فیٹف ایک اور مہلت

670

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) نے اپنے اجلاس میں پاکستان کو بلیک لسٹ قرار دینے کا موقف مسترد کرتے ہوئے بدستور گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پیرس میں منعقد ہونے والے تین روزہ اجلاس کے بعد ایف اے ٹی ایف کے صدر نے پریس کانفرنس میں کہا کہ پاکستان ستائیس میں اکیس نکات پر عمل کیا باقی نکات پر بھی عمل کرنا ہوگا اس وقت تک پاکستان کا نام گرے لسٹ میں شامل رہے گا۔ صدر فیٹف کا کہنا تھا پاکستان میں تمام ستائیس نکات پر عمل درآمد کی خواہش پائی جاتی ہے۔ اس لیے پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالنے کی ضرورت نہیں۔ پاکستان کو دیگر نکات پر عمل درآمد کے لیے وقت دینا چاہیے۔ ایف اے ٹی ایف کا اگلا اجلاس فروری میں منعقد ہونا ہے اور یوں موجودہ صورت حال اگلے تین چارماہ برقرار رہے گی۔ جون 2018 سے پاکستان کا نام گرے لسٹ میں ہے۔ اس دوران پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی طرف سے ’’ہل من مزید‘‘ کے مطالبے کا مسلسل سامنا ہے۔ فیٹف کے فیصلے سے پہلے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اسلام آباد میں اعلان کیا تھا کہ بھارت کی طرف سے پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالنے کی کوششیں ناکام ہوں گی۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ بھارت اور اسرائیلی لابی نے پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کے لیے ہرممکن کوششیں جاری رکھی ہیں۔ پاکستان کا نام گرے لسٹ میں آنا بھی انہی کوششوں کا نتیجہ تھا مگر اب انہیں مزید کامیابی حاصل نہیں ہورہی کیونکہ پاکستان فیٹف کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے پکڑ دھکڑ سے لے کر مالیاتی نظام کی اصلاحات اور قانون سازی تک بہت سے اقدامات اُٹھا چکا ہے یوں اس سے سخت قدم اُٹھانے کے لیے اب اس ادارے کے پاس کوئی بہانہ نہیں۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی رکنیت کے لیے پاکستان کا بھاری اکثریت سے انتخاب بھارت اور اس کے عالمی ہمنوائوں کی ایک بڑی ناکامی ہے۔ اب پاکستان کو بلیک لسٹ کرانے میں ناکامی اسی ناکامی کا تسلسل ہے۔ اس دوران بہت منظم انداز سے یہ خبر سوشل میڈیا پر چلائی گئی کہ سعودی عرب نے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں پاکستان کے خلاف ووٹ دیا ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس خبر کی فوری تردید کی اور یوں سعودی عرب کو بلاوجہ پاکستانی سوشل میڈیا اور عوامی حلقوں میں ہدف تنقید بننے سے بچالیا۔ یہ خبر خاص وقت پر ایک مخصوص مقصد کے تحت چلائی گئی تھی اور اس کا مرکز بھی بھارت ہو سکتا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے اجلاس سے چند روز قبل سابق وزیر داخلہ اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیرمین رحمان ملک نے خط لکھ کر بھارت کو گرے لسٹ میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ رحمان ملک نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ امریکی رپورٹس کے مطابق بھارت کے چوالیس بینک منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں۔ امریکی بینکوں نے فنانشل انفورسمنٹ نیٹ ورک کو بھارت کے چوالیس بینکوں کی تفصیل دی ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ایف اے ٹی ایف اب بھی بھارت کے خلاف کوئی قدم اُٹھانے سے گریزاں ہے۔ پاکستان کو صر ف ایک مشکوک ٹرانزکشن کی وجہ سے گرے لسٹ میں ڈال دیا گیا تھا۔ اس کے برعکس بھارت بلین ڈالر کی منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ میں ملوث پایا گیا ہے اس کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں کی رپورٹس کی بنیاد پر بھارت کو گرے لسٹ میں شامل کیا جائے۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نامی ادارے کا قیام اس وقت عمل میں آیا جب دنیا غیر متواز ن ہو چکی تھی۔ سردجنگ کا ایک پہلوان اکھاڑے میں اوندھے منہ پڑا ہوا تھا اور اکھاڑے میں صرف ایک پہلوان تنہا مُکا لہرا رہا تھا۔ سارے اصول اور نظریات کی تشریح اس پہلوان کی کامیابی اس کے مقاصد کی تکمیل اور موقف کی تقویت کے گرد گھومتے تھے۔ جو کسی دور میں ناخوب تھا اس نئی ضرورت کے تحت خوب بن چکا تھا اور کسی دور کا خوب اور مرغوب نئے تقاضے کے تحت ناخوب بن چکا تھا۔ دہشت گردی کی اصطلاح اور اس کے انداز اور طور طریقے بھی اس تبدیلی اور ضرورت کا شکار ہو چکے تھے۔ نئے قول وقرار اور دساتیر اور قواعد کی ترتیب بھی اسی ضرورت کے تحت ہورہی تھی۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا قیام اس نئی ضرورت کے عین مطابق تھا۔ جس طرح اس یک رخی اور یک رنگی دنیا میں اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے کو سیاسی ضرورت کے تحت استعمال کیا گیا اسی طرح ایف اے ٹی ایف پر بھی سیاست کا غلبہ رہا۔ ایف اے ٹی ایف ناپسندیدہ قوموں اور ملکوں کی ناپسندیدہ پالیسیوں پر ان کی کلائی مروڑنے اور ان پر بدنامی کی مہر ثبت کرنے کا ادارہ ہے۔ گزشتہ دہائیوں میں جس طرز ِ سیاست کو عالمی سطح پر فروغ دیا گیا اس میں دہشت گردی اور دہشت گرد کی تعریف بھی دوخانوں میں بانٹ دی گئی۔ ایک دہشت گردی گوارا اور قبول ہے اس پر آنکھیں بند کرنے کا رواج اور رجحان عام ہے۔ دوسری قسم کی دہشت گردی واقعی دہشت گردی ہوتی ہے۔ پاکستان تو ایف اے ٹی ایف کے شکنجے میں پھنس گیا اور اس کی مسلسل نگرانی جاری ہے مگر بھارت کا معاملہ اب توجہ طلب اور اصول مساوات کا متقاضی ہے۔