دین میں کوئی جبر نہیں

803

ہندو لڑکیاں مشرف بہ اسلام ہوجائیں اور کسی مسلمان لڑکے سے شادی کرلیں تو ہندوستان اور پاکستان میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ دونوں جگہ شور مچتا ہے۔ ظلم ہوگیا، جبر ہوگیا، زبردستی ہوگئی، ہندو لڑکیوں کو بازیاب کرائو، ان کے شوہروں کو پکڑو، انہیں سزا دو۔ ہندوستان میں تو بی جے پی نے اس سلسلے میں ایک باضابطہ نظریہ گھڑ لیا ہے۔ وہ کہتی ہے مسلمان لڑکے ہندو لڑکیوں کو ورغلانے کے لیے Love Jihad سے کام لے رہے ہیں۔ بی جے پی کے رہنما دعویٰ کرتے ہیں کہ مسلمان لڑکوں کو اس سلسلے میں مدارس کے اندر باقاعدہ تربیت دی جارہی ہے۔ پاکستان میں اب تک کسی نے اس سلسلے میں Love Jihad تو ’’ایجاد‘‘ نہیں کیا مگر سندھ میں پیپلز پارٹی اور اس کے رہنما اس حوالے سے بہت متحرک نظر آتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور اس کے رہنمائوں کو ہندو لڑکیوں کا مشرف بہ اسلام ہونا ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ ان کا خیال ہے کہ سندھ کے بعض مذہبی رہنما اس سلسلے میں موردِ الزام ٹھیرائے جانے کے مستحق ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان کا انگریزی پریس بھی بڑا ’’بیدار‘‘ ہے۔ اس کا بس چلے تو وہ ایک بھی ہندو لڑکی کو مسلمان نہ ہونے دے۔
مسلمانوں کا دین کہتا ہے، دین میں کوئی جبر نہیں، خدا اور اس کے رسولؐ پر ایمان لانا ایک آزادانہ عمل ہے، جس کا دل چاہے دین کو قبول کرے اور جس کا دل نہ چاہے دین کو قبول نہ کرے۔ مسلمانوں نے ہندوستان پر ایک ہزار سال حکومت کی، یہ اتنی بڑی مدت ہے کہ اگر مسلمان اپنی ریاستی طاقت کا دس فی صد بھی استعمال کرتے تو آج ہندوستان پورا مسلمان ہوتا مگر مسلمانوں نے نہ جبر سے کام لیا نہ ہندوئوں کو لالچ سے مشرف بہ اسلام کیا۔ اسلامی تاریخ کی ایک بنیادی حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں لوگ حکمرانوں کے ہاتھ پر نہیں صوفیا اور علما کے ہاتھ پر ایمان لائے اور ان دونوں کے ہاتھوں میں ریاستی طاقت تھی نہ سرمائے کی قوت تھی۔ ان کے پاس صرف تین چیزیں تھیں۔ تقویٰ، علم اور انسانوں سے بے لوث محبت۔ چناں چہ برصغیر میں جتنے ہندو مسلمان ہوئے تقوے، علم اور محبت کی قوت سے مسلمان ہوئے۔ محمد بن قاسم جب 712 میں سندھ آئے تو اس وقت برصغیر میں موجود مسلمانوں کی تعداد سیکڑوں میں تھی، آج برصغیر میں 65 کروڑ مسلمان ہیں۔ ان مسلمانوں کی عظیم اکثریت ہندوازم سے فراہم ہوئی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ہندو ایک مثال بھی ایسی پیش نہیں کرسکتے جس کی بنیاد پر ثابت کیا جائے کہ مسلمانوں نے ہندوئوں کو مسلمان بنانے کے لیے جبر، طاقت اور سرمائے کو استعمال کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندو سماج جبر اور ظلم میں ڈوبا ہوا تھا۔ اعلیٰ ذات کے ہندوئوں نے نچلی ذات کے کروڑوں ہندوئوں کی زندگیوں کو پانچ ہزار سال سے جہنم بنایا ہوا تھا۔ مسلم معاشرے بھی جبر اور ظلم سے پاک نہیں تھے مگر مسلم معاشروں میں آدمیت کا زیادہ احترام تھا۔ اس میں زیادہ محبت، زیادہ مساوات اور زیادہ عدل تھا۔ چناں چہ ہندوئوں کی اکثریت مسلمانوں اور ان کے دین سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ ہندوئوں کے اسلام سے متاثر ہونے کا ایک ثبوت پریم چند کا افسانہ عیدگاہ ہے۔ آپ اس افسانے سے پریم چند کا نام ہٹادیں تو عام پڑھنے والا سمجھے گا کہ یہ افسانہ کسی مسلمان نے لکھا ہے۔ پریم چند کے افسانے کی پوری فضا پر اسلام، اس کی عظمت اور اس کا ’’نور چھایا‘‘ ہوا ہے۔ اس افسانے میں پریم چند اسلام کے تصور توحید سے متاثر ہیں۔ اسلام کی مساوات اور مسلمانوں کی ہم آہنگی سے متاثر ہیں۔ اس لیے انہیں عید کے دن کا سورج بھی عام دن کے سورج سے مختلف نظر آتا ہے۔
اسلام اور مسلمانوں نے صرف برصغیر میں کروڑوں لوگوں کو مسلمان نہیں کیا۔ اسلام یورپ گیا تو اس نے مسلم اسپین میں لاکھوں عیسائیوں اور یہودیوں کو مشرف بہ اسلام کیا۔ اسلام چین پہنچا تو اس نے لاکھوں چینیوں کو مشرف بہ اسلام کیا۔ اسلام روس پہنچا تو اس نے روس میں لاکھوں لوگوں کو مسلمان کیا۔ اسلام افریقا پہنچا تو اس نے لاکھوں افریقوں کو مسلمان کیا۔ چاند اور مریخ پر بھی اگر انسان ہوتے اور اسلام وہاں جاتا تو وہاں بھی وہ لوگوں کو مسلمان کرتا۔ اسلام کی معنویت، اس کی طاقت اور اس کا حسن و جمال ہی ایسا ہے جو اس کے ساتھ رابطے میں آتا ہے بدل کر رہ جاتا ہے۔
ریاستی طاقت مذاق نہیں ہوتی۔ روس میں سوشلسٹ انقلاب آیا تو ریاست نے طاقت اور جبر کے ذریعے لاکھوں لوگوں کو اپنے مذاہب چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ چین میں سوشلسٹ انقلاب آیا تو ریاست نے لاکھوں مسلمانوں کے لیے مذہبی زندگی ناممکن بنادی اور انہیں سوشلزم کے آئیڈیلز کے مطابق زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا۔ ترکی میں مصطفی کمال کو اقتدار حاصل ہوا تو اس نے سیکولرازم کے جبر سے لاکھوں مسلمانوں کو سیکولر بنادیا۔ چین میں آج بھی سنکیانگ کے لاکھوں مسلمانوں کو ریاستی جبر کے تحت مشرف بہ سوشلزم کیا جارہا ہے اور چینی مسلمانوں کے لیے کوئی موثر آواز نہیں اُٹھا رہا۔ ہندوستان میں مسلمانوں کا زمانہ ایسا تھا کہ اس وقت نہ کوئی انسانی حقوق کا مسئلہ تھا نہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے پروپیگنڈے کا خوف تھا۔ مسلمان جو چاہتے کرتے، ان کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہ ہوتا۔ مگر مسلمانوں نے اپنے دین کے حکم دین میں کوئی جبر نہیں ہے کو اپنے لیے مشعل راہ بنایا۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ ہندوستان میں مسلمان ہندو لڑکیوں کو Love Jihad کے ذریعے متاثر کررہے ہیں وہ ہندوستان کے معاشرے کے بنیادی حقائق سے آگاہ نہیں۔ ہندوستان کی ہندو قیادت نے ہندوستان کے مسلمان کو اس طرح دیوار سے لگایا ہے کہ ان کی تعلیمی، معاشی اور سماجی زندگی تباہ ہوگئی ہے اور خود ہندوستان کے ہندو تجزیہ نگار اب ہندوستان کے مسلمانوں کو ہندوستان کا ’’نیا شودر‘‘ قرار دیتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہندو لڑکیوں کی تعلیمی، معاشی اور سماجی حالت مسلمان لڑکوں کی تعلیمی، معاشی اور سماجی حالت سے ہزاروں گنا بہتر ہے۔ ایسی صورتِ حال میں کسی ہندو لڑکی کا کسی مسلمان لڑکے کی طرف مائل ہونا تقریباً ناممکن ہے۔ آخر مسلمان لڑکے ہندو لڑکیوں کو معاشی اور سماجی اعتبار سے کیا دے سکتے ہیں؟ ان کے پاس نہ ریاستی طاقت ہے، نہ سیاسی طاقت ہے، ان کے پاس نہ دلکش عہدے ہیں، نہ دلکش تنخواہیں ہیں، ان کے پاس نہ معاشرے میں کوئی ممتاز مقام ہے، نہ ان کے پاس کوئی ایسی آسائش ہے جو ہندو سماج کی آسائش سے زیادہ ہو۔ اس کے باوجود بھی ہندو لڑکیاں مسلمان لڑکوں سے شادیاں کر رہی ہیں یا کرنا چاہتی ہیں تو یہ 21 ویں صدی کا ایک معجزہ ہے۔ اس کا سبب صرف اسلام، اس کی پیدا کردہ تہذیب، اس کی پیدا کردہ سماجیات، اس کی پیدا کردہ نفسیات اور اس کا پیدا کردہ طرزِ عمل ہے۔ ہندوستان میں بلاشبہ مسلمانوں کی معاشی اور سماجی حالت اچھی نہیں۔ لیکن اسلام کے زیر اثر ان کا خاندانی اور معاشرتی نظام ہندوئوں کے خاندان اور معاشرتی نظام سے بہتر ہے۔ مسلمان لڑکے جتنے اچھے شوہر ہوتے ہیں وہ راز نہیں مگر وہ بہرحال ہندو نوجوانوں سے زیادہ اچھے شوہر ثابت ہوتے ہیں۔ اس کا ایک سبب اسلام کا تصورِ عورت ہے۔ اس تصورِ عورت کے زیر اثر مسلمان اپنی بیویوں کی ہندوئوں سے کہیں زیادہ تکریم کرتے ہیں۔ یہ بات مسلمانوں کے ساتھ زندگی بسر کرنے والے ہندو خاندان کے مشاہدے اور تجربے میں آکر رہتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہندو لڑکیوں کا مسلمان لڑکوں کی طرف مائل ہونا قابل فہم ہے۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کی بہن وجے لکشمی پنڈت نے ایک مسلمان سے شادی کرلی تھی۔ گاندھی کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے وجے لکشمی پنڈت کو بلایا اور بہت ناراض ہوئے۔ کہنے لگے تمہیں کروڑوں ہندو نوجوانوں میں سے کوئی لڑکا اس قابل نہیں ملا کہ تم اس سے شادی کرسکو۔ انہوں نے یہ کہا اور وجے لکشمی پنڈت کی شادی ختم کروادی۔ سوال یہ ہے کہ نہرو کی بہن کو واقعتاً کوئی ہندو لڑکا شادی کے قابل کیوں نہ نظر آیا۔ آخر اس کی کوئی تو وجہ ہوگی۔
خیر یہ تو ہندوستان کا قصہ ہے۔ مغرب میں دہائیوں سے اسلام کے خلاف پروپیگنڈا عروج پر ہے مگر اس کے باوجود وہاں ہزاروں اہل مغرب مسلمان ہورہے ہیں۔ مسلمان ہونے والوں میں بڑے بڑے دانش ور ہیں، سفارت کار ہیں، گلوکار ہیں، بالائی طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں۔ زیر بحث موضوع کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ مغرب میں مشرف بہ اسلام ہونے والوں میں 60 فی صد خواتین ہیں، حالاں کہ مغرب میں اسلام کے بارے میں سب سے زیادہ پروپیگنڈا اس بات کے حوالے سے کیا جاتا ہے کہ اسلام عورتوں کو دباتا ہے اور اسلام میں عورت کا کوئی مقام نہیں ہے۔ مگر مغرب کی خواتین اسلام اور اسلامی تہذیب کا مطالعہ کرتی ہیں اور مغرب میں آباد مسلمانوں کے خاندانوں میں خواتین کے مقام و مرتبے کو ملاحظہ کرتی ہیں تو انہیں اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی معاشرت میں بڑی دلکشی نظر آتی ہے اور وہ مشرف بہ اسلام ہوجاتی ہیں۔ یہ مکمل طور پر ایک آزادانہ عمل ہوتا ہے اس لیے کہ اسلام کی بنیادی تعلیم یہ ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔