بلدیہ عظمیٰ کے 57 اعلیٰ افسران کو دہری تکالیف کا سامنا

545

کراچی ( رپورٹ محمد انور) بلدیہ عظمیٰ کراچی کے 10سے 15 سال ملازمت کا تجربہ رکھنے 57 اعلیٰ افسران کو ان دنو دہری تکالیف کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اپنی ملازمت کے سخت ترین ایام گزرانے والے ان آفیسرز میں گریڈ 19 کے 21 ، گریڈ 18 کے 20 ، گریڈ 17 کے 11 اور گریڈ 16کے 5 بدقسمت مگر باصلاحیت افسران شامل ہیں۔ مذکورہ افسران میں گریڈ 19 کے سینئر ترین افسر عبدالرحمان راجپوت ہیپاٹائٹس سی کے مرض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے طبی رخصت پرہیں۔جبکہ گریڈ 17 کے محمد یونس خطرناک مرض میں کی وجہ سے میڈیکل رخصت پر ہیں۔ گریڈ 19 کے رضوان خان شوگر کی بیماری کا شکار ہیں۔ مذکورہ افسران کو شکایت ہے کہ ایک طرف تو انہیں کسی پوسٹ پر تعینات نہیں کیا جاتا دوسری طرف بغیر پوسٹنگ کے ہیومن ریسورسز مینجمنٹ ڈپارٹمنٹ میں روزانہ حاضری لگانے اور 8 گھنٹے دفتر میں رہنے کا پابند کر دیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ ذہنی کوفت میں مبتلا ہیں۔ خیال رہے کہ پوسٹنگ کے منتظر افسران کے لیے محکمہ ایچ آر ایم میں ایک کمرہ مخصوص کر دیا گیا ہے جہاں مذکورہ تمام بدقسمت افسران جاکر بیٹھ جاتے ہیں اور اپنی تقرری کے مراسلے کا انتظار کرتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ کے ایم سی سندھ کا وہ واحد ادارہ بن چکا ہے جہاں بیک وقت 57 اعلیٰ افسران بنا تقرر کے دفاتر میں حاضری لگاتے ہیں۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ تقرری کے منتظر بیشتر اعلیٰ افسران مختلف اہم محکموں کے سربراہان کی حیثیت سے برسوں خدمات انجام دینے کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ تقرری کا انتظار کرتے والے بیشتر افسران نے اپنے تقررکے لیے ایڈمنسٹریٹرز افتخار شاہلوانی سے ملاقات بھی کی مگر تاحال ان کی تعیناتی کا حکم نامہ جاری نہیں کیا جاسکا۔ سرکاری ذرائع کے مطابق موجودہ ایڈمنسٹریٹر بھی سابق میئر اور ایڈمنسٹریٹرز کی طرح مسعود عالم کی مبینہ مشاورت کے بغیر کوئی مثبت کام نہیں کرتے۔ حال ہی ایڈمنسٹریٹر نے اپنے سینئر ڈائریکٹر کوآرڈینیشن کے مشورے سے تمام تقرریوں اور تبادلے کے اختیارات خود اپنے پاس رکھ لیے ہیں جس کے میٹروپولیٹن کمشنر ادارے کے اختیار چیف ایگزیکٹو افسر بن کر رہ گئے ہیں۔ یہ بھی خیال رہے کہ حکومت سندھ کے محکمہ لوکل گورنمنٹ بورڈ نے مسعود عالم سمیت 16 ایسے افسران کو ان کے اصل محکموں میں واپس بھیجنے کا حکم دیا تھا مگر سپریم کورٹ کے حکم پر دیے جانے والے اس حکم پر تاحال عمل نہیں کرایا جاسکا۔