سیدنا خبیب کی شہادت

391

خبیبؓ کو پھانسی کے لیے لایا گیا تو مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے سب یہ منظر دیکھنے کے لیے موجود تھے۔ جب ان سے ان کی آخری خواہش پوچھی گئی تو فرمایا مجھے تھوڑی سی مہلت دو کہ میں دو رکعت نفل ادا کر لوں۔ دو رکعت نماز ادا کرنے کے بعد انہوں نے فرمایا: ’’میرا خدا جانتا ہے کہ میں لمبی نمازیں پڑھا کرتا ہوں اور آج بھی میرے دل میں خواہش تھی کہ آخری نماز لمبے رکوع و سجود اور لمبے قیام و قعدہ کے ساتھ ادا کرتا مگر میں نے جلدی نماز مکمل کر لی کہیں تم یہ نہ سمجھو کہ میں موت سے ڈر گیا ہوں‘‘۔
جاں نثارِ رسول نماز سے فارغ ہوا تو تختۂ دار تیار تھا۔ پھانسی کے پھندے کو چومنے کے لیے خبیبؓ تختہ دار کی جانب بڑھے۔ جب تختہ دار پر کھڑے کر دیے گئے تو مجمع عام پر ایک نظر ڈالی۔ کسی شخص کے چہرے پر رحمدلی کے آثار نہیں تھے۔ یہ دیکھ کر خبیبؓ نے کہا ’’اے اللہ! یہاں کوئی ایسا نظر نہیں آتا جو تیرے رسول تک میرا سلام پہنچا دے۔ پس تو خود ہی میرے آقا کی خدمت میں میرا سلام پہنچا دے۔ اور جو کچھ ہم پہ گزری اس کی آپؐ کو اطلاع دے دے۔
سیدنا اسامہ بن زیدؓ بیان کرتے ہیں کہ اس لمحے آنحضورؐ اپنے صحابہ کی مجلس میں تشریف فرما تھے، آپ کے لب ہلے اور آپ نے فرمایا ’’وعلیک السلام‘‘ (ایک روایت میں وعلیکم ا السلام کے الفاظ بھی نقل کیے گئے ہیں جس کا معنی ہے کہ آنحضورؐ نے سیدنا زید بن دثنہؓ اور خبیب بن عدیؓ دونوں کے سلام کا جواب دیا) یہ سلام ربّ کائنات نے جبریلؑ کے ذریعے اپنے حبیبؐ تک پہنچایا۔ صحابہ کرام کے استفسار پر آپ نے اپنے جاں نثاروں پر گزرنے والی قیامت کی تفصیل بتائی اور فرمایا ’’خبیب نے مجھے تختۂ دار سے سلام بھیجا ہے‘‘۔
تاریخ اسلام میں خبیب پہلے شہید ہیں جنہیں پھانسی دی گئی۔ خبیب ہی پہلے شخص ہیں جنہوں نے موت سے پہلے دو رکعت نفل ادا کرنے کی سنت قائم کی۔ آنحضورؐ نے اس سنت کو اپنی سنت قرار دیا اور اپنی امت کو تلقین کی کہ جب بھی کسی شخص کو ایسی صورت حال پیش آجائے تو وہ خبیب کی طرح موت سے پہلے اللہ کے حضور دو رکعت نفل ادا کرے۔
سیدنا خبیبؓ کو پھانسی لگانے سے پہلے تختہ دار پہ کھڑا کرکے چالیس نوجوانوں کو جن کے باپ بدر کے میدان میں قتل ہوئے تھے، نیزے اور تلواریں دی گئیں اور کہا گیا یہ شخص ہے جس نے تمہارے باپوں کو قتل کیا تھا۔ ذرا اسے مزہ چکھاؤ۔ جب ہر جانب سے سیدنا خبیب پر حملہ ہوا تو وہ اپنی جگہ ثابت قدمی سے کھڑے رہے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی:
’’اے اللہ! ان سب کو خوب گن لے اور انہیں پراگندہ کرکے موت کے گھاٹ اتار دے اور ان میں سے کوئی بھی تیری پکڑ سے نہ بچ سکے‘‘۔
ان کے ان الفاظ کو سن کر کافروں پر ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ ان میں سے بہت سے میدان سے بھاگ نکلے۔ مؤرخ ابن اسحاق معاویہ بن ابوسفیان کی زبانی نقل کرتے ہیں کہ وہ اپنے باپ ابوسفیان کے ساتھ خبیب کے مقتل میں موجود تھے۔ خبیب کی دعا سن کر جب لوگ بھاگے تو ابوسفیان نے انہیں (امیر معاویہ کو) زمین پر لٹا دیا۔ (مشرکین عرب کا یہ عقیدہ تھا کہ کسی کی بددعا سے بچنے کے لیے زمین پر لیٹ کر اپنے جسم کو خاک آلود کر لیا جائے تو بددعا کا اثر زائل ہو جاتا ہے۔ ابوسفیان کو اپنے بیٹے کے بارے میں سخت فکر لاحق ہوئی کہ کہیں اس پر کوئی وبال نہ آ پڑے)۔
سیدنا خبیبؓ نے اپنے قاتلوں سے تختہ دار پر کھڑے ہو کر یہ مطالبہ کیا کہ انہیں قبلہ رخ کر دیا جائے۔ مگر مشرکین نے ان کا یہ مطالبہ رد کر دیا۔