علی بابا کی بے بسی

464

کہتے ہیں صحافت اور ادب میں ایک واضح اور نمایاں فرق یہ ہے کہ صحافت میں ادبی عنصر شامل کر دیا جائے تو ادب کے ہم پلہ قرار پاتی ہے۔ اور ادب سے جمالیات عنصر نکال دیا جائے تو وہ صحافت کا ہم شکل بن جاتا ہے۔ اس بیانیے کے پس منظر میں صحافت بین السطور کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اس لیے اپنا مافی الضمیر سادہ لفظوں میں انتہائی سادگی اور صاف صاف طور پر بیان کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ورنہ قاری اور سامع مخمصے کا شکار ہو جاتا ہے۔ شکاری کا مقصد ہی شکار کرنا ہوتا ہے۔ سو، وہ ان نزاکتوں کو خاطر میں نہیں لاتا۔ بلکہ اسے سیاست کی معراج سمجھتا ہے۔ اب یہ ایک الگ موضع ہے کہ وہ سیاست کے ظاہری اور باطنی معنی سے بھی بہرہ مند نہیں ہوتا۔
وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کو دیکھ کر بنارسی ٹھگ یاد آجاتے ہیں ملک پر چالیس برسوں سے بنارسی ٹھگوں کی حکومت تھی۔ اگر اس جملے کے بین السطور پر غور کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب علی بابا کی حکومت ہے مگر علی بابا اتنا بے بس ہے کہ چالیس چور حکمرانی کر رہے ہیں۔ اور علی بابا ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم کی تصویر بنا اپنی بے بسی کا ماتم کر رہا ہے۔
شبلی فراز کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک کو خاندانی حکمرانی سے نجات دلا کر ہی دم لیں گے۔ فی الحال تو موصوف حکمرانی کا دم لگا رہے ہیںاور ڈم ڈم ڈیگا ڈیگا گنگنا رہے ہیں۔ جو قوم کی سماعت کو مجروح کرنے کا سبب بنی ہوئی ہے۔ ان کا یہ ارشاد قابلِ توجہ ہے کہ مریم نواز خود کو بے نظیر بھٹو سمجھتی ہیں۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں جس پر کوئی تبصرہ یا تبرا کیا جائے۔ ان کے آقا اور سرپرست وزیر اعظم عمران خان بھی تو خود کو
ذوالفقار علی بھٹو سمجھتے ہیں۔ شنید ہے کہ وہ بھٹو مرحوم کے انجام سے سہمے سہمے رہتے ہیں۔ ہماری سیاست میں آنے والے خود کو ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو ہی سمجھتے ہیں۔ مگر ان کی بے بسی یہ ہے کہ قوم ایسا نہیں سمجھتی۔ موصوف مزید فرماتے ہیں کہ ن لیگ کے دورِ حکومت میں ملازمتیں بکا کرتی تھیں۔ وہ جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر ایسے ہی کاروبار کیا کرتے تھے۔ شبلی صاحب یہ کاروبار تو ان دنوں بھی ترقی کی معراج پر ہے۔ اگر آپ کی بصارت میںکوئی نقص واقع نہیں ہوا ہے۔ تو بنی گالا میں وزیر اعظم عمران خان کی رہائش گاہ میں اس کی جھلک ضرور دیکھی جا سکتی ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ اچھے غلام سوچا نہیں کرتے اور دیکھنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کرتے کہ ان کے لیے سوچنا، سننا اور دیکھنا زحمت سے کم نہیں ہوتا۔ ن لیگ نے جمہوریت کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا۔ مگر انہوں نے جمہوریت کو ننگا نہیں کیا تھا۔ آپ کی
حکومت نے یہ کارنامہ بھی سر انجام دے ڈالاہے۔ شبلی صاحب کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان ہر مسئلے پر بات کرنے کو تیار ہیں۔ مگر اپوزیشن اپنی کرپشن کا تحفظ چاہتی ہے۔ ہمارے خیال میں یہ بیان آدھے سچ پر مبنی ہے۔ اور اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ عمران خان کرپشن پر بات کرنا چاہیں تو ان کی زبان پر چھالے پڑنے کا اندیشہ ہے۔ اسی لیے خان صاحب نے اپنے عزیز ترین دوست جہانگیر ترین کو ملک سے باہر بھیج دیا ہے۔ ویسے ہم خان صاحب کی اصو ل پرستی کے دل سے قائل ہیں دوستوں کو نوازنا ہی ان کا اصول ہے۔ موصوف نے اصول پرستی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ شبلی صاحب کا کہنا ہے کہ اپوزیشن الیکشن کو دھاندلی زدہ اور تحریک انصاف کی حکومت کو دھاندلی کا نتیجہ قرار دیتے نہیں تھکتی۔ تو سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت بھی دھاندلی کا نتیجہ ہوئی۔ سندھ کی حکومت پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں۔ دراصل اپوزیشن میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو کی عادی ہے۔ اور عادت منہ سے لگنے والی شہ کی طرح کبھی نہیں چھٹتی مزید کہتے ہیں اپوزیشن کا منشور ہی اقتدار کا حصول ہے۔ یہ لوگ اقتدار کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ مگر اس بار اس کا واسطہ عمران خان سے پڑا ہے۔ ان کی ایسی کوئی بھی سازش کامیاب نہیں ہو گی۔ شبلی جی کا فرمان ہے کہ اپوزیشن دشمن کے ایجنڈے اور اس کی ہدایت پر ملک میں افراتفری پھیلا رہی ہے۔ دشمن ملک سے سیاسی پناہ مانگنے اور اس کے ٹکڑوں پر پلنے والوں کے بارے میں کیا خیال ہے شبلی صاحب؟
موصوف فرماتے ہیں کہ اپوزیشن کی ساری جدوجہد اور بھاگ دوڑ اداروں کو آپس میں لڑانے اور ذاتی مفادات اور تحفظات کے حصول کے لیے ہے۔ ملک و قوم کی انہیں کوئی فکر نہیں۔ موصوف کا کہنا ہے کہ مریم نواز اور بلاول زرداری کی اپنی کوئی حیثیت نہیں وہ وراثت کی پیداوار ہیں۔ وطن عزیز کا ہر بڑا سیاست دان وراثت کے گملے کی پیداوار ہے۔ کیا انہیں اس حقیقت کا ادراک نہیں کہ وطن عزیز میں چپڑاسی بھی وراثت کی پیداوار ہوتا ہے۔ یہاں میرٹ اور حق کی بات کرنا بھی حماقت سمجھا جاتا ہے۔ اپوزیشن پر تبرا کرنے کے بجائے اگر شبلی صاحب دیانتداری سے سوچیں کہ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کیا کررہی ہے۔ اس کی پالیسی اور کارکردگی قوم کے مستقبل پر کیا اثرات مرتب کر رہی ہے۔ چور چور پکارنے اور چلانے والا بالآخر خود چور ثابت ہوتا ہے۔ سو ضروری ہے کہ ملک کی ترقی اور قوم کی خوشحالی کے لیے شور شرابا کرنے کے بجائے عملی اقدامات کیے جائیں۔ عمران خان نے ڈھائی سال ضائع کر دیے ہیں۔ اگر وہ چاہیں تو اپنی بقایا مدت میں اس کا ازالہ کر سکتے ہیں۔ مگر اس کام کے لیے انہیں نیب کو نظر انداز کرنا ہو گا۔