یورپ میں اسلامو فوبیا کیخلاف مسلم سیاستدانوں کو درپیش چیلنج

520

1990ء کی دہائی سے مغرب میں مسلمانوں کی موجودگی کے بارے میں پائی جانے والی دلچسپی میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ اس دلچسپی کا ایک بڑا حصہ مغربی اقوام کی وہ گھبراہٹ ہے جو وہ مسلمانوں کے وجودسے محسوس کرتے ہیں اور ان کی اس گھبراہٹ میں سیکورٹی کے تحفظات اور وار آن ٹیرر نے ایک خاص کردار ادا کیا ہے۔ امریکا میں نائن الیون اور برطانیہ میں 7 جولائی 2005ء کے واقعات پر رد عمل نے قومی سلامتی کے امور کو ثقافتی و مذہبی امور سے الجھا دیا ہے اور مغربی لبرل جمہوری روایات کے تسلسل کو اب مسلم موجودگی کے ساتھ ایک مقابلے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ وہ صورتحال ہے جس نے یورپ اور امریکا کے معاشروں میں رہنے والے مسلمانوں کے اندر مسلم تشخص کو متحرک کرنے، قومی شناخت سے وابستہ ہونے اور اس سے متعلق دیگر سوالات کو از سر نو اٹھا دیا ہے۔ ’’مسلم ہونا‘‘ یا ’’مغربی ہونا‘‘ کے استعارے اب اس سیاسی تحرک اور ان مطالبات کو ظاہر کرتے ہیں جو اس شناخت کے لیبلوں کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اس صورتحال میں مغربی معاشرے میں زندہ رہنے کے لیے ایک مسلمان کے لیے سیاسی زندگی اور سیاسی وابستگی دونوں ہی لازم و ملزوم ہیں۔ سیاستی وابستگی کو براہ راست شرکت کے ذریعے یا غیر سرکاری تنظیموں کے زیر اثر سماجی سرگرمیوں کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے جس کا مقصد حکومتی اداروں کے اندر اسلامی امور کے بارے میں شعور اجاگر کرنا ہے۔ سماجی سرگرمیوں میں مسلمانوں کی شمولیت تو ایک عرصے سے ہے لیکن سیاست میں براہ راست وابستگی کا رجحان زیادہ نیا ہےکیونکہ اس کے لیے پہلے اس ملک کی شہریت کی ضرورت ہوتی ہے، جہاں آپ رہائش پذیر ہوتےہیں اور اس بات کی بھی ضرورت ہوتی ہےکہ اس معاشرے میں آپ زیادہ گہرائی کے ساتھ جڑے ہوئے ہوں۔
یورپی یونین کے 5 فیصد رہائشی خود کو مسلمان تسلیم کرتے ہیں، یوں یورپی معاشرے میں مسلمانوں اور اسلام کی بڑھتی ہوئی موجودگی سے وہاں کی سیاست میں ان کی موجودگی کا اضافہ ہوا ہے۔ پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق براعظم یور پ میں اس وقت ایک کروڑ 90 لاکھ سے زیادہ مسلمان آباد ہیں۔ سب سے زیادہ مسلم آبادی فرانس میں ہے جو کچھ عرصے میں 10 فیصد کے قریب ہو جائے گی۔ جیسے جیسے مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے، ان ممالک میں سیاسی طور پر بھی اس آبادی کو ایک ایشو کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ حالیہ فرانس اور جرمنی کے قومی الیکشن میں مسلمانوں کی امیگریشن کا مسئلہ ایک بڑے سیاسی ایشو کے طورپر سامنے آیا۔
مشرقی اور جنوبی یورپ کے باشندے مسلمانوں سے متعلق اچھے خیالات نہیں رکھتے لیکن مغربی یورپ کے 15 ممالک کے باشندے مسلمانوں کو اپنا پڑوسی قبول کرنے کو تیار ہیں۔ امریکا میں تو بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو مسلمانوں کو اپنے خاندان کے رکن کے طور پر بھی قبول کرنے کو تیار ہیں، لیکن 2017ء کے پیو سروے کے مطابق اسلام کے حوالے سے مغربی اقوام کا ذہن صاف نہیں ہے۔ مغربی یورپ میں لوگ اپنے ملک کی ثقافت اور اقدار کےساتھ اسلام کی مطابقت کے حوالے سے منفی سوچ رکھتے ہیں اور امریکا میں بھی رائے عامہ اس حوالے سے تقسیم ہے کہ آیا اسلام مرکزی دھارے میں شامل امریکی معاشرے کا حصہ ہے یا نہیں۔
امریکا میں مسلمانوں کی آبادی بہت زیادہ متنوع ہے اوراسکا تعلق دنیا کے 75 ممالک سے ہے اور مسلمان مختلف مسلکی اور ثقافتی پس منظر رکھتے ہیں لیکن پھر بھی ایک گروہ کی طرح جانے جاتے ہیں۔ امریکا میں33 لاکھ مسلمان آباد ہیں جو کہ کل آبادی کا تقریباً ایک فیصد ہیں۔ امریکا کے ڈاکٹروں میں سے 10 فیصد مسلمان ہیں۔ یہودیوں کے بعد مسلمانوں کا گروہ سب سے زیادہ تعلیم یافتہ ہے۔ دوسرے امریکی گھرانوں کی طرح ان کی آمدن ایک لاکھ ڈالر سے زائد ہے۔ 6000 سے زائد مسلمان امریکی فوج میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ یورپ اور امریکا دونوں میں زیادہ تعلیم یافتہ مسلمانوں کی قبولیت زیادہ پائی جاتی ہے، جیسے امریکا میں 86 فیصد لوگ پڑھے لکھے مسلمانوں کو اپنی فیملی کا ممبر قبول کرنے کو تیار ہیں۔ جرمنی میں ایسے لوگوں کی تعداد 75 فیصد ہے، برطانیہ میں 71 فیصد اور آسٹریا میں 67فیصد جب کہ دیگر یورپی ممالک میں یہ تعداد کم ہے۔ تعلیم، عمر اور دیگر عوامل کو مدنظر رکھنے کے باجود، مسلمانوں کے ساتھ رویوں کو سیاست سے منسلک کیا جاتا ہے۔ مغربی یورپ میں بائیں بازو کی طرف جھکائو رکھنے والوں کے مقابلے میں دائیں بازو کی طرف جھکائو رکھنے والوں کی زیادہ قبولیت ہے۔ امریکا میں ڈیموکریٹ پارٹی کے خیالات کے حامل لوگوں کی 88 فیصد جبکہ ریپبلکن پارٹی کے خیالات کے حامل لوگوں کی 67 فیصد مسلمانوں کو فیملی ممبر کے طور پر قبول کرنے کو تیار ہے، تاہم ان معاشروں کے افراد اسلام کو بطور مذہب برابری کی اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ جرمنی میں 44 فیصد لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی ملکی ثقافت اوراسلامی اقدار کے مابین بنیادی تضاد موجود ہے اسی طرح امریکا میں بھی تقریباً 44 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ اسلام اور جمہوریت کے مابین فطری تنازع موجود ہے۔
نائن الیون کے بعد ریپبلکن صدر جارج ڈبلیو بش کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات اور پھر پیٹریاٹ ایکٹ جیسے قوانین کے ذریعے مساجد کی نگرانی کرکے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی وجہ سے مسلمان کمیونٹی میں واضح تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی بیان بازی صرف مسلمانوں کو سیاست میں آنے اور انتخاب لڑنے پر مجبور نہیں کر رہی تھی بلکہ اس نے لاطینی امریکیوں، مقامی امریکی خواتین اور دیگر لوگوں کو بھی اس بات پر مجبور کیا کہ وہ ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف سیاسی میدان میں اُٹھ کھڑے ہوں۔
ٹرمپ انتظامیہ کے تحت مسلمانوں کے ساتھ بڑھتی ہوئی دشمنی اور سفری پابندیوں کے بارے میں خدشات سے مایوسی کا احساس بڑھا۔ یہی وجہ ہے کہ جارج فلائیڈ کے قتل کے واقعے میں جب نسلی عدم مساوات اور پولیس تشدد کے خلاف مظاہرے ہوئے تو مسلم امریکی نوجوانوں نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور بڑی عمر کے مسلمان اس بات سے کافی پریشان تھے کہ کہیں نوجوانوں کا یہ عمل ان کے لیے مزید مشکلات پیدا کرنے کا باعث نہ بنے۔ پیو ریسرچ سینٹر کے ایک سروے کے مطابق حالیہ الیکشن میں مسلمانوں سمیت 63 فیصد ووٹرز کا کہنا تھا کہ وہ جو بائیڈن کو لانے کی اس قدر خواہش نہیں رکھتے جس قدر ٹرمپ کو نکالنے کی شدید خواہش رکھتے ہیں کیونکہ ٹرمپ کے مزید 4 سال تباہ کن ہوں گے کیونکہ ٹرمپ نسل پرستوں کو ایندھن فراہم کر رہے ہیں اور یہ ہمارے لیے ڈرائونا خواب ثابت ہوگا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے ابتدائی دنوں میں بہت سے مسلمان امریکیوں کے لیے پریشان کن وقت رہا ہے اور مسلمان اپنے مذہبی گروہ کے خلاف بہت زیادہ امتیازی سلوک محسوس کرتے تھے اور انکا خیال تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ امریکا میں اسلام کو مرکزی دھارے میں شامل امریکی معاشرے کا حصہ نہیں سمجھتے ہیں۔ تین چوتھائی مسلمانوں کا کہنا تھا کہ امریکا میں مسلمانوں کے ساتھ غیر دوستانہ سلوک ہوتا ہے اور نصف مسلمانوں کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں امریکا میں مسلمان کی حیثیت سے رہنا مشکل تر ہو گیا ہے اور 48 فیصد مسلمانوں کا کہنا تھا کہ پچھلے ایک سال میں انہوں نے اپنے ساتھ امتیازی سلوک کا کم از کم ایک واقعے کا مشاہدہ ضرور کیا ہے۔ صدر اوباما کے دور میں مسلمانوں کا خیال تھا کہ ملک صحیح سمت میں جا رہا ہے۔
امریکا میں مسلمانوں کی کم تعداد کے باجود، امریکی صدارتی انتخاب میں مسلم ووٹوں کا ایک وزن ہوتا ہے۔ خاص طور پر مشی گن، فلوریڈا، وسکونسن اور پنسلوانیا کی ریاستوں کے سیاسی میدان میں مسلم ووٹ خاص طو ر پر اثر انداز ہو تا ہے۔ مشی گن میں رجسٹرڈ مسلم ووٹروں کی تعداد 270000 ہے جو اہم مواقع پر انتخابات میں سوئنگ کر سکتے ہیں۔ 1990ء کی دہائی میں ریپبلکن اورڈیموکریٹس کی حمایت میں مسلم ووٹرز یکساں طو رپر تقسیم ہو گئے تھے لیکن نائن الیون کے بعد یہ فرق وسیع ہونے لگا اور ڈیموکریٹس کی نسبت ریپبلکن کو زیادہ اسلام دشمن سمجھا جانے لگا۔ 2017ء میں صدر ٹرمپ نے عہدہ سنبھالتے ہی ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تھا جس میں متعدد مسلم اکثریتی ممالک کے شہریوں کو امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کی گئی تھی جو کہ ایک طرح سے اس کا انتخابی وعدہ تھا، لیکن موجودہ الیکشن میں مسلمانوں کی بے پناہ دلچسپی اور شمولیت کو دیکھتے ہوئے ٹرمپ کی انتخابی مہم کی ڈپٹی نیشنل سیکرٹری کورٹنی پریلا و بھی یہ کہنا پڑا کہ ’’صدر ٹرمپ امریکا اور بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کے لیے مذہبی آزادیوں، معاشی خوشحالی اور تعلیمی مواقع کو یقینی بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں‘‘۔
امریکا میں مسلم سیاست میں اگر چہ وقت کے ساتھ تبدیلی آ رہی ہے لیکن اب بھی زیادہ تر مسلمان اپنے ’’مادر وطن‘‘ کی سیاست کے طرفدار ہیں اور زیادہ تر سیاسی تنظیموں کے ارکان میں پہلی اور دوسری نسل کے پیشہ ور افراد شامل ہیں جو اپنے ’’ماد وطن‘‘ کی شناخت کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں، لیکن نوجوانوں کے خیالات میں قابل ذکر تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے۔ امریکی مسلمان فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کرتے ہیں اور مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کی جابرانہ پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہیں اور ڈیموکریٹ پارٹی میں مسلمانوں کی اچھی تعداد کی شمولیت کے بعد پارٹی میں اب اسرائیل پر تنقید بھی ہوتی ہے۔ امریکن مسلم ووٹرز کا کہنا ہے کہ حالیہ الیکشن کے امیدواروں نے مسلم کمیونٹی پر زیادہ توجہ دینا شروع کر دی ہے۔ بہت سے امیدواروں نے مساجد اور بین العقائد مراکز کے دورے کیے اور ان کے معاملات پر گفتگو کرتے ہوئے یہ سمجھنے کی کوشش کی مسلمان امریکیوں کی کیا ضرورت ہے۔
امریکا میں کونسل برائے امریکن اسلامک ریلیشن (سی اے آئی آر) کے ڈائریکٹر نہاد عواض کے مطابق حالیہ امریکن صدارتی انتخابات میں 10 لاکھ مسلم ووٹروں میں سے 69 فیصد نے ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن اور17 فیصد نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیا۔ جو بائیڈن نے انتخابی مہم کے دوران امریکی مسلمانوں تک رسائی حاصل کی اور انہیں آئینی حقوق کے تحفظ اور مسلمانوں کے خلاف ملک میں بڑھتے ہوئے نفرت انگیز جرائم کو چیلنج کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ مسلمانوں نے صرف ڈیموکریٹس کو ووٹ ہی نہیں ڈالے بلکہ ڈیموکریٹس کے حمایت یافتہ 3 مسلمان امیدوار دوبارہ ایوان نمایندگان کےرکن اور 11 مسلمان امیدوار ریاستی انتخابات میں منتخب ہوئے ہیں۔ مقامی،پرائمری اور عام انتخابات میں کل 170 مسلمان امیدوارں نے حصہ لیا تھا جن میں 110 امیدواروں نے ابتدائی مراحل طے کر لیے تھے۔ان میں سے نصف سے زائد(57 مسلمان امیدوار) مختلف نشستوں پر کامیاب ہوئے ہیں تاہم حتمی فہرست تاحال جاری نہیں کی گئی۔
امریکی ایوان نمائندگان میں دوبارہ منتخب ہونے والوں میں منیسوٹا کے پانچویں کانگریشنل ڈسٹرکٹ سے الہان عمر، مشی گن کے تیرہویں ضلع سے رشیدہ طلیب، اور انڈیانا کے ساتویں ضلع سے آندرے کارسن شامل ہیں۔ کولوراڈو سے مقننہ کی سطح پر فلسطینی امریکی مسلمان ایمان جودھ بھی منتخب ہوئی ہیں۔ اوکلاہوما میں مورے ٹرنر ریاستی مقننہ کے لیے منتخب ہونے والے پہلے مسلمان قانون ساز ہیں۔ ڈیلاوئر میں مدینہ ولسن انٹن، وسکونسن میں سمبا بالدیہ، فلوریڈا میں کرسٹوفر بنجمن، ایف ایل ہائوس میں کرس بنجمن، انڈیانا سینیٹ میں فیڈی قدورا، منیسوٹا اسٹیٹ ہائوس میں ہوڈن حسن، عمر فاتح اور محمود نور، اور سینیٹ میں ابراہیم ایاش، نیویارک اسمبلی میں زہران ممدانی منتخب ہوئے ہیں۔
رشیدہ طلیب اور الہان عمر اس اسکواڈ کی اہم ارکان ہیں جس میں کانگریس کی خواتین اسکندریہ اوکاسیو کورٹیزاورآیانہ پریسلی بھی شامل ہیں۔ ڈیموکریٹس کا یہ گروپ صدر ٹرمپ پر تنقید کرنے میں بہت مشہور ہے۔ الہان عمر نے، جو ہیڈ اسکارف پہنتی ہیں اور صومالیہ نژاد ہیں، ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ’’صدر ٹرمپ، جس نے مسلمانوں پر عقیدے کی بنیاد پر پابندیاں عائد کیں، اب وہ اس بات کا کوئی حق نہیں رکھتے کہ لوگوں کو عقیدے کےاحترام پر لیکچرز دیں‘‘۔ آندرے کارسن نو مسلم ہیں، انہوں نے 16 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا۔ وہ ہائوس انٹیلی جنس کمیٹی کے پہلے مسلمان رکن ہیں۔ رشیدہ طلیب فلسطینی نژاد ہیں اور امریکا میں شہری حقوق کے لیے کام کرتی ہیں۔
اس سے قبل 2006ء میں کیتھ ایلیسن مینیسوٹا کے 5 ویں ڈسٹرکٹ سے کانگرہس کے پہلے مسلمان رکن کے طو رپر منتخب ہوئے تھے اور میری لینڈ کے ڈسٹرکٹ نمبر 39 سے ثاقب علی میری لینڈ ہائوس آف ڈیلی گیٹس کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ ان کے علاوہ عبدالسید بہت مشہور ہوئے جو پیشے کے لحاظ سے میڈیکل ڈاکٹر اور پبلک ہیلتھ پروفیسر ہیں لیکن انہوں نے اس کے ساتھ 2018ء میں مشی گن اسٹیٹ کے گورنر کے الیکشن میں بھی حصہ لیا اور 3 نمایاں امیدواروں میں سے وہ تیسری پوزیشن پررہے۔ ان کی مہم اتنی زبردست تھی کہ مختلف حلقوں کی جانب سے ان کے مشی گن اسٹیٹ کے گورنر منتخب ہو جانے کی توقع کی جا رہی تھی اور کچھ لوگ انہیں امریکا کا پہلا مسلم گورنر اور ’’دوسرا اوباما‘‘ کے خطابات دے رہے تھے۔
امریکا کے دیگر اہم مسلم سیاستدانوں اور رہنمائوں میں عاطف علی خان، نہاد عواض، زلمے خیل زاد، فرحانہ خیرا، سادا کمبر اور ہما عابدین شامل ہیں۔ عاطف علی خان اوباما ایڈمنسٹریشن میں 2009ء میں اسسٹنٹ سیکرٹری فار پالیسی، ڈپٹی مئیر آف ہوم لینڈ سیکورٹی فیڈرل پراسیکیوٹر رہ چکے ہیں۔ نہاد عواض کونسل آف امریکن مسلم ریلیشنز کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ سادا کمبر او آئی سی میں امریکن مندوب رہ چکے ہیں۔ زلمے خلیل زاد، افغان امریکن ڈپلومیٹ، افغانستان اور عراق میں امریکن سفیر اور سیکرٹری آف اسٹیٹ رہ چکے ہیں۔ لنڈا سارسور فلسطینی نژاد خاتون رہنما ہیں۔ فرحانہ خیرا امریکن سینیٹ کی عدلیہ کمیٹی کی دستوری قانونی ماہر اور مسلم نیشنل لیگل ایڈوکیسی گروپ کی رہنما ہیں۔ ہما عابدین، ہیلری کلنٹن اور بل کلنٹن کی الیکشن مہم کی سربراہ رہ چکی ہیں۔
اگر یورپی یونین میں مسلمانوں کے سیاسی کردار کی بات کریں تو یورپی معاشرے میں بھی مسلمانوں اور اسلام کی بڑھتی ہوئی موجودگی سے وہاں کی سیاست میں ان کی موجودگی کا اضافہ ہوا ہے۔ 1990ء کے بعد یورپ کے کئی ممالک میں اسلامی سیاسی پارٹیاں سامنے آئیں۔ اسلامک پارٹی آف برطانیہ یورپ کی پہلی اسلامی جماعت ہے، جس کی بنیاد 1989ء میں ایک نومسلم ڈیوڈ موسیٰ پڈکاک نے رکھی۔ اس کا مقصد برطانیہ میں مسلمانوں کی مدد کرنا تھا۔ 2006ء میں اس پارٹی کی محدود انتخابی کامیابی کے باعث یہ تحلیل ہو گئی۔ یورپ کے مسلمانوں کی دوسری اہم پارٹی اسپین کی ’’پرون‘‘ ہے جو 2009ء میں قائم کی گئی۔ اس کے صد ر مرحوم مصفطی بکاچ العامرن مراکش نژاد باشندے تھے۔ یہ پارٹی مسلمانوں کے ساتھ دیگر اقلیتوں کی بھی نمائندگی کرتی تھی اور اسپین میں بسنے والےمسلمان زیادہ مضبوط اسلامی شناخت کے حامل ہیں، اس لیے اس پارٹی کو کامیابی نہیں مل سکی۔
بلجیم میں اسلام پارٹی کی بنیاد 2012ء میں رکھی گئی اور اس پارٹی نے خود کو اسلامی شناخت کے طور پر واضح کیا ہے۔ انہوں نے 2012ء میں برسلز میں مقامی کونسلوں میں نشستیں حاصل کیں اور حلال کھانوں، مسلم تعطیلات، حجاب وغیرہ کے حق میں مہمات چلائیں۔ 2009ء میں ناروے میں ایک پاکستانی نژاد غفوربٹ نے معاصر ناروے پارٹی Contemporary Party کی بنیاد رکھی۔ اس پارٹی نے ٹیکس اورایندھن کی قیمتوں کےمسائل پر کام کیا۔ یہ جماعت اسلامی شناخت کے ساتھ اسلامی اسکولوں، اسپتالوں کے حق میں، ملازمتوں کی پابندیوں کے خلاف اور گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کرنے والوں کو سزا دینے کے لیے مہم چلاتی ہے مگر انہیں ناروے کے انتخابی نتائج میں کوئی کامیابی نہیں مل سکی۔ نیدر لینڈز میں ڈچ مسلم پارٹی کی بنیاد 2012ء میں بنیاد رکھی گئی۔ یہ پارٹی توہین مذہب کے مجرموں اور اس کے نتیجے میں آزادانہ تقریر کی جزوی حدود کو روکنا چاہتی ہے اور مقدس کتابوں کی بے حرمتی پر سزا کے لیے قانون لانا چاہتی ہے لیکن 2015ء کے انتخابات میں کامیابی نہ ملنے پر پارٹی تحلیل ہو گئی۔
یورپ میں مسلمان، اسلامی جماعتوں کے ساتھ دیگر قومی جماعتوں کے امیدوار کے طور پر بھی سامنے آرہے ہیں۔ یورپ میں مسلم سیاسی شرکت کے ارتقا کے تجزیوں سے پتا چلتا ہے کہ اسلامی جماعتیں ان معاشروں میں جگہ نہیں بنا سکیں لیکن مسلم پس منظر رکھنے والے سیاست دان جو اسلامی شناخت کے پس منظر کو نظر انداز کرکے قومی جماعتوں میں شامل ہوتے ہیں وہ کامیاب نظر آتے ہیں۔ اس لا مطلب یہ ہے کہ مضبوط مذہبی شناخت رکھنے والے مسلمان اور اپنے عقیدے کا واضح اظہار کرنے والے مسلمان یورپ اور مغربی دنیا میں عوامی نمائندگی کے طورپر قبول نہیں کیے جاتے۔ سیاست میں صرف انہی لوگوں کو قبولیت حاصل ہو رہی ہے جو اپنی مذہبی شناخت کو واضح طور پر اظہار نہیں کرتے اور سیکولر شناخت رکھتے ہیں۔
یورپی پارلیمنٹ کے 749 اراکین میں سے 10 مسلمان ہیں۔ ان میں سے 4 فرانس سے منتخب ہوئے ہیں جن میں رشیدہ دتی (یورپی پیپلز پارٹی)، ٹوکیا صافی (ای پی پی)، کریمہ ڈیلی (گرینس) شامل ہیں۔ 2 اراکین برطانیہ سے ہیں جن میں سید کمال (ای سی آر)، اور سجاد کریم(ای سی آر) شامل ہیں۔ بلجیم سے ایک رکن سعید الخدرائی (سوشلسٹ ڈیموکریٹس)، نیدر لینڈز سے ایک مسلمان رکن ایمین بوزکرت اور جرمنی سے ایک اسماعیل ارٹگ شامل ہیں۔ ان میں سے سب سے مشہور رشیدہ دتی ہیں جو 2007ء میں فرانسیسی صدارتی انتخابات کے دوران نکولاس سرکوزی کی ترجمان رہی تھیں اور وزیر انصاف کے عہدے پر بھی فائز رہیں۔ دتی نے کبھی اسلام کےساتھ اپنے تعلق پر زور نہیں دیا اور ہمیشہ اپنے سیکولر رویے ہی کا اظہار کیا۔
برطانیہ کے مسلم سیاستدانوں میں سعیدہ وارثی کابینہ میں شامل ہونے والی پہلی مسلمان خاتون تھیں اور وہ 2010ء سے 2012ء تک کنزرویٹو پارٹی کی شریک صدر بھی تھیں۔ مئی 2018ء میں انہوں نے وزیراعظم تھریسا مے سے عوامی طور پر اعتراف کرنے کی اپیل کی کہ کنزویٹو پارٹی کو اسلاموفوبیا کا مسئلہ ہے۔ برطانیہ میں پاکستانی نژاد صادق خان 2016ء میں لند ن کے میئر رہ چکے ہیں۔ وہ 2005ء سے 2016ء تک لبیر پارٹی کے رکن پارلیمنٹ بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے 2016ء میں پولی ٹیشن آف دی ائیر کا ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہیں اورباقاعدگی سے مسجد جاتے ہیں۔
ان کے علاوہ لنکا شائر میں پیدا ہونے والے پاکستانی نژاد ساجد جاوید ہیں جو برطانوی کنزرویٹو پارٹی کے رکن ہیں اور 2010ء میں پارلیمان کے رکن اور 19-2018ء میں برطانیہ کے سیکرٹری داخلہ اور 20-2019ء میں چانسلر آف دی ایکسچیکوئر رہ چکے ہیں۔ ساجد خان کے حوالے سے اس وقت تنازع کھڑا ہو گیا جب انہوں نے بیان دیا کہ برطانیہ میں بچوں کے ساتھ زیادتی میں ملوث افراد میں سے زیادہ تر کا تعلق پاکستان سے ہے۔
برطانیہ کے دیگر سیاستدانوں میں لارڈ نذیر احمد بھی کافی مشہور ہیں، وہ1998ء میں وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی حکومت کے دوران برطانیہ کے ہائوس آف لارڈ کے رکن بنے۔ وہ بنیادی طو پر لیبر پارٹی کے رکن تھے اور2013ء میں جب انہوں نے ایک موٹر وے حادثے کے بعد ملنے والی جیل کی سزا کے لیے یہودی سازش کا الزام لگایا تو انہیں فوراً پارٹی سے معطل کر دیا گیا اور بعد ازاں انہوں نے استعفا دے دیا۔ نذیر احمد نے 2007ء میں سلمان رشدی کو مغرب میں ملے والی نوازشات پر بھی شدید تنقید کی تھی اور وہ سلمان رشدی کو اسلام پر جارحیت کا مرتکب سمجھتے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں وزیر اعظم ٹونی بلیئر پر بھی تنقید کی تھی۔
جرمنی کی مسلم سیاست میں سیم از مڈیر (گرین پارٹی) کا نمایا ں چہرہ ہے۔ وہ 2008ء سے 2018ء تک پارٹی کے شریک صدر کی طور پر خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ وہ سیکولر خیالات کے حامل ہیں اپنے آبائی وطن ترکی کے یورپی یونین میں شامل ہونے کے مخالف ہیں۔ ہالینڈ کے سیاست دان جروم وین کالوورن طویل عرصے سے اسلام پر سخت تنقید کرنے والے تھے اور انہوں نے پی وی وی پارٹی کے قانون ساز کی حیثیت سے اسلام کے خلاف مہم چلائی تھی لیکن اچانک اسلام کے خلاف کتاب لکھنے کے دوران ان کے ذہن اور قلب میں تبدیلی آئی اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ ان پر تنقید کرتے ہوئے ان کی سابقہ پارٹی کے رہنما نے طنز کیا کہ ’’ان کی ذہن میں آنے والی تبدیلی کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی شخص کسی سبزی ہائوس میں نوکری کرنے جائے اور وہاں نوکری کے دوران گوشت کو ترک کرکےسبزی خور بن جائے‘‘۔
اٹلی میں مراکش نژاد مسلمان سواد سبائی مشہور ہیں جو 2008ء میں اٹلی کی پیپلز آف فریڈم پارٹی سے پارلیمان کی رکن منتخب ہوئیں مگر اپنا تشخص سیکولر مسلمان بتاتی ہیں اور تارکین وطن خواتین کے حقوق کی علم بردار ہیں۔ اٹلی میں 2013ء کے انتخابات میں ایک اور مسلمان ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن پارلیمان منتخب ہوئے، یہ نوجوان مسلمان خالد چائوکی ہیں، جو مراکش سے تعلق رکھنے والے راسخ العقیدہ مسلمان ہیں۔ وہ اٹلی کے ’’ینگ مسلمز‘‘ کے سابق صدر ہیں جس کا نظریاتی تعلق اخوان المسلمون سے ہے۔ وہ اطالوی شہریت کے حصول میں سہولتوں کے حق میں بات کرتے ہیں۔ سویڈن میں لیلیٰ علی 2018ء میں پارلیمان کی رکن بنیں۔ وہ والدین کے ساتھ 1990ء میں صومالیہ سے سویڈن منتقل ہوئی تھیں اور سویڈن کے شہر گوٹن برگ کے اس ضلعے کی نمائندگی کرتی ہیں جہاں تقریباً 14 ہزار صومالی مہاجرین آباد ہیں۔
نیدر لینڈز میں ایک مسلم سیاستدان ابوطالب بہت مشہور ہیں جو مراکش نژاد ہیں اور2008ء میں مسلم روٹرڈیم کےمئیر منتخب ہوئے تھے۔ ان کا موازنہ بارک اوباما کے ساتھ کیا گیا تھا۔ انہیں 2007ء میں سیکرٹری برائے سماجی امور ہالینڈ بھی نامزد کیا گیا تھا۔ اسی طرح احمد اٹلیب 2009ء میں ڈچ شہر روٹر ڈیم کے مئیر بنے تھے اور وہ نیدر لینڈ میں تارکین وطن کے پہلے میئر تھے لیکن وہ مغرب میں آنے والے ان مسلمانوں پر تنقید کرتے تھے جو مغربی کی آزادی اظہار کی مخالفت کرتے ہیں۔ 2015ء میں انہیں ایک خبر رساں ادارے اے این پی نے ڈچ کا مشہور سیاستدان قرار دیا۔
آسٹریا میں مونا وزدار 17-2016ء میں اسٹیٹ سیکرٹری رہ چکی ہیں وہ فلسطینی نژاد مسلمان خاتون ہیں۔ کینیڈا میں مریم منصف 2017ء سے اسٹیٹس آف وومن منسٹری کی وزیر ہیں۔ اس سے قبل وہ 2015ء میں جمہوری اداروں کی وزیر تھیں۔ مریم کینیڈا میں جنسی بنیادوں پر ہونے تشدد کے خلاف کام کرتی ہیں۔ آسٹریلیا کی سینٹ میں منتخب ہونےوالی پہلی مسلمان خاتون مہرین سعید فاروقی ہیں جنہوں نے لاہور سے سول انجینئرنگ کی اور 1992ء سے آسٹریلیا میں مقیم ہیں۔
مغرب میں مسلم پس منظر رکھنے والے انفرادی سیاستدان، بظاہر مسلم جماعتوں سے زیادہ کامیاب نظر آتے ہیں کیونکہ وہ عام طور پر اپنے اوپر اسلامی لیبل نہیں لگاتے اور مخصوص حالات میں ووٹرز کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن مغرب کا میڈیا ان کی مسلم شناخت اور پس منظر کو اجاگر کرتا رہتا ہے تاکہ مغرب کے مقامی ووٹرز پر واضح رہے کہ وہ ان کا حقیقی نمائندہ نہیں ہے۔ اسی طرح مغرب کے مقامی سیاستدان بھی وہاں کے عوام کو ڈراتے رہتے ہیں کہ وہ مسلم سیاستدانوں کو ایک حد سے زیادہ پذیرائی نہ دیں ورنہ ان کی وجہ سے کبھی بھی یورپی معاشرے کے لیے کوئی مشکل صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ مثلاً جرمن چانسلر انجیلا مرکل کے کرسچئن ڈیموکریٹس کے ایک سرکردہ رکن نے یہ کہتے ہوئے ہنگامہ برپا کر دیا تھا کہ ایک مسلمان مستقبل کا چانسلر بن سکتا ہے کیونکہ یورپ میں ایسے مسلمان دکھائی دے رہے ہیں جو یورپین سیاست میں بہت آگے ہیں۔
اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مغرب کی حکمت عملی یہ رہی ہے کہ اگر انہیں صفحہ ہستی سے مٹا نہیں سکتے تو ان کو اس طرح بدل دو کہ اسلام، اسلام نہ رہے اور مسلمان، مسلمان نہ رہیں۔ انگریز سامراج نے برصغیر اور دیگر مسلم علاقوں میں اسی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے انہیں کچلا بھی ہے اور بدلا بھی۔ یعنی پہلے عسکری طاقت کے ذریعے مسلم سلطنتوں کو تہ و بالا کیا، اور پھر روشن خیال لوگوں کو استعمال کرتے ہوئے مقامی باشندوں کو مغربی علوم کے ذریعے نام نہاد تہذیب یافتہ بنانے کی کوشش کی۔ اسی طرح جو لوگ مغرب کے اندر مقیم ہیں، ان کے بارے میں پچھلے 20 سال میں میڈیا کے ذریعے مہم چلائی کہ وہ مقامی اور مہذب لوگ نہیں ہیں وہ اسلامی، دیسی اور جہادی لوگ ہیں مگر جب ان میں سے کچھ لوگ مغرب کی ثقافت اور اقدار کو اپنانے کے بعدمغرب کے خوشہ چیں بن گئے ہیں تو اب ان کو اسلام کا نمائندہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے اور اب وہی میڈیا کہہ رہا ہے کہ مغرب کے مسلمان مقامی ہو گئے ہیں۔ اب ان لوگوں کو مغرب کی سیاست میں داخل کرکے دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے ایک نمونہ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
مغرب میں اب ان مسلم نمائندوں کے ذریعے ایک ایسے اسلام کی تخلیق پر کام ہو رہا ہے جو مغربی ثقافت اور اقدار کے لیے قابل قبول ہو۔ ایسا مغربی اسلام جو سیکولرازم، جدید سوشل تھیوریز، ہم جنس پرستی اور سرمایہ دارانہ نظام کے مطابق ہو۔ فرانس کے صدر عمانویل ماکروں جب کہتے ہیں کہ اسلام بحران کا شکار ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اصل اسلام کو بحران کا شکار کر دیا گیاہے اور اس کے مقابلے میں ایک مغربی اسلام تخلیق کر دیا گیا ہے جو فرانس کی ثقافت و اقدار کے مطابق ہے اور جس کو اس سے اتفاق نہیں وہ فرانس سے چلا جائے۔ اسی طرح جرمنی کے وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر جب کہتا ہے کہ اسلام کا جرمنی سے کوئی تعلق نہیں تو اسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اصل اسلام کا جرمنی میں داخلہ بند ہے۔ پھر وہ جرمنی کے روشن خیال مسلمانوں کو دعوت دیتا ہے اور اس میں طرح طرح کی شرابیں اور خنزیر کا گوشت پیش کرتاہے اورکہتا ہے کہ اگر مسلمانوں کو مغرب کی عریانی اور شراب بری لگتی ہے تو وہ کہیں اور جاکر رہیں۔
مغربی ممالک اور بین الاقوامی سطح پر ہم جنس پرستی کو نہ صرف قبول کر لیا گیا ہے بلکہ اب تمام معاشروں میں اس کی توسیع پر کام ہو رہا ہے۔ مسلم ثقافت چونکہ اسے یکسر مسترد کرتی ہے، اس لیے اصل اسلام کے خلاف پروپیگنڈے میں اِسے اور اسلاموفوبیا کو ہتھیار اور روشن خیال مسلمانوں کو جانچنے والے آلے کے طو رپر استعمال کیا جا رہا ہے۔ وہ لوگ جو مغرب میں مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی کرنا چاہتے ہیں ان کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسلاموفوبیا کو تسلیم کریں، مسلم عسکریت پسندی کی مذمت کریں اور ہم جنس پرستی کے ایجنڈے کی حمایت کریں اور اگر حمایت نہیں کر سکتے تو کم ازکم اسکے سامنے خاموش تماشائی کا کردار ادا کریں اور اسکی مخالفت ہر گز نہ کریں۔ ان نمائندوں کے ذریعے مسلمانوں کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مسلما ن کے ایک ہاتھ میں جائے نماز، دوسرے میں ہم جنس پرستی، اور سر پر سیکولرازم کا تاج ہونا چاہیے۔ عیسائیت کی طرف سے ہم جنس پرستی کے خلاف مزاحمت ترک کر دی گئی ہے اورخاص طور پر پروٹسٹنٹ عیسائی تو اس کی حمایت بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مغرب میں ابھرتے ہوئے مسلمان سیاستدان، ان چیلنجوں سے کس طرح نبرد آزما ہوتے ہیں۔