سود ناقابل قبول

204

سود ایک معاشرتی ناسور ہے جو غیر منصفانہ رویوں کو بڑھاوا دیتا ہے۔ خودغرضی , مفاد پرستی , لالچ اور نفس پرستی میں اضافے کا باعث ہوتا ہے۔ معاشرے میں انفاق اور ہمدردی کے جذبات کو سرد کردیتا ہے۔ سودخور بینکنگ سسٹم اور اداروں کی سفاکانہ پالیسیز میں جکڑے ہوئے افراد بعض اوقات مجبوراََ اپنی زندگیوں سے بھی کھیل جاتے ہیں۔پوری دنیا کی معیشت اسی سودخور سسٹم کی بدولت چند ابلیسی کرداروں کے ہاتھ کا کھلونا بن چکی ہے۔ دوسروں کی کمائی دولت اپنی جیب میں بھرنے کا عمل جاری و ساری ہے۔ ہمارے دین میں ایک انتہائی ناپسندیدہ اور ناقابل قبول عمل ہونےکے باوجود مملکت پاکستان میں آج تک عالمی سامراجی قوتوں کا مسلط کردہ سودی معاشی نظام رائج العمل ہے۔ ہر حکومت اس بدمست ہاتھی کی سرکشی کے آگے گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔اب تو عوام اور خواص سب ہی کھلی آنکھوں دیکھ رہے ہیں کہ جیسے جیسے شرح سود بڑھ رہی ہے ترقی کی شرح نیچے سے نیچے ہی جارہی ہے۔نجانے کیوں اس نحوست کو اب بھی خوشحالی کا ذریعہ سمجھ رہے ہیں۔اللہ کا ناپسندیدہ ترین عمل انسان کے لیےکبھی ترقی اور خوشحالی کا باعث نہیں بن سکتا ۔حقیقت سے نظر چرانے سے حقیقت بدل نہیں سکتی۔ جس عمل کے لیے تباہی کی وعید سنادی گئی۔ وہ عمل انسانی معاشرے کے لیےسراسر تباہ کن ہی ہے۔ دنیائے کفر کا ساتھ دینے کے چکر میں ہم اپنے رب اور اپنے رسول ﷺکی نافرمانی کرنے سے بھی نہیں چوک رہے۔اس طرز عمل کا آخرت میں کیا جواب دے سکیں گے۔ کون سی مجبوریاں ہیں جو مسلسل اللہ سے حالت جنگ میں ہیں۔ اتنے مطمئن کیوں ہیں کہ اس باطل نظام کو بدلنے اور رَد کرنے کا جذبہ بھی سرد پڑگیا ہے۔حلال اور حرام کا فرق بھی روز بروز ختم ہوتا جارہا ہے۔ معیشت سکڑتی جارہی ہے۔ برکتیں اُٹھ گئی ہیں۔ مگر سود بڑھتا جارہا ہے ۔ سود در سود در سود۔ اپنے رب کی ناراضگی کے ساتھ خوشحالی اور ترقی کی امید۔۔۔انتہائی بیوقوفانہ اور ناممکن۔