زینب سے علیشاہ تک

606

کشمور میں پانچ سالہ بچی علیشاہ پھر نوابشاہ میں چودہ سال نو عمر بہن… دل دہلا دینے والی یہ خبریں ہیں۔ آخر ان واقعات کا سبب کیا ہے؟ کل کی زینب سے آج کی علیشاہ تک ان دو سال میں کتنی ہی بتول، عائشہ، کائنات، کوثر اور فیضان ایسے واقعات کا شکار ہوئے۔ زینب زندہ نہ ملی، علیشاہ بازیاب ہوئی لیکن جس حالت میں ہوئی اس کی ماں کہتی ہے ’’میری بیٹی جس حالت میں ملی میں تو جیتے جی مر گئی ہوں‘‘۔ پھر موٹروے کا واقعہ، یہ تو وہ واقعات ہیں جو میڈیا پر رپورٹ ہوئے اور لوگوں کو یاد رہے۔ ورنہ کتنے ہی واقعات وہ ہوتے ہیں جو تھانوں اور عدالت کی فائلوں میں دبے رہ جاتے ہیں۔ ان واقعات کے شکار بچے اور عورتیں بلکہ ان کے پورے خاندان معاشرے کے ظلم اور رویوں کی زیادتیوں کا شکار ہوتے ہوئے ختم ہوجاتے ہیں۔ لیکن مجرموں کو سزا نہیں ملتی اگر کبھی ملتی بھی ہے تو چند سال اور وہ پھر معاشرے میں اسی درندگی کے لیے آزاد ہوئے پھرتے ہیں۔ ساتھ مونچھوں کو تائو بھی دیتے ہیں۔ یہ مجرم ہمارے اور آپ کے ساتھ معاشرے میں رہتے ہیں ان کے خاندان ہمسائے اور دوست ہوتے ہیں بھلا کیسے یہ اپنے ایسے رویوں کو اور مجرمانہ عادتوں کو چھپالیتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ مجرم تو ہمیشہ اپنے آپ کو معصوم ظاہر کرتا ہے لیکن لوگوں نے بھی مٹی ڈالو والا رویہ اپنا رکھا ہے۔ پرائے پھڈے میں کون ٹانگ اڑائے۔ چھوڑونا اگر کوئی نازیبا حرکات کی عادتیں رکھتا ہے کوئی مجرمانہ ذہنیت کا شکار ہے، کسی کے معاملات پراسرار ہیں تو مٹی ڈالو۔ ان کے منہ نہ لگو۔ منہ پھیرو اور اپنا راستہ لو۔ ان باتوں کی بھی وجہ ہے کہ لوگ گواہی دیتے گھبراتے ہیں آنکھوں دیکھی سے مکر جاتے ہیں وجہ وہی ہے انصاف کا خون۔ مجرم کے بجائے جرم کا شکار بندہ پولیس کے سوال جواب اور ان کے گھر کے چکروں اور نذرانے کے مطالبات سے نفسیاتی مسائل کا شکار ہونے لگتا ہے۔ گواہی دینے والا عدالتوں کے چکر لگاتے لگاتے عاجز آجاتا ہے۔ دوسری طرف مجرم اور مجرم کے ساتھیوں کی دھمکیاں ہوتی ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مجرم اور مجرم کے ساتھی ہی پولیس اور عدالت کے اہل کاروں کے ساتھ ملے ہوتے ہیں۔ اور گواہ کی جان پر بن جاتی ہے۔ ہمارا معاشرہ ایسا تو نہ تھا۔ ایسا تو ایسے بنادیا گیا ہے اور بڑی محنت اور تک و دو سے بنایا گیا ہے۔ ڈراموں، اشتہاروں میں خواتین کی عزت، عصمت اور عصمت یوں اچھالی جاتی ہے کہ جیسے اس کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔ چائے، بسکٹ، شیمپو سے لے کر صابن اور ریزر تک انہیں انتہائی گرے ہوئے لباس اور انداز میں لوگوں کو ریجھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کوئی اشتہار مشکل ہی سے لڑکے لڑکیوں کے بیہودہ رقص سے محفوظ ہوگا۔ لڑکیوں کو پھنسانے کے انداز سکھانے کی اکیڈمی ہیں ہمارے سارے چینل۔ پھر اشتہارات سے بڑھ کر ڈرامے، شوہر بیوی کے دوسروں سے معاشقوں کی داستانیں، مقدس رشتوں کے درمیان غلیظ حرکتوں کی کہانیاں۔ جن کے کردار سارے زمانے کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنی بیہودہ منصوبہ بندیوں کو کامیابی تک پہنچا کر دم لیتے ہیں۔ یہی ہمارا الیکٹرونک میڈیا نوجوانوں کو دن رات سکھاتا پڑھاتا رہتا ہے۔ معاشرے میں یہ سب دکھا کر جنسی گھٹن کی کیفیت پیدا کردی گئی ہے۔ سو اسی گھٹن کو دور کرنے کے منصوبے بنائے جاتے ہیں۔ کبھی خواتین اور بچیاں اور کبھی نو عمر لڑکے اور چھوٹے بچے یہاں تک کہ معصوم جانور بھی ان منصوبوں کا شکار ہوتے ہیں۔ معاشرے میں پھیلی یہ درندگی کے سہولت کار اور تخلیق کار سوچیں تو سہی اُن کے بیوی بچے بھی اسی معاشرے میں رہتے ہیں۔ تیسری طرف سوشل میڈیا ہے جہاں ٹک ٹاک اور انسٹا گرام کے ذریعے فحش تصاویر اور ویڈیو بنانے کا مقابلہ لگا رہتا ہے اور جہاں نوجوان لڑکے لڑکیاں شہرت اور دولت گھر بیٹھے ایک ساتھ کمانے کی فکر میں ہیں۔ کچھ دنوں پہلے پیمرا نے ٹک ٹاک پر پابندی لگائی تھی لیکن اب اس کو پھر کھول دیا ہے۔ حالاں کہ اسے معاشرے کی اولین اکائی خاندان کے لیے ہی مضر قرار نہیں دیا گیا بلکہ اسے ملکی سالمیت اور سیکورٹی کے لیے بھی خطرہ قرار دیا جاتا ہے۔
لیکن سچ یہ ہے کہ کسی بھی جدید ٹیکنالوجی پر پابندی مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ بلکہ آرٹی فیشل انٹیلی جنس (مصنوعی ذہانت) کو استعال کرنا چاہیے جیسے دیگر ممالک کرتے ہیں۔ تا کہ بیہودہ فحش اور توہین آمیز مواد کو فلٹر کیا جاسکے۔ آخر حکومت کا کام کیا ہوتا ہے؟ خاص طور سے پاکستان جیسے نظریاتی ملک کے حکمران کا تو کام ہی برائی کو روکنا اور نیکی کا حکم دینا ہونا چاہیے۔ فحاشی روکنا اور اُس کے لیے قوانین بنانا حکومت کا فرض ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہاں اسمبلیوں میں عوام سے زیادہ مجرموں کے ہمدرد بیٹھے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ عوام کی بات کرنے والے عوام کا غم کھانے والے وقت پر عوام کے بجائے مجرموں کا ساتھ دیتے ہیں۔ زینب الرٹ بل اسمبلی میں پاس کیا گیا لیکن اس بل میں ایسے ہولناک جرائم پر دس سال یا زیادہ سے زیادہ چودہ سال کی سزا دینے کی بات کی گئی اور ہمارا عدالتی نظام وہ بھی نہیں ہونے دیتا۔ بچوں کے اغوا، زیادتی اور پھر انہیں قتل کردینے والے ہولناک جرائم پر سرے عام مجرموں کو سزائے موت ملنا چاہیے۔ زینب الرٹ بل میں سزائے موت کے لیے قرار داد پیش ہونے پر تحریک انصاف کی شریں مزاری نے سزائے موت کی مخالفت کرتے ہوئے اُس پر ٹویٹ کیا کہ ’’ہم میں سے بہت سے اس کے مخالف ہیں‘‘ ایک دوسرے وزیر فواد چودھری نے سزائے موت کے حق میں پیش کی گئی قرارداد کو انتہا پسندی قرار دیا تھا۔ مجرموں کو حاصل اس ہمدردی کے باعث اس بل کی منظوری کے بعد بھی زیادتی کے واقعات کم ہونے کے بجائے بڑھے ہیں۔