اسلامی زندگی کے راہنما اصول

206

مومن درحقیقت وہ شخص ہے جو دل سے اللہ تعالی کی وحدانیت، نبی اکرمؐ کی رسالت اور آپؐ کے بتائے ہوئے تمام عقائد واحکام پر غیر متزلزل یقین رکھتا ہو۔ اور اس کو اس بات کا پختہ یقین ہو کہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے انسانوں کو جو احکام دیے ہیں وہی ان کی دین و دنیا کی فلاح کے ضامن ہیں۔ اس ایمان کا لازمی تقاضہ یہ ہے کہ انسان اپنی پوری زندگی اللہ اور اس کے رسولؐ کی ہدایات کے مطابق گزارے، جن باتوں کا اس کو حکم دیا گیا ہے ان کو بجا لائے اور جن سے روکا گیا ہے ان سے رک جائے۔
لہذا ایک مومن کی بنیادی صفت یہ ہے کہ اس کی زندگی اللہ تعالی کی مرضی کے مطابق ہوتی ہے۔ وہ اپنے ہر کام اور نقل وحرکت میں پہلے یہ دیکھتا ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے اس کو اجازت ہے یا نہیں۔ اجازت ہوتی ہے تو کرتا ہے ورنہ رک جاتا ہے۔ چنانچہ اس کو زندگی میں اپنی نفسانی خواہشات کے بہاؤ پر بہنے کے بجائے اللہ تعالی کی مرضی کے مطابق بسر ہوتی ہے۔
مومن کی یہ وہ بنیادی اور جامع صفت ہے کہ اس کے نتیجے میں تمام نیک اور اچھی صفات اس میں خود بخود پیدا ہوجاتی ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالی نے جتنے احکام اپنے بندوں کو عطا فرمائے ہیں ان سب کا مقصد یہ ہے کہ انسان اچھی صفات سے آراستہ اور بری صفات سے پاک ہوجائے اور جو شخص ایک مرتبہ یہ عہد کرے کہ وہ اللہ تعالی کے تمام احکام کی پابندی کرے گا تو لازما وہ ساری اچھی صفات اس میں پیدا ہوجائیں گی۔ مومن کی یہ صفات جو اطاعت خداوندی سے پیدا ہوتی ہیں اتنی بے شمار ہیں کہ مختصر وقت میں ان سب کا بیان ممکن نہیں۔ لیکن اگر اختصار اور جامعیت سے کام لیا جائے تو مومن کی صفات خاص طور سے زندگی کے پانچ شعبوں سے متعلق ہوتی ہیں:
عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاق۔
عقائد کے شعبے میں مومن کی بنیادی صفت قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے: ’’اور یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان رکھتے ہیں ان ہدایات پر جو آپؐ پر نازل کی گئیں اور ان ہدایات پر جو آپؐ سے پہلے پیغمبروں پر نازل کی گئیں اور وہ آخرت کا یقین رکھتے ہیں‘‘۔
مومن کی اس صفت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے انبیاء علیہم السلام کے ذریعے جتنے عقائد اور جتنی ہدایات دنیا میں بھیجی ہیں ان سب کو برحق ماننے کے ساتھ ساتھ وہ اس بات کا پختہ یقین رکھتا ہے کہ مرنے کے بعد اسے ایک ایک عمل کا جواب دینا ہوگا۔
اس یقین کی بنا پر وہ رات کی تاریکی اور جنگل کی تنہائی میں بھی حتی الامکان کسی ایسے کام کا مرتکب نہیں ہوتا جس کی وجہ سے اس کو آخرت میں پروردگار کے سامنے شرمسار ہونا پڑے۔
عبادت کے شعبے میں مومن کی صفت یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو صرف اور صرف اللہ کا بندہ سمجھتا ہے، اللہ کے سوا کسی کو پوجتا ہے نہ کسی کے آگے جھکتا ہے، نہ کسی سے ڈرتا ہے اور نہ اس کے سوا کسی کی قدرت اور اختیار سے کسی مدد کا طلب گار ہوتا ہے اور اللہ تعالی نے عبادت کے جتنے طریقے مقرر فرمادیے ہیں ان سب کو پورے اخلاص عاجزی اور احساس بندگی کے ساتھ بجا لاتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے: ’’فلاح وہ مومن حاصل کریں گے جو اپنی نماز میں خشوع سے کام لیتے ہیں‘‘۔ اور آگے ارشاد ہے: ’’اور جو لوگ رب کی باتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور جو اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے اور جو لوگ کہ (اللہ کی راہ) میں جو کچھ دیتے ہیں اس طرح دیتے ہیں کہ (مال خرچ کرنے کے باوجود) ان کے دل اس بات سے ڈرے ہوئے رہتے ہیں کہ انہیں اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کرجانا ہے اور یہ لوگ دوڑ دوڑ کر نیکیوں کی طرف جاتے ہیں اور ان نیکیوں میں سبقت لے جاتے ہیں‘‘۔
مطلب یہ کہ اللہ تعالی کی بدنی عبادت کا معاملہ ہو یا اس کی راہ میں مال خرچ کرکے مالی عبادت کا سوال ہو مومن کی صفت یہ ہے کہ وہ سب سے آگے نکلنے کی کوشش کرتا ہے۔
اور معاملات کے شعبے میں مومن کی صفت ہے کہ وہ اپنی بات کا سچا اور وعدے کا پکا ہوتا ہے وہ کسی سے دھوکا، فریب، بدعہدی کا معاملہ نہیں کرتا اور بے جا طریقے سے دوسرے کا حق غصب کرنے کی فکر میں نہیں رہتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے: ’’اور وہ مومن فلاح یافتہ ہیں جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کا پاس کرنے والے ہیں‘‘۔ لفظ ’’امانت‘‘ کے لغوی معنی ہر اس چیز کو شامل ہیں جس کی ذمے داری کسی شخص نے اٹھائی ہو اور اس کے معاملے میں اس پر بھروسہ کیا گیا ہو اور چونکہ ایسی امانت کی بہت سی قسمیں ہیں اس لیے قرآن کریم نے اس کے لیے جمع کا صیغہ استعمال فرمایا ہے تاکہ اس میں امانت کی تمام قسمیں شامل ہوجائیں اس میں مالی امانت تو ظاہر ہی ہے کہ اگر کسی شخص نے اپنا کوئی مال کسی کے پاس رکھوایا ہو تو یہ اس کی امانت ہے جسے واپس کرنا اس کی ذمے داری ہے۔
اس کے علاوہ کسی نے کوئی راز کی بات کسی سے کی ہو تو یہ بھی اس کی امانت ہے۔ اور شرعی عذر کے بغیر اس راز کا کسی پر ظاہر کرنا اس امانت میں خیانت ہے۔ اس طرح کسی ملازم کو جتنے وقت کے لیے ملازم رکھا اس پورے وقت کو ملازمت کے کام میں لگانا بھی امانت ہے۔ اور وقت کی چوری یا کام کی چوری خیانت کے حکم میں ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ امانت کا پاس کرنا بڑا جامع لفظ ہے جس میں معاملات کی بے شمار قسمیں داخل ہوجاتی ہیں اور مومن کی صفت یہ ہے کہ وہ ان تمام امانتوں کا پاس کرتا ہے۔
اسی طرح وعدے اور معاہدے کا پاس کرنے میں بھی معاملات کی بہت سی صورتیں داخل ہوجاتی ہیں۔ اشیائے فروخت میں ملاوٹ یا ان کے عیب کو چھپانا یا کم ناپ تول کا ارتکاب یہ تمام جرائم عہد شکنی میں داخل ہیں۔ اور مومن کی صفت یہ ہے کہ اسے اپنے معاہدے کا پاس ہوتا ہے وہ جیسا معاہدہ کرتا ہے اس کے مطابق عمل بھی کرتا ہے۔ کیونکہ اسے یقین ہے کہ اگر بدعہدی کے نتیجے میں اس نے کچھ تھوڑا بہت ظاہری نفع کما بھی لیا تو دنیا وآخرت دونوں میں اس کا انجام بڑا ہی ہولناک ہوگا۔ معاملات کی صفائی، امانت داری اور معاہدے کی پابندی مومن کا وہ طرہ امتیاز رہا ہے جسے دیکھ کر ماضی میں بہت سے کافر مسلمان ہوئے۔
عبادت میں اگر تھوڑی بہت کوتاہی ہوجائے تو اس کی تلافی توبہ سے ہوسکتی ہے، لیکن حقوق العباد کو تلف کرنے کی تلافی صرف توبہ سے بھی ممکن نہیں جب تک کہ صاحب حق کو اس کا حق نہ پہنچادیا جائے۔ یا وہ خوش دلی سے از خود معاف نہ کردے اس وقت تک اس گناہ عظیم کے معاف ہونے کی کوئی صورت نہیں۔
چنانچہ جب اسلام عملاً دنیا میں نافذ تھا تو اس وقت مسلمان خواہ کتنا ہی گیا گزرا ہو، لیکن چھوٹ، دھوکا، فریب، بدعہدی، خیانت کو کسی قیمت پر گوارا نہیں کرتا تھا۔
زندگی کا چوتھا شعبہ معاشرت ہے یعنی دوسروں کے ساتھ میل جول اور باہمی تعلقات کے انداز۔
اس شعبے میں ایک مومن کی بنیادی صفت سرکار دو عالمؐ نے یہ بیان فرمائی ہے: ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگ محفوظ ہوں‘‘۔ ’’اور مومن وہ ہے جس سے دوسروں کو اپنی جان ومال کے معاملے میں کسی قسم کا کوئی خطرہ نہ ہو‘‘۔
اسلام کے نظام معاشرت کے تمام احکام اس بنیادی اصول کے گرد گھومتے ہیں کہ ہر مسلمان اس بات کا دھیان رکھے کہ اس کے کسی طور طریقے اور کسی عمل سے دوسرے کو کسی قسم کی جسمانی یا نفسیاتی تکلیف نہ پہنچے۔ کسی شخص کو دل آزار باتیں کہنا، کسی کی پیٹھ پیچھے برائی کرنا، کسی کی چغلی کھانا، کسی کے خلاف بدگمانی میں مبتلا ہونا، کسی کے عیوب کی جستجو کرنا کسی کی اجازت کے بغیر اس کی خلوت میں مخل ہونا۔ یہ سب وہ گناہ ہیں جنہیں قرآن کریم نے صریح الفاظ میں ممنوع قرار دیا ہے۔
اور ایک مومن کی صفت یہ ہے کہ وہ اس قسم کی تمام گھٹیا باتوں سے مکمل پرہیز کرتا ہے۔
آخری شعبہ ’’اخلاق‘‘ کا ہے اور اس شعبے میں سرکار دوعالمؐ کی تعلیم یہ ہے:
’’مکمل ایمان ان ہی لوگوں کا جو خوش اخلاق ہوں گے‘‘۔
خوش اخلاقی کا مطلب یہ ہے کہ انسان میں تکبر کے بجائے تواضع اور انکسار، بخل کے بجائے سخاوت، بزدلی کے بجائے بہادری، سخت مزاجی کے بجائے رحم دلی، جلد بازی کے بجائے تحمل، زبان درازی کے بجائے خوش کلامی اور فحاشی کے بجائے عفت وپاکیزگی پائی جائے۔ اس سے مل کر اس کی باتیں سن کر اس کے کردار کو دیکھ کر دوسرے کو انقباض کے بجائے فرحت حاصل ہو۔
خلاصہ یہ ہے کہ انسانی شرافت کی جتنی اچھی صفات ہوسکتی ہیں ایک مومن کو ان سب کا مجموعہ ہونا چاہیے۔ اور جس شخص میں ان صفات کی جتنی کمی ہے اتنا ہی اس کا ایمان نامکمل ہے۔ اور جو شخص ان صفات سے محروم ہے وہ خواہ قانونی طور پر مسلمان ہی کہلائے لیکن جس قسم کا مسلمان اللہ اور اس کے رسولؐ کو مطلوب ہے اس سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان صفات سے آراستہ ہونے کی توفیق عطا فرمائے جو ایمان کا لازمی تقاضہ ہیں جن سے مزین ہوکر قرون اولی کے مسلمانوں نے دنیا بھر پر اپنے عروج و اقبال کے پرچم لہرائے ہیں اور آج بھی ہماری دنیا وآخرت سنوارنے کے لیے لازمی شرط کی حیثیت رکھتی ہیں۔