درود شریف اور فکروں سے آزادی

250

خلاصۂ کائنات، فخرِ موجودات، سید المرسلین، خاتم النبیین، احمد مجتبیٰ، محمد مصطفیؐ کا ذکرِمبارک اور آپ کی خدمت میں درود وسلام کا نذرانہ پیش کرنا نہ صرف ہمارا فریضہ، بلکہ عین سعادت ہے۔ اس مبارک عمل کی اس سے بڑھ کر کیا فضیلت ہوگی کہ خود باری تعالیٰ اور معصوم فرشتے بھی آپؐ پر درود بھیجتے ہیں۔ قرآن مجید میں آیا ہے: ’’بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! (تم بھی) پیغمبر پر درود وسلام بھیجتے رہو‘‘۔(الاحزاب: 56)
مقصود اس آیت ِمبارکہ سے یہ ہے کہ رسول اللہؐ کی قدر ومنزلت، عزت اور مرتبت لوگوں کے سامنے واضح ہو جائے، وہ یہ جان لیں کہ خود اللہ سبحانہ وتعالیٰ آپ کا ثنا خواں ہے اور اْس کے فرشتے آپؐ پر درود بھیجتے رہتے ہیں۔ ملأ اعلیٰ کی یہ خبر دے کر اب زمین والوں کو حکم دیا جا رہا ہے کہ تم بھی رسول اللہؐ پر درود و سلام بھیجا کرو، تاکہ عالم ِعلوی اور عالم ِسفلی کے لوگوں کا اس پر اجماع ہو جائے۔ (تفسیر ابن کثیر)
درود شریف ایسی اعلیٰ نیکی ہے کہ اگر نوافل میں صرف اسی کا اہتمام کر لیا جائے تو انسان کے لیے کافی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اْبی بن کعبؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں آپ پر بکثرت درود بھیجتا ہوں، لہٰذا اس کے لیے کتنا وقت مقرر کروں؟ آپؐ نے فرمایا: جتنا چاہو! میں نے عرض کیا: اپنی عبادت کے وقت کا چوتھا حصہ مقرر کرلوں؟ آپؐ نے فرمایا: جتنا چاہو کرلو، لیکن اگر اس سے زیادہ کرو تو بہتر ہے! میں نے عرض کیا: آدھا؟ آپؐ نے فرمایا: جتنا چاہو کر لو، لیکن اس سے بھی زیادہ کرو تو بہتر ہے! میں نے عرض کیا: دو تہائی؟ آپؐ نے فرمایا: جتنا چاہو کر لو، لیکن اگر اس سے بھی زیادہ ہو تو بہتر ہے! میں نے عرض کیا: تو پھر میں اپنے وظیفے کے پورے وقت میں آپ پر درود پڑھا کروں گا! آپؐ نے فرمایا: پھر اس سے تمہاری تمام فکریں دور ہوجائیں گی اور تمہارے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔ (ترمذی)
سچ تو یہ ہے کہ سرورِ کائناتؐ پر درود کے علاوہ بھی آپ کا ہر نوع کا ذکر خیر و برکات کا باعث اور ہر طرح کی مصیبت وپریشانی اور غم و ہم سے نجات دینے والا ہے۔ اکابر علما اس کا خوب تجربہ اور تصدیق فرما چکے ہیں۔ علامہ محمد بن جزریؒ نے مسنون دعاؤں و اذکار کا مجموعے ’حصنِ حصین‘ مرتب کیا تو اس کے دیباچے میں تحریر فرمایا کہ ’’میں نے اس کے انتخاب اور جمع کرنے میں مخلوق کی خیر خواہی کو پورے طور پر صَرف کیا ہے اور صحیح حدیث کی کتابوں سے جمع کیا ہے اور ہر سختی اور مصیبت کے وقت اس دعاؤں کے مجموعے کو مصیبتوں کے مقابلے کا سامان بنا کر پیش کیا ہے اور جن و انس کے شر سے بچنے کے لیے اس کو سند وغیرہ سے الگ کر کے ایک سپر بنایا ہے اور میں خود بھی اس نا گہانی مصیبت سے بچنے کے لیے، جو مجھ پر آئی۔ اس مضبوط قلعے میں قلعہ نشین اور پناہ گزین ہوا ہوں‘‘۔ (حصنِ حصین ملخصاً)