کورونا بھی سیاسی ہوگیا

557

جب سے کورونا کا شور سن رہے ہیں، اس کے پھیلاؤ کے مختلف ذرائع بھی سامنے آرہے ہیں جن میں سب سے بڑا ذریعہ سماجی رابطے اور نزدیکی میل جول قرار پایا ہے۔ ان میں شادی بیاہ کی تقاریب، بازاروں میں رش، اسکول اور کالجوں میں بچوں کا میل جول، سماجی سرگرمیاں، سیاسی اور مختلف مذہبی جلسے جلوس وغیرہ شامل ہیں۔ تب ہی سے ہمارے پیارے ملک پاکستان میں لاک ڈاؤن کی شکل میں احتیاطی تدابیر کی گئی ہیں، اسکول، بازار اور سماجی رابطوں پر پابندی لگی مگر نظریہ ضرورت کے تحت۔ الحمدللہ کورونا کی اتنی سنگینی پاکستان میں نظر نہیں آئی جتنی باقی ممالک میں دیکھی گئیں۔ کیسز کے ساتھ اموات کی شرح بھی کنٹرول میں رہی۔ اس کی ایک وجہ تو ڈر اور خوف سے کیسز کا رپورٹ نہ ہونا بھی ہے۔ مگر جب سے دوبارہ کورونا نے سر اٹھانا شروع کردیا ہے۔ دوبارہ سے خوف اور دہشت کی لہر اٹھ رہی ہے، مگر پاکستان میں حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے اس بار کورونا پر پچھلے سال سے نسبتاً زیادہ سیاست کی جارہی ہے۔ کورونا پر جہاں جہاں حکومت کے اپنے مفادات وابستہ ہوئے وہاں پابندی دیکھنے میں نہیں آئی، مگر جیسے ہی اپوزیشن کی جانب سے کچھ ہونے کا خدشہ پیش آیا فوراً کورونا کے احتیاطی تدابیر یاد آئیں، جس کی حالیہ مثال گلگت بلتستان کے سیاسی جلسے جلوس تھے، کورونا کے بڑھتے ہوئے کیسز کے باوجود بھی جلسے ہوتے رہے اور لوگوں کی کثیر تعداد نے ان میں شرکت کی، مجمع لگائے گئے، ایس او پیز کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ اس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کے جلسے ہوتے رہے مگر مجال ہے جو کسی کو کورونا کے پھیلنے کا سبب یاد آیا ہو یا کوئی پابندی لگائی گئی ہو۔ مگر جیسے ہی گلگت بلتستان کے الیکشن اختتام پزیر ہوئے تو حکومت کو کورونا کے بڑھتے کیسز اور ایس او پیز کی یاد ایک دم سے پریشان کرنے لگی۔ اور پی ڈی ایم کے پشاور اور لاہور میں مشترکہ جلسے کو روکنے کا جواز بھی مل گیا۔ اس اقدام کا سب سے زیادہ اثر بچوں کی تعلیم پر پڑا۔ کیونکہ تعلیمی ادارے جو صرف دو مہینے قبل ہی کھلے تھے اور پڑھائی کی شرح بھی کم ہوگئی تھی۔ بچوں کا رحجان پڑھائی کی جانب مشکل سے دوبارہ راغب ہوگیا کہ یہ نئی صورت حال سامنے آئی اور دوبارہ سے اسکول بند کردیے گئے۔ اس سے شہری علاقوں میں جہاں انٹرنیٹ کی سہولت ہے تو تعلیم کچھ حد تک کور کی جاسکتی ہے، مگر دیہی علاقوں کو جہاں انٹرنیٹ کی سہولت نہیں مزید تباہی کی جانب دھکیلا جارہا ہے۔ کیونکہ پچھلی بار بھی انہی علاقوں کے بچوں کو زیادہ نقصان اٹھانا پڑا اور اس بار بھی کم و پیش ویسی ہی صورت حال نظر آرہی ہے۔
بات یہ نہیں ہے کورونا کو روکنے کے لیے حکومت کوئی اقدامات نہ کرے۔ لازمی ہے کہ عوام کی زندگیوں کی حفاظت کے لیے اپنے طور پر احتیاطی تدابیر کرے اور ان پر سختی سے عمل بھی کروائے۔ مگر یہاں الٹا حساب کتاب ہے۔ احتیاطی تدابیر اس وقت کی جاتی ہیں جب پانی سر سے گزر چکا ہو۔ یہ تو اللہ کی مہربانی ہے کہ باقی ممالک کی طرح پاکستان میں کورونا سے جانی نقصانات کم ہوئے ورنہ تو مارچ سے لے کر اب تک جو یہاں کے ایس او پیز کی حالت رہی ہے اس لحاظ سے کورونا نے تباہی ہی پھیلانی تھی۔ شروع میں کچھ علاقوں کو چھوڑ کر باوجود لاک ڈاؤن کے لوگوں نے ایس او پیز کو مکمل نظر انداز کیا۔ سب سے پہلے تو بارڈر کھول دیے گئے اور لوگ کورونا کو پاکستان میں لانے کا سبب بنے۔ پھر برائے نام لاک ڈاؤن میں لاکھوں کی تعداد میں محرم کے جلوس نکلے، اس کے بعد ربیع الاول کے جلوس نکلے۔ اس کے علاوہ اگر بازار کے چکر لگاؤ تو وہاں لوگوں کا جم غفیر ایسے لگتا ہے کہ پوری آبادی ایک ہی دن میں خریداری کے لیے نکلی ہے۔ اس لیے یہ بات تو یقینی ہے کہ پاکستان میں آکر کورونا میں بھی سیاسی خصلتیں پیدا ہو گئی ہیں۔ سیاست کی طرح اس کا شکار بھی تعلیم ہی ہے۔