طلب عافیت… سب سے بہتر اور جامع دُعا

1036

سیدنا عباس بن عبدالمطلبؓ سے روایت ہے، ارشاد فرماتے ہیں: میں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! مجھے ایسی چیز بتائیے جو میں اللہ تعالیٰ سے مانگوں؟ آپؐ نے فرمایا: اے عباسؓ! اے رسول اللہ کے چچا! اللہ سے دنیا وآخرت میں عافیت مانگا کرو۔ مذکورہ روایت میں عباسؓ نے دوبار سوال کیا اور دونوں بار جواب میں رسول اللہؐ نے اپنے محبوب چچا کو عافیت کی دعا مانگنے کا حکم دیا۔ اس سے عافیت کی دعا مانگنے کی اہمیت اور فضیلت معلوم ہوتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ عافیت کے معنی کیا ہیں؟ جس کے مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔ علما نے لکھا ہے کہ عافیت نہایت ہی مختصر اور جامع لفظ ہے اور رسول کریمؐ کی یہ خصوصیت، بلکہ آپ کے معجزات میں سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو’’جوامع الکلم‘‘ یعنی ایسے مختصر کلمات عطا فرمائے، جن کے معانی انتہائی گہرے اور عمیق ہوں۔ ایک طویل حدیث میں رسول کریمؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے جو خصوصیات عطا فرمائی ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مجھے جامع کلمات عطا ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دین کی حکمتیں اور احکام، ہدایت کی باتیں، مذہبی ودنیاوی امور سے متعلق دوسری چیزوں کو بیان کرنے کا ایسا مخصوص اسلوب اللہ نے مجھے عطا فرمایا ہے جو نہ پہلے کسی نبی اور رسول کو عطا ہوا اور نہ دنیا کے کسی بھی بڑے فصیح وبلیغ انسان کو نصیب ہوا اور اس اسلوب کی خصوصیت یہ ہے کہ ایک چھوٹے سے جملے میں معانی ومفہوم کا ایک گنجینہ پنہا ں ہوتا ہے، اگر اس جملے کو پڑھیں اور لکھیں تو چھوٹی سی سطر بھی پوری نہ ہو، لیکن اس کا فہم اور وضاحت اور تشریح بیان کریں تو کتاب کی کتاب تیار ہوجائے۔ آپؐ کے اقوال وارشادات میں اس طرح کے کلمات کی ایک بڑی تعداد ہے، جنہیں ’’جوامع الکلم‘‘ کہا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ عافیت کی دعا بھی جوامع الکلم میں سے ہے، یعنی جامع دعاؤں میں سے ہے، اس لیے ہر انسان کو اسے یاد کرنا چاہیے اور ہمہ وقت اللہ سے عافیت کی دعا مانگتے رہنا چاہیے۔
صاحب مظاہر حق علامہ نواب قطب الدین خان دہلویؒ لکھتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ عافیت مانگنے کو بہت پسند کرتا ہے، اس کے برابر اور کسی چیز کے مانگنے کو پسند نہیں کرتا۔ عافیت کے معنی ہیں دنیا وآخرت کی تمام ظاہری وباطنی غیر پسند یدہ چیزوں، تمام آفات ومصائب، تمام بیماریوں اور تمام بلاؤں سے سلامتی وحفاظت۔ لہٰذا عافیت، دنیا وآخرت کی تمام بھلائیوں پر حاوی ہے، جس نے عافیت مانگی، ا س نے گویا دنیا وآخرت کی تمام ہی بھلائیاں مانگ لیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ عافیت مانگنے کو پسند فرماتا ہے‘‘۔ (نسال اللہ العافیۃ)
ڈاکٹر عبدالحی عارفیؒ قریب کے زمانے میں بڑے بزرگ گزرے ہیں، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے خلیفہ تھے، وہ فرمایا کرتے تھے: ’’عافیت بہت بڑی چیز ہے، بہت اونچی نعمت ہے اور عافیت کے مقابلے میں دنیا کی ساری دولتیں ہیچ ہیں، کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتیں۔ نیز وہ فرماتے تھے کہ عافیت دل ودماغ کے سکون کو کہتے ہیں اور یہ سکون اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوتا ہے، یہ دولت اللہ تعالیٰ بغیر کسی سبب اور استحقاق کے عطا فرماتا ہے۔ عافیت کوئی آدمی خرید نہیں سکتا، نہ روپے پیسے سے عافیت خریدی جاسکتی ہے، نہ سرمایہ سے اور نہ ہی منصب سے کوئی عافیت حاصل کرسکتا ہے۔ عافیت کا خزانہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، اس کی ذات کے سوا کوئی عافیت نہیں دے سکتا‘‘۔ کچھ اوقات اور کچھ مقامات قبولیت دعا کے لیے خاص ہیں، ان اوقات میں سے ایک اذان اور اقامت کے درمیان کا وقت بھی ہے، لہٰذا اس وقت آدمی کو اپنے لیے، اہل وعیال، متعلقین اور پوری امت مسلمہ کے لیے، دینی اور دنیاوی مقاصد کے لیے خوب دعا کرنی چاہیے، اس وقت عافیت کی دعا بھی مانگنی چاہیے، ترمذی شریف میں سیدنا انسؓ سے روایت منقول ہے کہ رسول کریمؐ نے ارشاد فرمایا: اذان اور اقامت کے درمیان کی جانے والی دعا رد نہیں کی جاتی۔ انسؓ فرماتے ہیں ہم نے سوال کیا کہ یہ قبولیت کے اوقات میں سے ایک اہم وقت ہے، ہمیں موقع ملے تو اللہ تعالیٰ سے اس قبولیت کے وقت میں کیا دعا مانگیں؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: اس وقت بھی اپنے رب سے دنیا اور آخرت کی عافیت کی دعا مانگا کرو۔
سنن ابن ماجہ میں سیدنا انس بن مالکؓ سے منقول ہے: ایک شخص نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! کون سی دعا افضل ہے؟ نبی کریمؐ نے فرمایا: اپنے رب سے دنیا وآخرت میں عفو اور عافیت کا سوال کرو، پھر دوسرے روز بھی یہی سوال وجواب ہوا، پھر تیسرے دن یہ شخص حاضر ہوا اور کہنے لگا: اے اللہ کے نبی!ؐ کون سی دعا افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اپنے رب سے دنیا وآخرت میں عفو اور عافیت کا سوال کرو، جب تمہیں دنیا وآخرت میں عفو اور عافیت مل جائیں تو یقیناً تم کامیاب ہوگئے۔
مشکوٰۃ شریف میں بحوالہ ترمذی حدیث مذکور ہے، عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں، رسول اللہؐ نے فرمایا: تم میں سے جس کے لیے دعا کے دروازے کھولے گئے، اس کے لیے رحمت کے دروازے کھول دیے گئے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے عافیت مانگنا ہر چیز مانگنے سے زیادہ محبوب ہے۔ مسند احمد بن حنبل میں امیر المؤمنین سیدنا صدیق اکبرؓ سے ایک طویل روایت میں یہ منقول ہے، ارشاد فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہؐ سے سنا ہے: تمہیں کلمہ اخلاص (کلمہ شہادت) کے بعد عافیت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں دی گئی، لہٰذا تم اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کیا کرو۔ رسول اللہؐ خود بھی بڑی کثرت سے رب العالمین سے عافیت کی دعا مانگا کرتے تھے، احادیث مبارکہ میں مختلف الفاظ سے آپؐ سے عافیت کی دعائیں مانگنا منقول ہے، ا س دعا کو آپ ہمیشہ اپنے معمولات میں شامل فرماتے تھے۔ ابوداؤد اور دیگر حدیث کی کتابوں میں سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے یہ روایت ہے کہ رسول کریمؐ صبح وشام نہایت پابندی سے ان الفاظ کے ذریعے دعا مانگتے: ’’اللھم انی اسالک العافیۃ فی الدنیا والآخرۃ اللھم انی اسالک العفو والعافیۃ فی دینی ودنیای واَھلی ومالی، اللھم استر عورتی‘‘ بہتر تو یہی ہے کہ یہ پوری دعا یاد کی جائے اور صبح وشام اس کے پڑھنے کو معمول بنایا جائے، تاہم مکمل یاد نہ ہو تو کم ازکم: ’’اللھم انی اسالک العافیۃ فی الدنیا والآخرۃ‘‘ اے اللہ! میں آپ سے دنیا وآخرت کی عافیت طلب کرتا ہوں۔ نہایت ہی مختصر سے الفاظ ہیں، ان الفاظ کے ساتھ اس دعا کو یاد کرلینا چاہیے اور اگر عربی الفاظ یاد نہ ہو تو اردو میں یہ دعا مانگ لیا کریں۔ یہ اللہ رب العزت کو بڑی پسند ہے، بندے اپنے پرودگار سے عافیت مانگتے رہیں، اللہ تعالیٰ اس مانگنے کو سب سے زیادہ پسند فرماتا ہے۔ انسان کثرت مال واسباب کے بجائے اپنے رب سے عافیت اور سکون مانگے، عافیت اور سکون میسر ہو تو تھوڑا بہت بھی کافی ہو جاتا ہے اور انسان کی زندگی پر سکون گزرتی ہے، ورنہ دولت کے موجود ہوتے ہوئے انسان اس سے کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتا، وہ انسان کے کسی کام کی نہیں۔ البتہ انسان کی لالچ، طمع اور انہماک کے بغیر اگر اللہ تعا لیٰ کچھ عطا فرمادے تو وہ اللہ کی نعمت ہے، انسان پھر اس کا حق ادا کرے۔
انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو صحت نصیب ہوتی ہے، بلاؤں، پریشانیوں اور امراض سے انسان محفوظ رہتا ہے، یہ بھی عافیت کا حصہ ہے، صحت کے زمانے میں اس عافیت کی دولت کی قدر ہمیں نہیں ہوتی، اسی لیے عقل مندوں کا یہ قول ہے کہ عافیت تو ایک تاج ہے، جو تندرست لوگوں کے سروں پر سجا ہوا ہے، وہ خود تو اس تاج کو نہیں دیکھ سکتے، ہاں! جو مریض ہوں، وہ اس تاج کو تندرستوں کے سروں پر دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ لہٰذا ہم ہر لحاظ سے اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگتے رہیں، اپنی ذات کے لحاظ سے بھی، اپنے اہل وعیال کے لحاظ سے بھی، دنیاوی واخروی زندگی کے لحاظ سے بھی۔