وزیر اعظم عمران خان کا دورہ کابل

488

پاکستان اور افغانستان نے باہمی تعاون بڑھانے کے لیے مشترکہ کوششیں تیز کرنے خصوصاً افغانستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے تناظر میں انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے پر اتفاق کیا ہے۔ یہ اتفاق رائے وزیر اعظم عمران خاں کے جمعرات کے روز دورہ کابل کے موقع پر سامنے آیا۔ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد عمران خاں کا یہ پہلا دورۂ افغانستان تھا اس ایک روزہ دورہ کی دعوت افغان صدر اشرف غنی کی طرف سے دی گئی تھی دونوں رہنمائوں نے باہمی ملاقات کے بعد افغان صدارتی محل میں مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران افغانستان میں قیام امن اور استحکام کے لیے فوری اور موثر اقدامات کے عزم کا اعادہ کیا۔ وزیر اعظم عمران خاں نے قطر امن معاہدہ کے باوجود افغانستان میں تشدد میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس تشدد کے خاتمے کے لیے ہر ممکن تعاون اور جنگ بندی کے سلسلے میں اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا اور کہا کہ ہم اعتماد سازی کے لیے افغان صدر کی توقعات پر پورا اتریں گے تاہم انہوں نے استفسار کیا کہ وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ پاکستان افغانستان کی کس طرح مدد کر سکتا ہے؟ وزیر اعظم نے وضاحت کی کہ افغانستان میں امن کی زبردست خواہش رکھنے والا پاکستان دنیا کا سب سے پہلا ملک ہے کیونکہ افغانستان میں امن ہمارے اپنے مفاد میں ہے، پاکستان خصوصاً اس کے قبائلی علاقے جو اب ضم ہو کر خیبر پختونخوا کا حصہ بن چکے ہیں، بھی دہشت گردی سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں، افغانستان میں امن اور روابط کے فروغ کے نتیجے میں پاکستان کے ملحقہ علاقوں میں بھی ترقی و استحکام کو فروغ ملے گا اور معاشی سرگرمیوں سے سرحد کے دونوں جانب کے عوام کی زندگیوں میں خوشگوار تبدیلی آئے گی۔ افغانستان، پاکستان کا ہمسایہ اور برادر اسلامی ملک ہے جس کی طویل سرحد پاکستان سے ملتی ہے مگر بدقسمتی سے یہ طویل عرصہ سے بیرونی حملہ آوروں اور بڑی طاقتوں کی آویزش کا مرکز چلا آ رہا ہے تاہم تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ افغان عوام نے کبھی کسی بیرونی حملہ آور کو پناہ دی ہے اور نہ آج تک یہاں کوئی جارح اپنی جارحیت میں فتح یاب ہو سکا ہے، برطانیہ کی تاریخی شکست کے بعد 1979ء میں اپنے وقت کی سپر پاور سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ آور ہو کر تسلط جمانے کی کوشش کی مگر مجاہد صفت افغان باشندوں کی جانب سے اسے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، جس کی تائید و حمایت اگرچہ دنیا بھر کے مسلم ممالک اور سوویت یونین کے مخالف بلاک کی طرف سے کی گئی تاہم بنیادی جدوجہد افغان عوام اور مجاہدین ہی کی تھی جس کے نتیجے میں سوویت یونین دنیا کے نقشے سے محو ہو گیا اور خاصی بڑی تعداد میں محکوم مسلمان ریاستوں کو آزادی بھی نصیب ہوئی۔ 2001ء میں دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ نے نائن الیون کے واقعہ کو جواز بنا کر اپنے نیٹو اور صلیبی حلیفوں کے ہمراہ افغانستان پر چڑھائی کر دی، حملہ آور چالیس ممالک کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے جن کی افواج ہر طرح کے جنگی وسائل سے مالا مال اور جدید ترین اسلحہ اور گولہ بارود سے لیس تھیں جب کہ دوسری جانب اپنے ملک کا دفاع کرنے والے افغان مجاہدین کے پاس جذبہ جہاد اور آزادی کی بے مثال تڑپ کے سوا کچھ نہ تھا، اس جذبے کے ذریعے انہوں نے برطانیہ اور سوویت یونین کو شکست سے دو چار کیا تھا اور اسی جذبہ جہاد نے افغانوں کو بے سروسامانی کے باوجود امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے سامنے سینہ سپر رکھا۔ آخر ان سب کو بھی افغان عوام کے جذبۂ جہاد و حریت کے سامنے ہتھیار ڈالنا پڑے اور امریکہ اپنے زخم چاٹتے ہوئے اس سال فروری میں قطر مذاکرات کے نتیجے میں ذلت و رسوائی سمیٹ کر افغان طالبان سے امن معاہدہ پر مجبور ہوا۔ اس معاہدہ کو تکمیل تک پہنچانے میں پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا اور اس کے بعد پاکستان کی مسلسل یہ کوشش رہی ہے کہ معاہدہ میں طے پانے والے معاملات عملی شکل اختیار کر سکیں۔وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا دورۂ کابل اس پس منظر میں بہت اہمیت کا حامل ہے، ان کے اس دورہ سے قبل افغان مجاہد قیادت کے ممتاز ترین رہنما افغانستان کے سابق وزیر اعظم اور حزب اسلامی کے سربراہ انجینئر گلبدین حکمت یار پاکستان تشریف لائے تھے ان کے اس دورہ کے دوران دونوں ملکوں کے مابین تعاون کے ضمن میں قابل قدر پیش رفت ہوئی ان کے علاوہ افغان مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبدا للہ ، افغان ویلوسی جرگہ کے سپیکر رحمن رحمانی اور دیگر اعلیٰ سطحی افغان وفود نے بھی پاکستان کے دورے کیے جن کے دوران ہونے والی تفصیلی و سیر حاصل ملاقاتوں میں دونوں ملکوں کے مابین قربت اور مفاہمت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے ان حالات میں توقع کی جا سکتی ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین اعلیٰ ترین سطح کا حالیہ رابطہ نتیجہ خیز ہو گا اور اس کے مثبت اثرات جلد سامنے آئیں گے، البتہ وزیر اعظم عمران خاں اور صدر اشرف غنی کی مشترکہ پریس کانفرنس اور دورہ سے متعلق جاری کئے گئے مشترکہ اعلامیہ میں اس بات کی کمی شدت سے محسوس کی گئی کہ ان میں پاکستان کے خلاف افغانستان کی سرحد کی جانب سے کی جانے والی تخریب کاری اور دہشت گردی کی وارداتوں کا تذکرہ تک موجود نہیں جن کا بڑا ذمہ دار پاکستان کا ازلی دشمن بھارت ہے جسے افغانستان میں جارحیت کے دوران امریکہ نے رسائی مہیا کی تاکہ اسے خطے میں تھانیدار کا کردار سونپا جا سکے چنانچہ افغانستان میں سفارتخانوں کے نام پر قائم بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے دفاتر تخریب کار عناصر کو اسلحہ، تربیت اور مالی وسائل فراہم کرتے ہیں اور پاکستان کے خلاف دہشت گردی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ پاکستان اور افغانستان کے مابین بہتر ہوتے ہوئے تعلقات کا لازمی تقاضا ہے کہ یہ عمل یک طرفہ نہ رہے بلکہ افغان حکمرانوں کو افغانستان کی جانب سے پاکستان کو در پیش تکلیف دہ صورت حال کے خاتمہ اور بھارتی ایجنٹوں کو لگام دینے کے لیے موثر اقدامات پر بھی آمادہ کیا جائے…!!!حال ہی میں پاکستان کے وزیر خارجہ اور پاک فوج کے ترجمان نے پاکستان میں بھارتی دہشت گردی کے ثبوتوں کا اعلان کیا تھا۔ وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ میں ڈوزیئر لے کر اقوام متحدہ اور دنیا بھر کے ممالک کو یہ ثبوت دکھانے جائوں گا۔ اگر وزیر خارجہ وزیراعظم عمران خان کے ساتھ یہ ڈوزیئر کر دیتے تو اچھا ہوتا تاکہ وزیراعظم اشرف غنی کو ثبوت کے ساتھ یہ بتا سکتے کہ افغان سرحد کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کون کر رہا ہے۔ پاکستان افغانستان میں امن ضرور چاہتا ہے لیکن اس کی قیمت پاکستان میں بدامنی اور دہشت گردی ہرگز نہیں ہونی چاہییں۔ پاکستان کے لیے پاکستان کا امن سب سے سے اہم ہے۔پاکستانی حکمرانوں کا یہ رویہ عجیب ہے کہ ملک میں ہوتے ہوئے جو باتیں کرتے ہیں وہ بیرون ملک جا کر ان باتوں کو ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ وزیراعظم عمران خان اس سے قبل متحدہ کے بانی الطاف حسین کے خلاف ثبوتوں کے سوٹ کیس برطانیہ لے جانے کی باتیں کرتے رہے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اب وزیر خارجہ اور فوج کے ترجمان نے بھارت کے خلاف ثبوت دینے کی بات کی لیکن افغانستان کے دورے میں یہ ثبوت پہنچائے گئے یا نہیں اس کا قوم کو کوئی علم نہیں۔