رسول اللہ ﷺ اور شرارتی بچے

437

بچے اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہیں۔ لیکن والدین کی اکثریت بچوں کے حقوق سے عموماً ناواقف ہوتی ہے۔ حالانکہ بحیثیت والدین انہیں ادا کرنا ہر ذی شعور کی ذمے داری ہے۔ ہمارے دین نے تو اَن دیکھے اور پیٹ میں پلتے بچے کو بھی حقوق عطا کیے ہیں۔ انہی کی وجہ سے وراثت کی تقسیم تک رْک جاتی ہے اور طلاق کا معاملہ بھی زیر التوا ہوتا ہے۔
فی الحال ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہمارے پیارے نبیؐ نے بچوں کے ساتھ کس قسم کا سلوک روا رکھا؟ بچوں کی قدرتی ضروریات اور شرارتوں پر آپؐ نے کیسا رویہ پیش کیا؟ کتب سیرت عیاں کرتی ہیں کہ آپؐ بچوں کے ساتھ برتائو کرتے ہوئے مثالی صبر، برداشت اور بھلائی کا مظاہرہ فرماتے تھے۔
قرآن پاک میں ارشاد خداوندی ہے کہ اگر ایک مسلمان خدا تعالی کا قرب پانا چاہتا ہے، تو اْسے چاہیے کہ وہ اْسوہ حسنہ کے مطابق عمل کرے۔ لہٰذا ہمیں دیکھنا ہوگا کہ جب چھوٹے بچے کوئی غلط حرکت کرتے تھے تو نبی اکرمؐ انہیں کس انداز میں تنبیہہ فرماتے۔ آج کل تو کئی چھوٹے بچے اپنی شرارتوں سے بڑوں کی قوت برداشت کا خوب امتحان لیتے اور اکثر انہیں غصے میں لے آتے ہیں۔
نوزائیدہ بچوں کے ساتھ سلوک
ایک برس سے چھوٹے بچے بڑے جاذب نظر، گول مٹول اور فرشتہ صورت ہوتے ہیں۔ انھیں دیکھتے ہی جی چاہتا ہے کہ گود میں اٹھا کر خوب پیار کیا جائے۔ ان کی معیت میں انسان فطری خوشیاں پاتا اور بڑا لطف اٹھاتا ہے۔ لیکن جونہی خصوصاً مرد حضرات بازو پر نمی اور ناک میں بو محسوس کریں، تو ان کی تیوری چڑھ جاتی ہے۔ وہ ناگواری کا اظہار کرکے بچے کو واپس ماں کی گود میں ڈالتے اور بک جھک کرتے غسل خانے کا رخ کرتے ہیں۔
لیکن ایسی صورت حال میں نبی کریمؐ نے کبھی اس قسم کا ناپسندیدہ رویہ پیش نہ فرمایا۔ آپ اکثر بچوں کو اپنی آغوش میں لیتے اور زانو پر بٹھاتے تھے۔ حالانکہ اس زمانے میں کسی قسم کا ’’ڈائپر‘‘ موجود نہ تھا۔
سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے: ’’ایک بار ایک لڑکا رسول اللہؐ کی خدمت میں لایا گیا تاکہ آپ اْسے تحنیک دے دیں۔ (مطلب کجھور چبا کر اس کے تالو پر مل دیں) اسی دوران بچے نے پیشاب کردیا۔ تب رسول اللہؐ نے پانی منگوایا اور اس سے وہ جگہ دھو ڈالی جہاں پیشاب گرا تھا‘‘۔ (بخاری)
یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ نبی اکرمؐ نے ناگواری یا نفرت کا اظہار نہیں فرمایا اور نہ ہی کراہت سے بچے کو ماں کے حوالے کیا۔ حالانکہ اس نے آپؐ کے بدن کو ناپاک کر ڈالا تھا۔ یہ رویہ بتاتا ہے کہ نبی کریمؐ نوزائیدہ کی فطری ضروریات بخوبی سمجھتے تھے۔ اسی لیے ان کے ساتھ کمال درجے کے حلم و برداشت کا مظاہرہ فرماتے۔
نوزائیدہ بچہ خود پہ قابو نہیں رکھتا۔ اسی لیے کسی بھی وقت کہیں بھی پیشاب کرتا اور کبھی منہ سے دودھ نکال دیتا ہے۔ ناک بہنا بھی معمول ہے۔ رسول کریمؐ بچوں کی اس فطرت سے بخوبی واقف تھے۔ اسی لیے کبھی بچہ آپ پر پیشاب بھی کردیتا، تو رسول اللہؐ گھبراہٹ یا بے چینی کا مظاہرہ نہ فرماتے۔
شرارتوں پر ردعمل
بچے جب تین چار سال کے ہوجائیں، تو متحرک اور متجسس ہوجاتے ہیں۔ وہ پھر طرح طرح کی شرارتیں کرتے اور انوکھے کرتب اپناتے ہیں۔
کتب سیرت بتاتی ہیں کہ نبی اکرمؐ اس عمر کے بچوں پر بھی شفقت فرماتے۔ ایسے بچوں کو نہ صرف مسجد میں آنے کی اجازت تھی، بلکہ دوران نماز اگر وہ معصوم شرارتیں کرتے، شور مچاتے یا عبادت میں مخل ہوتے، تب بھی آپؐ مثالی صبر وبرداشت عیاں فرماتے۔
سنن نسائی میں سیدنا عبداللہؓ بن شداد سے ایک حدیث بیان ہوئی ہے۔ وہ فرماتے ہیں: ’’میرے والد ایک دن نماز عشا پڑھنے مسجد نبوی تشریف لے گئے۔ جب رسول اللہؐ امامت کرانے تشریف لائے، تو سیدنا حسنؓ (یا سیدنا حسینؓ) آپ کے مبارک کاندھوں پر سوار تھے۔ نبی کریمؐ نے نواسے کو اپنے قریب زمین پر بٹھایا، تکبیر پڑھی گئی اور آپ نماز پڑھانے لگے۔
’’ایک بار آپ کا سجدہ خاصا طویل ہوگیا۔ میرے والد کو تشویش ہوئی۔ انھوں نے سَر اٹھا کر دیکھا، تو جانا کہ نواسے آپؐ کی کمر مبارک پر سوار ہیں۔ چنانچہ وہ پھر سجدے میں چلے گئے۔
’’نماز ختم ہوئی، تو چند صحابہؓ آپؐ کے پاس آئے اور دریافت کیا: ’’نبی کریم! دوران نماز ایک بار آپ نے اتنا طویل سجدہ کیا کہ ہم سمجھے، آپ کو کچھ ہوگیا ہے۔ یا پھر آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے‘‘۔
’’رسول اللہؐ نے تبسم فرمایا اور گویا ہوئے ‘کچھ بھی نہیںہوا۔ دراصل نواسے میری کمر پر سوار تھے اور میں نہیں چاہتا تھا کہ اْن کے کھیل میں خلل پڑے۔ چنانچہ اْن کے اترنے کا انتظار کرتا رہا‘‘۔
یہ حدیث بھی آشکار کرتی ہے کہ نبی اکرمؐ بچوں کی شرارتوں پرکمال ضبط و برداشت کا مظاہرہ فرماتے تھے۔ حتیٰ کہ نبی کریمؐ نے سجدہ طویل فرما دیا تاکہ بچہ اپنے معصوم کھیل سے لطف اندوز ہوتا رہے۔ گو سجدے کی طوالت سے صحابہ کرامؓ تشویش میں پڑھ گئے جو آپ کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے تھے۔