دھیرے… یہ آبگینے ہیں

548

دھیرے… یہ آبگینے ہیں۔ اس حدیث مبارکہ میں رسول اللہؐ نے خواتین کو آبگینوں (شیشے کے برتنوں) سے تشبیہ دی ہے۔ آپؐ کو گوارہ نہ ہوا کہ اونٹنیوں پر سوار خواتین ان کی تیز رفتاری سے ہلکی سی بھی بے اطمینانی محسوس کریں۔ اللہ کے رسول ؐ چاہتے تھے کہ عورتوں کا اسی طرح خیال رکھا جائے کہ انہیں کوئی ٹھیس نہ پہنچے۔ تو پھر یہ کیسے گوارہ ہوگا کہ معصوم بچیوں اور خواتین کو جنسی درندگی کا نشانہ بنا کر بے دردی سے قتل کردیا جائے، ان پر تیزاب پھینکا جائے، یا پھر غیرت کے نام پر قتل کیا جائے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں 25 نومبر کو خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد خواتین پر جسمانی تشدد اور ان کے مسائل سے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے۔ خواتین پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کا آغاز اقوام متحدہ کے زیر اہتمام جنرل اسمبلی کی قرارداد کی منظوری کے بعد 1999ء میں ہوا۔ خواتین کے حقوق اور تحفظ کے لاتعداد قوانین ہونے کے باوجود آج بھی خواتین کو کسی نہ کسی طور پر تشدد اور ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بے شمار خواتین اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بھی نہیں اٹھاتیں۔ تیزاب گردی، جنسی ہراسگی، گھریلو تشدد، غیرت کے نام پر قتل، وراثت سے محرومی، دشمنی کے خاتمے سے بچنے کے لیے زبردستی کی شادی۔ یہ سب خواتین پر تشدد کی قسمیں ہیں۔ تشدد کا ایک سبب عورت کے لیے مواقع نہ ہونا ہے۔ تشدد سہنے والی عورتوں کے پاس پناہ لینے کے لیے کسی ٹھکانہ کا نہ ہونا اور اپنے بچوں کے لیے روزگار کا کوئی سامان نہ ہونا بھی ہے۔ خواتین پر تشدد کے بڑھتے واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ تشدد کا شکار ہونے والی خواتین اور معاشرتی رویوں میں کوئی واضح تبدیلی نہیں آئی ہے۔ گزشتہ دنوں لاہور کے قریب موٹر وے واقعہ جس میں خاتون سے جنسی تشدد کا واقعہ پیش آیا۔ قانون حرکت میں آیا لیکن جہاں موٹروے واقعہ ہوا وہیں دیگر علاقوں میں بھی بچیوں اور خواتین کے ساتھ زیادتی کے کئی واقعات رپورٹ ہوئے۔ زینب کیس میں بھی میڈیا نے آواز اٹھائی تو مجرم کو سزا ملی، لیکن ایسے واقعات کا سلسلہ تھم نہ سکا۔ جس کی سب سے بڑی وجہ بچیوں اور خواتین سے زیادتی کے مرتکب افراد کو قرار واقعی سزا کا نہ ملنا ہے۔ ملزمان پر قانون کی ڈھیلی گرفت اور سزا سے بچ نکلنا، خواتین پر تشدد کے اضافے کی ایک وجہ ہیں۔ خواتین کے خلاف تشدد اور دیگر جرائم کی روک تھام کے لیے ملک میں کئی قوانین موجود ہیں۔ صوبائی سطح پر بھی قوانین بنائے گئے، تحفظ نسواں بل کی منظوری بھی ہوئی، لیکن نفاذ کا مسئلہ ہے مجموعی طور پر قانون کی عمل داری نہیں ہے۔ قوانین صرف کتابوں میں درج ہیں۔
خواتین پر تشدد کے خلاف عالمی دن منایا جاتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ خواتین پر تشدد صرف پاکستان ہی میں نہیں، بلکہ پوری دنیا میں ہے۔ جب یہ مسئلہ اتنا سنگین ہے تو قوانین پر عمل درآمد انتہائی مضبوط ہونا چاہیے، تاکہ نصف آبادی کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ حکومت نے جہاں ملک میں قوانین بنائے ہیں، وہیں بے شمار عالمی معاہدے کر رکھے ہیں، جن کے مطابق خواتین کے استیصال کا خاتمہ کرنا ہے۔ سیڈا کے تحت حکومت نے یہ وعدہ کر رکھا ہے کہ موثر قانون سازی کریں گے تاکہ خواتین پر تشدد نہ ہو۔ جی ایس پی پلس میں بھی حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ ورکنگ ویمن کو سازگار اور محفوظ ماحول فراہم کیا جائے گا۔ خواتین پر تشدد کے حوالے سے عالمی کمٹمنٹ پوری نہ ہو سکی اس کی وجہ یہ ہے کہ قانون سازی تو ہو گئی، مگر ان قوانین پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔
غربت میں زیادتی، مہنگائی میں اضافے کا اثر خواتین پر پڑ رہا ہے۔ غذائی قلت، دہری ذمہ داریاں اور مردوں کی فرسٹریشن، تشدد کی صورت میں خواتین کو برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ ڈراموں میں خواتین پر تشدد دکھایا جاتا ہے جس کی وجہ سے معاشرے پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔ adult ویب سائٹس پر پوری دنیا میں پابندی ہے۔ پاکستان میں ان ویب سائٹس پر پابندی نہ ہونے کی وجہ سے بے راہ روی اور شہوانیت میں اضافہ بھی بچیوں اور خواتین پر جنسی تشدد کی ایک بڑی وجہ ہے۔معاشرتی رویوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اب ہم سب کو بدلنا ہوگا، تشدد کا شکار ہونے والے کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔ خواتین پر تشدد کے واقعات پر فیس بک، ٹویٹر، پر پوسٹ یا اخبارات میں ایک دو کالم لکھنے سے یہ مسئلہ ختم نہیں ہوگا، ہمارا فرض ہے کہ تشدد کی روک تھام کے لیے قوانین سے نہ صرف خود آگاہ ہوں بلکہ خواتین کو بھی آگاہ کریں۔
کسی بھی ملک میں امن قائم رکھنے، تشدد اور جرائم کے خاتمے اور انصاف کی فراہمی میں پولیس کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ جب تک محکمہ پولیس کے اہلکاروں کو خواتین کے حقوق کے حوالے سے مکمل آگاہی نہیں دی جائے گی اس وقت تک چھوٹے شہروں، گاؤں اور قصبوں میں عورت تشدد کا شکار ہوتی رہے گی۔ پولیس اور عدلیہ کے لیے مناسب تربیت کا بندوبست کیا جائے، عدالتی نظام کو موثر بنایا جائے، تاکہ تشدد کے واقعات میں بین الاقوامی طرز پر کام ہو، مقدمات کی تفتیش اور سماعت کے دوران خواتین کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ تشدد کے واقعات معاشرتی کمزوریوں سے پیدا ہوتے ہیں تعلیم کو ٹھیک کیا جائے، نصاب میں خواتین کے حقوق پر مضامین شامل ہوں۔ میڈیا خواتین کے حقوق کے حوالے سے موثر شعور اجاگر کر سکتا ہے۔
اسلام نے عورت کو بہت مرتبہ دیا ہے مگر ہمارا معاشرہ خواتین کو کیا مقام دے رہا ہے؟؟ معاشرے کی کردار سازی کے لیے علمائے کرام کو کردار ادا کرنا چاہیے۔ گھر میں ماں، بیوی، بہن اور بیٹی کا احترام نہیں ہوگا تو یہ کس طرح تصور کیا جاسکتا ہے کہ معاشرے میں خواتین کو ان کے حقوق ملیں گے۔ شریعت اسلامیہ میں خواتین پر تشدد، گالم گلوچ، زنا بالجبر جبری مشقت، غیرت کے نام پر قتل، وراثت سے محرومی کی قطعاً گنجائش موجود نہیں اور ان جرائم پر شرعی قوانین موجود ہیں۔ اسلامی معاشرے میں ان رسوم و رواج کا دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے۔ معاشرے کو اسلامی تعلیمات کے مطابق تربیت دیے جانے سے خواتین پر تشدد وزیادتی سے چھٹکارا ممکن ہے۔