کراچی کے جلسے میں کراچی ہی نہیں تھا

698

18اکتوبر کو کراچی میں پی ڈی ایم کا دوسرا جلسہ تھا جس میں اندرون سندھ سے پی پی پی کے کارکنوں اور حامیان کو بسوں میں بھر کر لایا گیا تھا اور مولانا فضل الرحمن کے مدرسوں کے طلبہ آئے تھے یہ طلبہ کراچی سے بھی تھے اور کراچی سے باہر کے بھی۔ تیسری پارٹی ن لیگ تھی جس کے کراچی میں عوامی اثرات نہ ہونے کے برابر ہیں اس لیے ان کے کارکنان اس جلسے میں کچھ لوگوں کو لے کر آئے تھے۔ اصولی اعتبار سے دیکھا جائے تو جس طرح ن لیگ نے گوجرانوالہ کے جلسے کو مکمل بھر دیا تھا اسی طرح پی پی پی کو کراچی کا جلسہ گاہ کو بھرنا چاہیے تھا لیکن ان کے لوگ کم ہی آئے جب کہ جے یو آئی ایف کے لوگ پی پی پی سے زیادہ تھے۔ تعداد کے لحاظ سے ہو سکتا ہے کہ جلسے کی حاضری گوجرانوالہ کے جلسے سے زیادہ ہو لیکن تیس چالیس لاکھ کے شہر کے مقابلے میں تین کروڑ کی آبادی والے شہر میں جلسے کے حاضری سے کیا پی ڈی ایم کے رہنما حضرات مطمئن ہیں۔ پھر ایک سوال یہ کہ کراچی کے جلسے میں کراچی کہاں تھا، پی ڈی ایم کے رہنمائوں کو سوچنا چاہیے کہ ان کے کراچی کے جلسے سے کراچی نے کیوں بائیکاٹ کیا اس کے کچھ وجوہات اور اسباب ہیں ان پر پی ڈی ایم کے رہنمائوں کو ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے اور پھر اپنی جماعت کی پالیسیوںپر نظر ثانی کرنا چاہیے۔
پی ڈی ایم کے کراچی کے جلسے میں کراچی جیسے شہر کے شایان شان حاضری نہ ہونے کی وجوہات یہ ہیں کہ جن گیارہ جماعتوں نے مل کر جلسہ کیا ہے ان میں سے کوئی ایک بھی کراچی کے اسٹیک ہولڈروں میں سے نہیں ہے۔ اتحاد کی سب سے بڑی جماعت ن لیگ ہے جو صوبہ پنجاب میں تو اپنے اثرات رکھتی ہے اور قومی جماعت ہونے کے باوجود پنجاب کی پگ کا نعرہ لگا کے پنجابی عصبیت کو ابھار کر صوبے میں اپنی بیس یعنی اپنی بنیاد کو مضبوط بنانا چاہتی ہے اسے معلوم ہے کہ انتخابات میں پنجاب سے اکثریت حاصل کرکے ہی وہ اپنے لیے اقتدار کی راہ ہموار کرسکتی ہے، اس طرح ن لیگ پبلک پالیٹکس کے بجائے پاور پالیٹکس پر زیادہ زور دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے پنجاب کے بعد وہ کے پی کے میں زور لگاتی ہے وہاں پر اس کے کچھ عوامی اثرات بھی ہیں اور کچھ الیکٹ ایبل شخصیات سے ذاتی روابط بھی ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ن لیگ پنجاب سے جیت جائے گی تو ان کے لیے اقتدار میں شرکت آسان ہو جائے گی۔ کراچی میں ن لیگ کی تنظیم تو قائم ہے اور کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں اس کے اثرات بھی ہیں۔ اس جلسے کے لیے ن لیگ نے ائر پورٹ سے جلسہ گاہ تک 25استقبالیہ کیمپس لگائے تھے جو کراچی میں اپنے وجود کے اظہار کا ایک ذریعہ تو تھے لیکن کراچی کی آبادیوں میں اس کا کوئی کیمپ نہیں تھا۔
ن لیگ کے بعد اتحاد کی دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی ہے، پی پی پی کا مسئلہ یہ کہ یہ کراچی کے کچھ علاقوں میں عوامی اثرات رکھتی ہے پورے شہر میں اس کی تنظیم قائم ہے، اور 1970 کے عام انتخابات میں لیاقت آباد جیسے علاقے سے اس کا صوبائی امیدوار کامیاب ہوا تھا، لیکن 1972 کے لسانی فسادات اور پھر کوٹا سسٹم کی ناانصافیوں کی وجہ سے کراچی شہر سے اس کے سیاسی و عوامی اثرات سمٹ کر محدود ہوتے چلے گئے اب لیاری کے علاوہ کراچی کے گوٹھوں میں اس کے سیاسی اثرات ہیں اور ان علاقوں سے انتخاب میں ان کی کامیابی کے قوی امکانات ہوتے ہیں۔ کراچی سے پی پی پی کی دلچسپی اس حد تک ہے کہ اس نے اس کی بلدیات پر قبضہ کیا ہوا ہے اور کراچی کے جو آمدنی والے ادارے تھے انہیں صوبے کی تحویل میں لے لیے ہیں جیسے کہ کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی یعنی ایس بی سی اے بنا کر اپنے قبضے میں لے لیا موٹر وہیکل ٹیکس جس پر کراچی بلدیہ کا حق تھا وہ صوبہ سندھ کے پاس تھا اور اسی ٹیکس کے حصول کی جدوجہد میں کراچی کی بلدیہ توڑ کر اس وقت کے میئر کراچی عبدالستار افغانی کو سیکڑوں کونسلروں کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا۔ پی پی پی کا سارا زور اندرون سندھ کے مسائل حل کرنے پر رہتا ہے گو کہ وہاں بھی شکایات کے انبار ہیں لیکن کراچی کے سلگتے ہوئے مسائل پر زبانی کلامی دعوں کے علاوہ عملاً اس کی کوششیں کم ہی نظر آتی ہیں۔ پی پی پی کا نفسیاتی مسئلہ بھی ن لیگ کی طرح ہے کہ جس طرح ن لیگ پنجاب کو اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی ہے اسی طرح پی پی پی صوبہ سندھ کو اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی ہے جس سے اس کو دو فائدے حاصل ہوتے ہیں، ایک تو یہ کہ سندھ کی حکومت بنانے کا موقع ملتا ہے دوسرے سندھ کارڈ استعمال کر کے وفاق کو بلیک میل کرنے کا موقع ہاتھ آتا ہے۔ جب مختلف گوشوں سے یہ بات آتی ہے کہ کراچی کو وفاق کے کنٹرول میں دے دیا جائے تو پی پی پی اس پر سب سے زیادہ چیخ و پکار کرتی نظر آتی ہیں اس لیے کہ کراچی جیسے معاشی حب کو وہ اپنے پاس رکھ کر اور اس سے مالی فوائد اٹھا کر سندھ کے اندرونی علاقوں میں اپنی سیاسی و انتخابی بنیادوں کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی کوشش کرتی ہے۔
پی ڈی ایم کی تیسری بڑی جماعت جے یو آئی ف ہے جس کے کراچی میں کچھ مدارس ہیں اور کچھ مساجد ان کے پاس ہیں کراچی میں اس جماعت کی تنظیم تو قائم ہے لیکن کراچی کے مسائل پر یہ جماعت اپنے پلیٹ فارم سے کوئی موثر آواز اٹھاتی ہوئی نظر نہیں آتی ہاں جماعت اسلامی اگر کراچی کے کسی مسئلے پر آل پارٹیز کانفرنس بلاتی ہے تو اس میں لازمی شرکت کرتی ہے انتخابات میں دینی جماعتوں کا اتحاد قائم ہو تو جے یو آئی کی شرکت کی وجہ جیتنے والا ماحول بن جاتا ہے لیکن ان کے کارکنان پر ان کی تنظیمی گرفت ویسی مضبوط نہیں ہوتی جیسی جماعت اسلامی کی ہے اس لیے کچھ مسائل پیدا ہو جاتے ہیں، بہر حال یہ تو ایک ضمنی بات تھی اصل مسئلہ یہ کہ اس جماعت کو بھی کراچی کے شہریوں کے مسائل کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
اتحاد کی ایک اور جماعت جے یو پی نورانی گروپ ہے جس کی طرف سے اویس نورانی صاحب اتحاد کے ہر اجلاس میں نمایاں نظر آتے ہیں پریس بریفنگ میں وہ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ کھڑے ہونے کی کوشش کرتے ہیں اسی طرح ہر جلسے میں وہ پابندی سے شرکت کرتے ہیں دراصل وہ اپنے والد کے سیاسی اثر و رسوخ اور ان کے تعلقات کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں ورنہ عملاً ان کی تنظیم ختم ہو چکی ہے اور شہر کراچی میں ان کوئی خاص سیاسی و عوامی اثرات بھی نہیں ہیں اور کراچی کے مسائل پر اس جماعت کی کوئی آواز بھی سنائی نہیں دیتی۔ یہی وہ وجوہات ہیں جس کی وجہ سے پی ڈی ایم کے جلسے میں کسی رہنما نے کراچی کے مسائل کے حوالے کوئی بات کی اور نہ ہی کوئی قرارداد منظور کی گئی سب نے اپنی اپنی ڈفلی بجائی۔ اسی وجہ ہم کہتے ہیں پی ڈی ایم کے کراچی کے جلسے میں کراچی ہی نہیں تھا۔