بلوچستان میں منشیات کے خلاف خواتین کی مہم

474

بلوچستان کے گاؤں میں انسداد منشیات مہم: بلیدہ گاؤں کی خواتین نے اپنے علاقے کو منشیات سے کیسے محفوظ بنایا؟کچھ عرصہ پہلے تک صوبہ بلوچستان کے بہت سے دیگر سرحدی علاقوں کی طرح ضلع کیچ کے ایک چھوٹے سے گاؤں بلیدہ میں بھی منشیات باآسانی اور ارزاں نرخوں پر دستیاب تھی۔
اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے سرحدی اضلاع افغانستان میں تیار کی جانے والی منشیات کی اسمگلنگ کے بین الاقوامی روٹ کا حصہ ہیں اور اسی لیے ان علاقوں میں منشیات کی وبا کا عام ہونا اور کئی خاندانوں کا اس وبا کے ہاتھوں تباہ ہونا کوئی راز کی بات نہیں ہے۔
تاہم انسداد منشیات کے حوالے سے بلیدہ گاؤں میں حال ہی میں سماجی اور معاشرتی سطح پر ایک بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ اب نا تو یہاں سرعام منشیات فروخت کرنے والوں کے اڈے ہیں، نا ہی نوجوان نسل کو منشیات باآسانی اور ارزاں نرخوں میں دستیاب ہے اور تو اور وہ افراد جو نشے کی لت میں مبتلا ہو چکے تھے اُن کی صحت کی بحالی کا کام گاؤں ہی کی سماجی تنظیمیں اور سرکاری سطح پر کیا جا رہا ہے۔
بلیدہ گاؤں میں آنے والی اس اہم سماجی تبدیلی کی شروعات کا سہرا اس علاقے کی خواتین کے سر ہے جن کے گھروں اور خاندان کے بیشتر مرد حضرات منشیات کی لت کے شکار ہو چکے تھےیہ وہ خواتین ہیں جن کی زندگی صرف اس لیے کٹھن بنی کیونکہ ان کے بیٹے، بھائی، شوہر منشیات کے عادی تھے مگر پھر انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس گھمبیر صورتحال میں خاموش تماشائی کا کردار ادا نہیں کریں گی۔
ان خواتین کے گروہ میں شامل دو خواتین سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ کن حالات کے تحت انہوںنے اپنے علاقے میں انسداد منشیات کی مہم کا آغاز کیا اور مقامی لوگوں اور انتظامیہ کو اس میں شامل کیا یہ وہ خواتین ہیں جن کی زندگی صرف اس لیے کٹھن بنی کیونکہ ان کے بیٹے، بھائی، شوہر منشیات کے عادی تھے مگر پھر انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس گھمبیر صورتحال میں خاموش تماشائی کا کردار ادا نہیں کریں گی۔
ا بلیدہ ہی کی ایک رہائشی رضیہ بی بی بتاتی ہیں کہ جب نشے کے عادی اُن کے خاوند اور بیٹے نے ان کی بیٹی کی ضرورت کے 300 روپے بھی چھین لیے تو اُسی وقت انھوں نے فیصلہ کیا کہ اب ان کے علاقے میں یا تو منشیات فروش ہوں گے یا وہ۔
انھوں نے برقعہ پہنا اور ہر اُس گھر گئیں جہاں پر نشے کے عادی مرد موجود تھے اور متاثرہ خواتین سے بات چیت کی۔ اور پھر کچھ عرصے بعد ان متاثرہ خواتین نے مل کر اپنے گاؤں میں موجود منشیات کے تمام اڈے یا تو بند کروائے یا انھیں تباہ کر دیا۔
رضیہ بی بی بتاتی ہیں کہ ان کی شادی 35 برس قبل ہوئی تھی اور ان کے چھ بچے ہیں جن میں چار بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ ’دس سال پہلے تک سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا، خاوند محنت مزدوری کرتا تھا اور جب بڑا بیٹا کچھ بڑا ہوا تو وہ بھی اپنے والد کے ساتھ مزدوری پر جانے لگا۔‘
’مگر دس سال قبل میرے خاوند اور کچھ عرصے بعد دو بڑے بیٹے، جن میں ایک شادی شدہ اور دو بچوں کا باپ بھی ہے، نشے کی لت میں مبتلا ہو گئے۔ یہی وہ وقت تھا جب میری میری زندگی کے کٹھن ترین دن شروع ہوئے۔ اُس وقت میرے بچے چھوٹے تھے اور سب سے چھوٹی بیٹی پہلی کلاس میں پڑھتی تھی، اب وہ فرسٹ ایئر کی طالبہ ہے۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ خاوند کے مزدوری چھوڑنے اور نشہ شروع کرنے کے بعد ابتدا میں انھوں نے سلائی کڑھائی اور محنت مزدوری شروع کر دی مگر مسئلہ یہ تھا کہ ان کی کمائی کا بڑا حصہ بھی خاوند اور بیٹا نشے کے لیے چھین لیتے تھے جس کے باعث گزارہ کرنا مشکل تر ہو گیا تھا۔ دنیا کا تو مجھے نہیں پتا مگر ہمارے بلوچ معاشرے میں اگر خاوند، والد یا بیٹا گمراہ ہو جائیں یا منشیات کے عادی بن جائیں تو اس کا سب سے بڑا خمیازہ گھر کی خواتین کو بھگتنا پڑتا ہے۔ میرے معاملے میں بھی یہ ہی ہو رہا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ایک طرف وہ بچوں کو پال رہی تھی تو دوسری طرف نشے کے پیسے پورے کرنے کے لیے خاوند کے تشدد کا نشانہ بنتی تھیں۔
’ایک دن جب خاوند اور بیٹے نے کئی دن کی محنت سے جمع کیے ہوئے بیٹی کے ضرورت کے پیسے بھی مجھ سے چھین لیے تو یہ وہ لمحہ تھا جب میں نے فیصلہ کیا کہ اب اس طرح زندگی نہیں گزر سکتی۔‘
’میں نے سب خواتین، جن کے گھر کے مرد نشہ کرتے تھے، کو کہا کہ اب وقت آ چکا ہے کہ وہ اپنے بیٹوں، والد اور خاوندوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوں۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ اس مہم میں ان کی بیٹی اور ایک بیٹے نے ان کا بہت ساتھ دیا تھا، وہ بینر اور چارٹ بناتے تھے۔
رضیہ بی بی نے بتایا کہ’مجھے اچھے سے یاد ہے کہ جب ہم خواتین باہر نکلیں تو علاقے کے مرد حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ کچھ نے روکنے کی کوشش کی ۔جلوس کے بعد علاقے کے چند نوجوان خود ہی اکھٹے ہوئے اور مختلف اجلاس منعقد ہوئے جن میں حکمت عملی طے کی گئی۔
یہ (بلیدہ) کوئی بڑا علاقہ نہیں ہے۔ سب لوگ ایک دوسرے اور منشیات کے کاروبار سے منسلک لوگوں کو اچھے سے جانتے ہیں۔ ہم لوگ جرگے کی شکل میں اُن کے گھروں میں گئے۔ ان لوگوں سے درخواست کی کہ وہ اس کاروبار کو چھوڑ دیں۔ کئی ایک نے رضاکارانہ طور پر کاروبار ختم کر دیا جبکہ کچھ کو اُن کے گھر کی خواتین نے یہ کام کرنے سے روکا دیا
اِس مہم کا آغاز علاقے کی مقامی خواتین نے کیا تھا جس کے بعد اب یہ عوامی مہم بن چکی ہے جس کی مدد سے مقامی طور پر کسی حد تک منشیات کے استعمال اور دستیابی پر کنٹرول میں مدد ملی ہے۔