بھارت میں مسلمانوں کی نسل کُشی کا خدشہ

557

بھارتی مسلمان قیام پاکستان کے بعد سے ہندو تعصب کا شکار ہیں اور ان کی نسل کُشی کی کوشش جاری ہے۔ حال ہی میں عالمی سطح پر نسل کشی سے متعلق تحقیق کرنے والے ماہرین نے بھارت میں موجودہ حکومت کی سرپرستی میں 20 کروڑ مسلمانوں کی نسل کشی کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔ سربراہ جینو سائیڈ واچ ڈاکٹر گریگوری اسٹینٹن نے کہا کہ بھارت میں انسانیت کے خلاف منظم جرائم جاری ہیں۔ آسام اور کشمیر میں مسلمانوں پر مظالم نسل کشی سے پہلے کا مرحلہ ہے، اگلا مرحلہ قتل ہے، جس کو ہم نسل کشی کہتے ہیں۔ بابری مسجد کو گرانا اور مندر تعمیر کرنا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ حقوق انسانی کی ماہر ٹینا رمریز نے کہا کہ مسلمانوں پر ظلم ان کی معاشی صورتِ حال کو بدتر کررہا ہے، بھارت میں صورت حال اب بھی سنگین ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی مسلمان مستقل خوف اور عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ حقوقِ انسانی کی ماہر تیستا سیتلواڈ نے کہا کہ مسلمانوں پر ظلم سے سماجی اور اقتصادی حالت خراب ہورہی ہے۔
بھارتی ریاست کی مسلم دشمنی اور مسلمانوں کے خلاف بدترین سلوک پر اس سے قبل بھی وقتاً فوقتاً اُن حلقوں کی طرف سے بھی آواز اٹھتی رہی ہے جو مسلمان نہیں ہیں۔ ان ہی میں معروف بھارتی مصنفہ اور سیاسی کارکن ارون دھتی رائے بھی ہیں جنہوں نے اپریل میں اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ بھارت میں اس وقت صورت حال نسل کشی کی طرف جا رہی ہے، کیونکہ حکومت کا ایجنڈا یہی رہا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ایک طوفان ہے، دہلی میں قتلِ عام ہوا، اور یہ قتلِ عام اس بات پر ہوا کہ لوگ شہریت سے متعلق ایک مسلم مخالف قانون کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’بابری مسجد شہید کرکے وہاں مندر کی تعمیر نسل کشی کے لیے ثقافتی شناخت مٹانے کی جانب اہم قدم ہے‘‘۔ یہ بھی واضح رہے کہ اس قتلِ عام کے دوران 9مسلمانوں کو صرف جے شری رام نہ کہنے پر جلادیا گیا تھا۔ بھارت میں انسانیت کے خلاف جرائم منظم انداز میں جاری ہیں، وہاں کے مسلمانوں کی سماجی زندگی ختم کردی گئی ہے، ان کی معاشی زندگی ختم کردی گئی ہے، زبان چھینی جارہی ہےí ان کی تعلیمی زندگی تباہ کردی گئی  ہے، ان کی ثقافت نشانے پر ہے۔ وہاں کے موجودہ حالات ایک ایسا المیہ ہے جو بہت بڑا اور حقیقی تو ہے لیکن نیا نہیں ہے۔ بھارت کے وزیراعظم مودی کی اصل جماعت آر ایس ایس برسوں سے یہ بات کہہ رہی ہے کہ بھارت کو ایک ہندو ریاست ہونا چاہیے۔ اس کے نظریہ ساز بھارتی مسلمانوں کو ماضی کے جرمنی میں یہودیوں سے تشبیہ دے چکے ہیں۔ مسلمانوں سے نفرت اور انہیں ہندو بنانے کی تحریک ہندوستان میں تاریخی طور پر اُس وقت سے موجود ہے جب سوامی شردھانند نے 1923ء میں بھارتیہ ہندو شدھی مہاسبھا (Indian Hindu Purification Council)کی بنیاد ڈالی، اس کا بنیادی ایجنڈا مسلمانوں کو ہندو بنانے کی کوشش تھا۔ اور اب مودی حکومت ایک پرانے منصوبے کو آگے بڑھا رہی ہے اور وہ یہ ہے کہ دلتوں کو پوری طرح ہندو مذہب میں ضم کرلیا جائے اور ان کی جگہ مسلمانوں کو اچھوت بنادیا جائے، جبکہ بھارت پر مسلمانوں نے ایک ہزار سال حکومت کی ہے لیکن ایک ہزار برسوں میں انہوں نے کبھی ہندوئوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کی، وہ چاہتے تو ایسا کرسکتے تھے اور انہیں جبراً ہندو بنا سکتے تھے، لیکن اُن کے مذہب کی یہ تعلیم نہیں تھی اور انہوں نے یہ نہیں کیا، یہاں تک کہ ان کی معاشی اور سماجی زندگی کو بھی کبھی سبوتاژ نہیں کیا۔ لیکن سیکولر کہلانے والے ملک بھارت میں صورت حال مختلف ہے، مسلمان جلائے جارہے ہیں، دربدر کیے جارہے ہیں۔ گجرات، مہاراشٹر، اور کئی دوسری ریاستوں میں مسلمانوں کی آبادیاں ختم ہورہی ہیں اور نئے علاقوں، بستیوں اور بازاروں میں مختلف بہانوں سے مسلمانوں کو دیوار سے لگایاجا رہا ہے۔ مسلمانوں کی بستیاں خطرناک اور المناک صورت حال سے دوچار ہیں جہاں نہ اسکول ہیں، نہ اچھے کالج۔ اچھی سڑکیں اور جدید سہولتیں بھی ناپید ہیں۔ یہ بات طے ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کو قیام پاکستان اور اس جدوجہد میں ان کی کوششوں اور قربانیوں کی سزا دی جارہی ہے۔ یہ ہماری تاریخ کا حصہ ہے کہ جب نومولود پاکستان کے پاس خزانہ نہیں تھا اور پاکستان کے حصے کے جو پچھتر کروڑ روپے تھے، بھارتی حکومت نے وہ دینے سے انکار کردیا تھا، ایسے میں کراچی، احمد آباد، ممبئی اور مدراس کے مسلمان سیٹھوں اور زمینداروں نے تقریباً ستّر کروڑ روپے پاکستان کے حوالے بلا کچھ سوچے سمجھے کردیے تھے۔ اس صورت حال نے یہ بات بھی ثابت کی ہے کہ بھارت ہمیشہ سے ایک ہندو ریاست تھا اور اقبال کا دوقومی نظریہ اور قائداعظم محمد علی جناح کا پاکستان بنانا درست تھا، اور ابوالکلام آزاد کا نظریہ غیر حقیقی صورتِ حال کا عکاس تھا۔ لیکن یہ بھی ایک روشن حقیقت ہے کہ آج جس ملک میں ہم آزادی کے ساتھ رہ رہے ہیں اس میں بھارت کے مسلمانوں کا اہم کردار ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ اُن کے احسانوں کا بدلہ ہم کس طرح سے دے رہے ہیں؟۔حقیقت یہ ہے کہ ہر طرف بے حسی کی کیفیت ہے، بھارت کے مسلمانوں کی نسل کشی کو روکنے کے لیے انفرادی سطح پر بھی ہم خاموش ہیں اورحکومتی سطح پر بھی مکمل خاموشی ہے۔ حالانکہ قائداعظم نے ابتدا ہی میں کہا تھا کہ: ’’اگر بھارت کے مسلمانوں کو کچھ ہوا تو ہم ہندوستان میں فوجی مداخلت کریں گے‘‘۔ لیکن پاکستان آج فوجی مداخلت کیا کرے گا، وہ بھرپور مذمتی بیان بھی نہیں دے پاتا۔ بھارت سے متعلق ہماری خارجہ پالیسی بھی امریکی اشارے پر چلتی ہے اور امریکا بھارت کے مفادات کے گرد گھومتا ہے۔ حال ہی میں کیا جانے والا بھارت امریکا دفاعی معاہدہ اس کی اہم مثال ہے، اور رواں سال اب تک امریکا نے بھارت کو 20 ارب ڈالر سے زیادہ کا دفاعی ساز و سامان فروخت کیا ہے۔ ہم یہ بھی دیکھ چکے ہیں کہ فروری 2020ء میں دہلی میں جب مسلم کُش فسادات ہوئے اُس وقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دورۂ بھارت کے موقع پر پریس کانفرنس کی تھی لیکن وہ اس معاملے میں خاموش رہے۔ ’’جینو سائیڈ واچ‘‘ کے بانی صدر ڈاکٹر اسٹینٹن کی رپورٹ ایک بار پھر اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ دنیا بھارت کے مسلمانوں کی نسل کشی کی طرف متوجہ ہو، اس پس منظر میں او آئی سی سمیت عالم اسلام کو خوابِ غفلت سے باہر آنا چاہیے، بھارت کے مسلمانوں کی صورت حال کو عالمِ اسلام کے مسئلے کے طور پر دیکھنا چاہیے، بے حسی کے اس کلچر کو ختم کرنا چاہیے۔ عالمی سطح پرسیاسی جماعتوں اور عوام کو اپنی اپنی حکومتوں کو احتجاج کے ذریعے بھارت کے خلاف واضح اور دوٹوک مؤقف اختیار کرنے اور اس مسئلے کو دنیا کے ہر فورم پر زوردار انداز میں اٹھانے پر مجبور کرنا چاہیے۔