چکاچوند

245

طیبہ سلیم
بوا! مجھے تو کوئی دولت مند شخص دکھاؤجو میری بیٹی کو شہزادی کی طرح رکھے ۔
بیگم ندرت نے نہایت افسوس لہجے میں کہا خیرالنسا کو جو کئی دنوں سے ندرت کے گھر کے چکر لگا رہی تھی لیکن انکو کوئی رشتہ اپنی بیٹی کے لیے پسند ہی نہیں آتا تھا کبھی کہتی کہ لڑکی کی تنخواہ کم ہے کبھی کہتی لڑکی کی بڑی فیملی ہے کبھی کہتی لڑکے کا اپنا گھر نہیں ہے آج بھی معمولی تنخواہ کا کہ کر ٹھکرا دیا خیر النسا نے بے دلی سے اپنی لائی ہوئی تصویریں سمیٹیں اور یہ کہہ کر اٹھی کہ ندرت بیگم اپنی چادر دیکھ کر پاوں پھیلائو۔
ندرت بیگم غصے سے خیرالنسا کودیکھتی رہ گئی ۔ندرت بیگم کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی دونوں بیٹے نہایت قابل اور محنتی تھےبیٹی ابھی چھوٹی تھی لیکن ندرت بیگم کو بیٹوں سے زیادہ بیٹی کی شادی کی جلدی تھی کیونکہ ان کے بقول بیٹی کو صحیح عمر میں بیاہ دینا چاہیےندرت بیگم کے شوہر قاسم چونکہ کسی معاملے میں ٹانگ اڑاتے لیکن انہوں نے ماہ نور کی شادی کے سلسلے میں آئے گئے رشتوں کو ریجیکٹ کرنے پر سمجھایا بھی کہ لڑکے کی شرافت کو اہمیت دو دولت کونہیں لیکن ندرت بیگم کو یہ بات سمجھ نہیں آتی تھی وہ لڑکے کو دولت کے ترازو میں تولنے لگ جاتی تھی ۔اللہ اللہ کر کے ان کی من پسند رشتہ آہی گیا نعمان اپنے ماں باپ کا اکلوتا چشم چراغ تھا لیکن تھوڑا بگڑا ہوا تھا غصے میں آگ بگولا ہو جاتا تھا اکلوتا اور امیر ہونے کی وجہ سے ہر خواہش پوری ہو جاتی تھی ماں باپ نے اس کی آوارہ گردی کو لگام ڈالنے کے لیے شادی کرنے کا فیصلہ کیا اور لڑکی بھی ایسے خاندان سے لانے کا فیصلہ کیا جو کہ ان سے دب سکے چنانچہ خیرالنساء نے نعمان کی والدہ(شمائلہ بیگم )کو ندرت سے ملوانے کا پروگرام بنالیا ندرت کے تو اس رشتے کو دیکھ کر زمین میں پاؤں ہی نہیں ٹک رے تھے جیسے ان کو قارون کا خزانہ مل گیا ہو وہ تواپنے سب رشتے داروں کو فون کرکے اپنی خوشی بتاتی نہ تھکتی تھی ۔
دو تین ماہ کے اندر شادی ہوگئی ماہ نور رخصت ہو کر اپنے سسرال چلی گی۔ نئے دنوں میں سب بہت خوبصورت تھا ماہ نور کی بہت آؤ بھگت ہوتی تھی ارمان بھی اس کا بہت خیال رکھتا تھا لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا تھا نعمان اپنے رنگ ڈھنگ دکھانے لگا راتوں کو دیر تک گھر نہیں آتا اگر ماہ نور پوچھتی تو اسے مارنے پیٹنے لگ جاتا۔ماہ نور نے کئی دفعہ نعمان سے دیر سے آنےکے بارے میں پوچھا تو نعمان نے سیدھا سا جواب دے دیا کہ میں تو ایسا ہی ہوں اگر تمہیں کوئی اعتراض ہے تو تم اپنی امی کے گھر چلی جاؤ ماہ نور نے اسے پیار سے بھی سمجھایا کہ اب آپ کی شادی ہوگئی ہے آپ میری خاطر بدل جائیں تو وہ کہتا کہ شادی صرف میں نے اپنے ماں باپ کی خوشی کے لیے کی ہے میں کسی کی وجہ سے نہیں بدلوں گا ماہ نور اپنے ساس سسر سے بھی بات کی تو انہوں نے ٹکے کاسا جواب دے دیا کہ یہ تمھارے اور تمھارے شوہر کا معاملہ ہے تم اس کو سدھارو تمہیں اس لیے تو لائے ہیں ماہ نور سوچنے لگیں جن کو ماں باپ نہیں سدھار سکے ان کو میں کیا سدھاروں گی۔وقت کے ساتھ ساتھ ماہ نور نے نعمان کی عادتوں سے سمجھوتہ کر لیا تھا لیکن اپنی ماں کو دل ہی دل میں ملامت کرتی تھی کہ ماں میں اتنی دولت کا کیا کروں جب شریک سفر ہی اخلاقی لحاظ سے گرا ہوا ہے کانٹوں بھری زندگی ا یسے کٹھور انسان کے ساتھ کیسے گزاروں گی ماہ نور نے اپنے آپ کو عبادت میں لگا دیا تھا اللہ سے دعائیں کرتی تھی قرآن ترجمہ سے پڑھنے لگی ۔ اپنی قسمت پر کڑھنے کے بجائے اپنے آپ کو دین اسلام کی تعلیم سیکھنےمیں لگا دیا نیٹ کے ذریعہ آن لائن کلاس لینے لگی ندرت بیگم اسے کئی دنوں سے فون کر کے گھر پر بلا رہی تھی بیٹے کا رشتہ دیکھنے کے لیے کہیں جانا تھا وہ کئی دنوں سے ٹال رہی تھی آخر بھائی خود اسے لینے آئے اسے چاروناچار جانا پڑا ور نہ وہ اپنی ماں سے خفا تھی بھائی کو منع بھی نہیں کر سکتی تھی نزہت بیگم بیٹی کو دیکھ کر کھل گئی ماہ نور کے ٹھاٹ باٹ دیکھ کر اس کی اس کی بلائیں لیں میں لگی
ماہ نور اپنی ماں کی نظریں بھانپ گئی وہ غصے سے کمرے میں گئی اور ایک ایک کرکے تمام پورے زیوراپنی ماں کے آگے ڈھیر کردیے اور کہا مما آپ کو یہ سب چیزیں چاہیے تھی یہ لے لیں اب آپ خوش ہیں آپ بہت مالدار ہوگئی ہیں ندرت بیگم بیٹی کا یہ روپ دیکھ کر حیران اور پریشان ہوگئی کیا ہوا نور سب ٹھیک تو ہے ندرت نے پریشان ہوتے ہوئے کہا امی آخر آپ کو نعمان میں کیا نظر آیا جو آپ نے اس سے میری شادی کر دی نہ اس میں اخلاقیات ہے نہ ہی اس کا کوئی کریکٹر ہے آخر آپ نے میرے ساتھ کتنی بڑی دشمنی کیوں کی میں نے آپ کا کیا بگاڑا تھا ماہ نور نے روتے ہوئے کہا کیا کہہ رہی ہو مانور وہ تو بہت دولت مند ہے سلجھا ہوا بچہ ہے امی کیا کسی انسان کو پرکھنے کے لیے میعار دولت ہی ہوتا ہے آج میں سونے سے لدی ہوئی ہو ںلیکن مجھے شوہر کی طرف سے کوئی پیار اور عزت نہیں ملی نعمان بری عادتوں میں مبتلا ہے کاش آپ شادی کرنے سے پہلے شرافت کو اہمیت دیتیں امی ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رشتہ منتخب کرنے سے پہلے ان باتوں کو ترجیح دینے کو کہا سب سے پہلے دین و اخلاق کو اہمیت دی پھر خاندان حسب نسب کو پھر شکل و صورت کو اور آخر میں مال کو اہمیت دی لیکن آپ نے مال کو ترجیح دی ،آپ کی بیٹی کس حال میں بیٹھی ہوئی ہے میں اس دولت کا کیا کروں جب میرا شوہر ہی میرے پاس نہیں ۔
ندرت بیگم بیٹی کی یہ حالت دیکھ کر آگے بڑھیں اور اسے سینے سے لگایا اور کہا کہ بیٹی مجھے معاف کردو میری غلطی ہے مجھے شرافت کو اہمیت دینی چاہیے تھی مگر دولت کی چکا چوند نے میری آنکھوں میں پٹی باندھی تھی لیکن اب میں مزید کوئی ایسی غلطی نہیں کروں گی میں اپنے بیٹوں کی شادی کرنے میں دین و اخلاق کواہمیت دونگی سنت رسول کے طریقے پر عمل کروں گی جی امی میں بھی آپ سے یہی کہنا چاہتی تھی اس گھر میں ایسی بہوئیں لائیںجو دین اخلاق ،شرافت میں سب سے اچھی ہو تاکہ اچھی نسل پروان چڑھے جہاں تک میرا معاملہ ہے میں نے اپنا معاملہ اپنے رب پرچھوڑ دیا ہےوہ دلوں کو بدلنے والا ہے میرے شوہر کا بھی دل ایک نہ ایک دن بدل ہی جائے گا ۔ ماہ نور نے پرامید مسکراہٹ سے کہا ندرت بیگم نے بیٹی کو گلے سے لگا لیا