے کہا کہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا جبکہ جو حالات ہیں اس کے مطابق اب مزدور کی کم از کم تنخواہ 40 ہزارروپے ہونی چاہیے اور اراکین پارلیمنٹ، وزرا، وزرا اعلیٰ و وزیراعظم اور گورنر و صدر مملکت کو رضا کارانہ طور پر اپنی تنخواہوں سے کٹوتی کردینی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اراکین اسمبلی کو اپنی تنخواہوں میں اضافہ کرانا ہی نہیں چاہیے کیونکہ عوام انہیں ان کے اپنے مسائل کے حل کے لیے ووٹ دے کر اسمبلیوں میں نہیں بھیجتے۔