کالا جادو یا ایمان کا سودا

1685

جادو وہی جو سر چڑھ کر بولے مگر کالا جادو تو صریحاً انتقامی رویہ ہے۔
ایسے بابائوں کے پاس ایک دنیا آباد ہے جو اپنے آپ کو سفلی و کالے علم کی کاٹ و پلٹ کے بے تاج بادشاہ کہلاتے ہیں۔ آپ کی کاروباری بندش ہو ، شوہر کو راہ راست پر لانا ہو ، مقدمہ جیتنا ہو ، پسند کی شادی کرنی ہو یا محبوب کو قدموں میں لا بٹھانا ہو ، انعامی چانس لینا ہو یا اولاد کی نا فرمانی دور کرنی ہو۔یہ بابا لوگ بڑے بڑے دعوے کر کے سادہ لوح عوام کو گھیرے رہتے ہیں۔
کسی زمانے میں بنگال کا جادو بہت مشہور تھا وہاں بڑے بڑے عامل ، جادو گر عملیات کیا کرتے تھے۔ ان کے زیر اثر موکل و جنات پریاں ، ہمزاد اور بھیروکھر پال ہوا کرتے تھے اور ان کا دعویٰ تھا کہ یہ ان کے خاندانی بزرگوں کے مطیع ہیں اور ان کا کیا ہوا عمل صرف ایک رات میں اثر دکھاتا ہے۔ جنوبی پنجاب( پاکستان) کے اندرونی علاقوں میں ایسے گروہوں کی بڑی تعداد موجود ہے اور تو اور بعض صرف ایک فون کال پر مسئلے کا حل کروانے کی خدمات پیش کرتے ہیں۔ ان کے اشتہارات اخبارات میں نمایاں جگہوں پر شائع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کاروباری نقطۂ نظر سے یہ کامیاب تجارت کر رہے ہیں اور اپنی سرمایہ کاری میں بھی بے انتہا دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں۔ لیکن انسان ان جادو گروں پر کیوں انحصار کرتا ہے؟ وہ کیوں کامیابی کا مختصر ترین راستہ اختیار کرتا ہے۔ اس صورت میں جبکہ جادو حرام بھی ہے اور یہ رضائے الٰہی سے اختلاف رائے کابین ثبوت بھی ہے اور اس سے ایمان متزلزل ہی نہیں باطل ہو جانے کے مترادف بھی ہے۔
حیرت اور افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ نچلے طبقے کے نا خواندہ اور غریب افراد کے ساتھ ساتھ امراء اور تعلیم یافتہ افراد کا وسیع حلقہ ان جادو گروہوں کے زیرِدام آ چکا ہے اور خاص کر خواتین ان گروہوں کا بڑا ٹارگٹ ہیں۔
انسانی فطرت ہے کہ وہ زندگی کے بنیادی تقاضوں کے تحت خوشی اور اطمینان بھری زندگی کا متلاشی ہوتا ہے اور اس کے حصول کے لیے اپنی تخلیقاتی اور حسن خوابوں سے مزین زندگی میں مگن رہنا چاہتا ہے وہ خوشی میں بھی سہارے ڈھونڈتا ہے اور آزمائش مصیبت پڑنے پر بھی دلجوئی کے لیے کسی آغوش یا کندھے کی خواہش رکھتا ہے۔ بہت سے افراد طبقاتی امتیازات سے قطع نظر مذہبی راست بازی یا ضابطوں پر غور نہیں کرتے۔ اگر ہم اللہ تبارک وتعالیٰ کی طاقت کو دل سے تسلیم کر لیں اور دعا کرنے کا ڈھنگ سیکھ لیں تو یہ ہی بنیادی عمل ہے۔ ہمارے پاس اللہ کی کتاب ہے صد شکر کہ ہم مسلمان ہیں اہلِ کتاب ہیں اور اس کتاب قرآن مجید میں علم و حکمت کا کونسا ایسا خزانہ ہے جوموجود نہیں کس مسئلے کا حل موجود نہیں،کونسا ایسا وظیفہ موجود نہیں اللہ تعالیٰ نے پانچ وقتوں کی نماز کے اہتمام ہی میں انسانوں کے جسمانی و اعصابی مسائل کا حل پیش کر دیا ہے۔ پھر کسی جن یا موکل کی اضافی خدمات بشرطیکہ خلوص پر مبنی نہ ہو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ انسانی ہاتھوں کی لکیریں تقدیر کا راز چھپائے خاموش تماشائی بنی آپ کے ہاتھوں پر موجود ہیں اور ان سے واقفیت حاصل کرنا انسان کا فطری تقاضا ہے۔ زندگی کیا رخ اختیار کر سکتی ہے؟ نشیب و فراز اسے کہاں لے جا سکتے ہیں؟ صحت کیسی رہے گی؟بچپن، جوانی اور بڑھاپا کیسا رخ اختیار کر سکتا ہے؟ نشیب و فراز اسے کہاں لے جا سکتے ہیں؟ صحت کیسی رہے گی؟بچپن جوانی اور بڑھاپا کیسا تھا کیسا گزرے گا؟ رزق اور روز گار کے مواقع کیسے رہیں گے؟ پامسٹری ایسا سائنسی علم ہے جو ان سوالات کا جواب دیتا ہے۔ یہ جادو ہر گز نہیں ہے اسی طرح علمِ نجوم سیاروں کے اچھے اور برے اثرات جاننے کا علم ہے جو آپ کی زندگی کے پوشیدہ نفسیاتی موڑوں سے واقف ہے اور تھوڑی سی کوشش سے آپ سب پر حاوی ہو سکتے ہیں۔ مثلاً کوئی سعد پتھر پہن لینا یا رہائش کے لیے موزوں مقام تلاش کر لینا پر سکون کر دیتا ہے
جو اکثر مذموم مقاصد کے لیے ایک دوسرے پر کروایا جاتا ہے۔ بد عملی یا سفلی علم کرنے والے کے جھانسے میں آ کر جائیدادیں لٹا دینا، خاندان بکھر جانا اور خود ذہنی مریض ہو کر بستر سے لگ جانا ہو سکتا ہے آپ نے قصے کہانیوں میں سنا ہو مگر ایسا ہوتا ہے اور یہ قطعی حساس موضوع ہے عموماً شہروں میں اسے نظر انداز کیا جاتا ہے کہ یہ دیہاتیوں کا مسئلہ ہے یا نا خواندہ اور سادہ لوح افراد ایسے مسائل کا شکار ہوتے ہیں مگر آپ کو حیرت ہو گی کہ مغربی دنیا میں بھی ایسی وہمیوں کی کمی نہیں جنہیںمسلسل ناکامیوں کا سامنا کرتے کرتے یہ یقین ہو چکا ہے کہ وہ بندش کا شکار ہیں اور کسی حاسد نے ان پر جادو کر دیا ہے اور وہ انتقامی طور پر اپنے ممکنہ حاسد اور دشمن کو نقصان پہنچانے کی غرض سے جواباً کالا علم کروانا اپنا حق سمجھتے ہیں بظاہر اپنے سکون اور خوشی کے لیے وہ کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے۔
نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے وہمی افراد غلط طرز فکر اپنا کر گمراہ کن ، اور بے بنیاد خوف کا شکار ہو جاتے ہیں اور انہیں اپنی خراب ذہنی صحت کی طرف دھیان ہی نہیں جاتا اور الٹا اپنے دشمن کو زیر کرنے کے خواب دیکھتے ہیں اور دوسروں کو تکلیف پہنچاتے ہیں۔
قدیم تہذیبوں کے پر اسرار معالج اپنے طریقوں کو غیبی عطیہ کہا کرتے تھے وہ اور ان کے مریض سمجھتے تھے کہ یہ شفا یابی روحانی طاقت کی بدولت ہے۔ ذہنی طور پر پسماندہ اقوام میں جنتر منتر ماننے والوں کی اکثریت ہوا کرتی ہے۔ مگر اس حقیقت سے علمِ نفسیات نے پردہ اٹھا دیا ہے۔ نفسیات ہمیں بتاتی ہے کہ مریض کو آرام ملنے میں حقیقی ہاتھ اسی ذہنیت کیفیت کا ہوتا ہے جو علاج کے وقت مریض کے ذہن میں پیدا ہوتی ہے۔ اس کا مطلب تویہ ہوا کہ جسمانی صحت کی بحالی جادو ٹونے سے ممکن نہیں البتہ تباہی ، بربادی اور نقصان پہنچانے کے لیے اس کا استعمال ہوتا ہے۔ کسی شخص کے دل میں اعتقاد پیدا کر کے اپنے مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں چنانچہ یہ مشتہرین متاثرہ افراد سے جادو ٹونے کے لیے کچھ اشیاء طلب کرتے ہیں اور بصورت دیگر بھاری رقم طلب کرتے ہیں اور ایک بھیانک سچائی تو یہ ہے کہ خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات بھی سننے میں آتے ہیں جو ان کی کرامات پر اندھا یقین کر لیتی ہیں اور دلدل میں دھنستی چلی جاتی ہیں ، ذرا سوچئے کہ کسی گھرانے کے افراد اگر ایسے مسائل کا شکار ہوتے چلے جائیں تو اس خاندان کا شیرازہ بکھرنے سے کیسے بچ سکتا ہے؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ اللہ سے لو لگائی جائے اسی سے خیر کی طلب کریں اور پریشانیاں بانٹ لیں۔ نا گوار جذبات جن میں تشویش سر فہرست ہے اسے زندگی سے نکال دیں۔ فطری تشویش ہمت و جرأت پیدا کرتی ہے اور ہم خطرے کا سامنا آسانی سے کر لیتے ہیں مگر تخریبی تشویش ذہنی کردار پر تباہ کن اثر ڈالتی ہے۔ اس کے ذریعے پیدا ہونے والے جذباتی تنائو کا خاتمہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مسلسل ناکامی کی اصل وجہ کچھ اور بھی ہو سکتی ہے صرف دشمنوں کا جادو منتر ہی نہیں۔ آپ اصل سبب معلوم کریں اور ایسے کسی پر کشش یا لچھے دار تحریری دعوے کے سحر میںمبتلا نہ ہوں یہ اعتماد بحال کرنے کی صرف اشتہاری مہم ہے لیکن اگر ایک بار آپ کسی ساحر کسی عامل کے ہتھے چڑھ گئے تو نہ صرف خود نفسیاتی مریض بن کر رہ جائیں بلکہ آپ کا پورا کنبہ بھی آزمائش میں مبتلا ہو جائے گا۔ پھر پتا نہیں یہ جادو سر سے کب اترے اور مصیبتوں کا دورانیہ کتنا طویل ہو!