جو بائیڈن مایوسی کا پہاڑ ثابت ہوں گے

1383

امریکا کا صدارتی انتخاب اچھا خاصا مضحکہ خیز ڈراما بن گیا ہے۔ گو سابق نائب صدر جو بائیڈن ریاستوں کے انتخابی ووٹوں کی اکثریت حاصل کر کے فتح مند رہے ہیں لیکن ابھی تک صدر ٹرمپ اپنی شکست تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ انتخاب میں دھاندلی ہوئی ہے لیکن وہ کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کر سکے ہیں۔ یہ واقعی تعجب خیز بات ہے کہ سپر طاقت ہوتے ہوئے اور بے انتہا مالی وسائل کے باوجود پوسٹل ووٹوں کی گنتی میں اس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ بھی حیرت انگیز انکشاف ہے کہ ٹرمپ کی نسل پرستی کے باوجود افریقی امریکیوں اور ایشائیوں نے بڑی تعداد میں ٹرمپ کے حق میں ووٹ دیے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو بائیڈن کس قدر کمزور امیدوار تھے اور وہ امریکی عوام کی زندگی بہتر بنانے کے لیے کوئی وعدہ نہیں کر سکے۔ انتخابی مہم کے دوران جو بائیڈن نے کہا تھا کہ اگر وہ جیت گئے تو عوام کے معیار زندگی میں بنیادی طور پر کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اور بلا شبہ یہی حقیقت مشرق وسطیٰ کے بارے میں ٹرمپ کی اسرائل نواز پالیسی کے بارے میں صحیح ہے۔ ان کے دور میں بھی ٹرمپ کی یہی پالیسی برقرار رہے گی۔ لوگ بھولے نہیں ہیں کہ جو بائیڈن نے امریکی کانگریس میں دعویٰ کیا تھا کہ اسرائیل امریکی سامراج کا با اعتماد اتحادی ہے اور اگر اسرائیل کا وجود نہ ہوتا تو امریکا مشرق وسطیٰ میں اپنے مفاد کے تحفظ کے لیے اپنے طور پر ایک اسرائیل قائم کرتا۔ لوگوں کو یہ بھی یاد ہے کہ اوباما کے دور میں نائب صدر کی حیثیت سے جو بائیڈن نے اسرائیل کے لیے تین کروڑ اسی لاکھ ڈالر کی فوجی امداد منظور کرائی تھی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ امریکا نے اتنی بھاری فوجی امداد اسرائیل کے لیے منظور کی تھی۔
لوگ یہ بھی نہیں بھولے ہیں کہ 2007 میں ایک انٹرویو میں جو بائیڈن نے بڑے فخر سے کہا تھا کہ وہ صہیونی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صہیونی ہونے کے لیے یہودی ہونا لازم نہیں۔ جو بائیڈن کے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے پچھلے چالیس سال سے نہایت قریبی تعلقات ہیں اور بلا شبہ تعلقات کی قربت کا یہ سلسلہ ختم نہیں ہوگا اور جو بائیڈن کی مشرق وسطیٰ اور فلسطین کے بارے میں پالیسیوں پر ان پرانے تعلقات کا سایہ حاوی رہے گا۔ دو بار نائب صدر کے عہدہ پر فائز رہنے کے دوران جو بائیڈن کا، عراق، ایران، مصر اور لیبیا کے بارے میں امریکا کی متنازع پالیسیاں مرتب کرنے میں اہم رول رہا ہے غیر ملکی تعلقات کی کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے جو بائیڈن عراق کے خلاف جنگ کی حمایت میں پیش پیش تھے۔
جو بائیڈن نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ اور ایران کے بارے میں ٹرمپ سے مختلف موقف اختیار کریں گے لیکن انہوں نے اس کی وضاحت نہیں کی کہ اس سلسلے میں ان کی نئی راہ کیا ہوگی۔ ان سے توقع نہیں کہ وہ حکومتوں کی تبدیلی، ڈرون حملوں اور آمریت پسند حکمرانوں کی حمایت میں امریکا کی روایتی پالیسی ترک کر سکیں گے۔ اس لیے بہت کم لوگوں کو توقع ہے کہ جو بائیڈن کا دور ٹرمپ سے مختلف دور ہوگا۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ اوباما کے دور میں نائب صدر کی حیثیت سے جو بائیڈن امریکا کے یہودیوں کی نہایت طاقت ور اور با اثر تنظیم امریکن اسرائیل پبلک افیرز کمیٹی۔ AIPAC اور اوباما کے درمیان اہم رابطہ کار تھے اور اب بھی ان کے اس تنظیم سے قریبی روابط ہیں۔ اس صورت حال میں اس میں کسی کو شبہ نہیں کہ جو بائیڈن، ٹرمپ کے بعد بھی مایوسی کا پہاڑ ثابت ہوں گے۔
ٹرمپ نے جس انداز سے جو بائیڈن کی جیت تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے اس کے بارے میں آئینی ماہرین کی رائے ہے کہ ان کے وائٹ ہائوس میں برقرار رہنے کے لیے کوئی آئینی راہ نہیں ہے۔ ٹرمپ نے عدالتوں میں انتخاب کو جو چیلنج کیا ہے اس میں ان کی کامیابی کے امکانات نہیں ہیں۔ نئے منتخب صدر کو 20 جنوری کو اپنے عہدے کا حلف اٹھانا ہے اگر اْس وقت تک صدارتی انتخاب کے نتیجے کے بارے میں کوئی قطعی اور حتمی اعلان نہیں ہوتا تو اس صورت میں ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی قائم مقام صدر کا عہدہ سنبھالیں گی لیکن عام خیال ہے کہ اس کی نوبت نہیں آئے گی اور عین ممکن ہے کہ ٹرمپ آخر کار اپنی شکست تسلیم کر لیں گے۔