رسول رحمت ﷺ کی اہانت اور ہماری ذمہ داری

695

اسلام انسانیت کے لیے ربّ ذوالجلال کا پسند فرمودہ آخری دین ہے۔ اپنی تعلیمات وتفصیلات کے اعتبار سے اسلام ہی ایک کامل واکمل اور متوازن و معتدل دین کہلانے کا حق دار ہے جس میں رہتی دنیا تک فلاحِ انسانیت کی ضمانت موجود ہے۔ دنیا میں آج بھی اگرکسی دین پر سب سے زیادہ عمل کیا جاتا ہے تو وہ صرف دینِ اسلام ہے، یہ خصوصیت بلاشرکت ِغیرے صرف اسلام کو حاصل ہے۔اسلام میں سب سے متبرک حیثیت تصورِ نبوت کو حاصل ہے جس کے گرد تمام عقائد ونظریات گھومتے ہیں۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے آپؐ کی ذات پر ایمان وایقان کا ہی نتیجہ ہے کہ ہم اپنے تمام عقائد و نظریات حتیٰ کے اللہ تعالیٰ کی مشیت و منشا تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اس ایمان میں اگر کوئی کمی اور شک و شبہ لاحق ہوجائے تو نہ صرف قرآنِ کریم پر ایمان متزلزل ہوجائے بلکہ اسلام کے تمام نظریات میں گہری دراڑیں پڑ جائیں۔ اس اعتبار سے دین میں سب سے مرکزی حیثیت منصب ِرسالت کو حاصل ہے اور منصب ِرسالت کی یہی مرکزیت اس امر کی متقاضی ہے کہ آپ کی ذاتِ گرامی ہر مسلمان کے لیے تمام محبتوں کا مرکز و محور قرار پائے اور ایمان کواس سے مشروط کردیا جائے۔
دورِجدید میں ریاست کا ادارہ غیرمعمولی حیثیت رکھتا ہے، اور عصری مفکرین ہر قسم کے حقوق پر ریاست کے حقوق کو برتر قرار دیتے ہیں۔ ریاست کا یہ جدید تصور ایک قوم ونسل اور ارضِ وطن کی خدمت سے عبارت ہے، جبکہ اس کے بالمقابل اسلام کا تصورِ ریاست زمین اور نسل سے بالا تر ہوکر عقیدہ و نظریہ کی بنیاد پر قائم ہے، جس میں سب سے محترم استحقاق اس ذاتِ مقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے جس پر اس دین کی پوری عمارت قائم ہے۔ اس لحاظ سے جدید مفکرین کا ریاست کے حقوق کو بالاتر قرار دینے کے نظریہ کے بالمقابل اسلام میں اس شخصیت کا حق سب سے بالاتر قرار پاتا ہے جو مسلم قوم کی یکجہتی اور اجتماعیت کے علاوہ ان کے عقیدہ ونظریہ کا مرکز و محور ہو۔ مسلمان ہونے کے ناتے ہم پر ارضِ وطن کے حقوق سے برتر عائد ہونے والا حق اس ذاتِ مصطفویت کا ہے جنہیں قرآن نے ’رحمتہ للعالمین‘ کے لقب سے ملقب کیا ہے۔آج کا دور حقوق کے نعروں اور آزادی کے غلغلوں کا دورہے۔ اس دور کا آزاد منش انسان اپنے حقوق کے حصول کے لیے سرگرم ہے، انسانی حقوق کا چارٹر اقوامِ متحدہ نے اس کے ہاتھ میں دے کر انسانیت کو گویا ایک متوازی مذہب تھما دیا ہے لیکن یہ نادان انسان اپنے حقوق کے غلغلے میں اس شرفِ انسانیت سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق کو پامال کرنے پر تلا بیٹھا ہے جو انسانیت کی معراج اور اعزاز وتکریم کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہیں۔ اپنے چند خود ساختہ حقوق کی رو میں انسان کو محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے ’اْمّ الحقوق‘ کا بھی کوئی پاس نہیں رہا جو ذات انسانیت کو قعر مذلت سے نکال کر رشد وہدایت پر فائز کرنے کے لیے مبعوث کی گئی۔(اس کی شان میں گستاخانہ خاکے بنائے گئے، فرانس کا صدر اس گستاخی کی سرکاری سرپرستی کر رہا ہے )
اس دور میں بسنے والے انسان اس لحاظ سے انتہائی قابل رحم ہیں کہ ان کی زندگیوں میں محسن انسانیت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کو وسیع پیمانے پر سب وشتم کا نشانہ بنایا گیا۔ اس پر طرہ یہ کہ یہ ظلم وستم دنیا کے ایسے ممالک میں وقوع پذیر ہوا جو اپنے آپ کو حقوقِ انسانی کے چمپئن قرار دیتے ہیں۔ سکنڈے نیویا کے ان ممالک کو شخصی ا?زادیوں اور فلاحی معاشروں کا مرکز قرار دیا جاتا ہے۔ ذاتِ نبویؐ کی اہانت کی کوششوں نے جہاں ان ممالک میں بسنے والوں کی تہذیب وشائستگی کا کچا چٹھا پوری دنیا کے سامنے کھول کررکھ دیا ہے، وہاں اس مغربی تہذیب وفلسفہ کے دعووں کا تارو پود بھی بکھیر دیا ہے جو روا داری، انسانیت دوستی، باہمی احترام و ا?شتی، مذہبی مفاہمت،وسیع النظری، وسعت ِقلبیاور توازن واعتدال کے خوبصورت نعروں سے بھری پڑی ہے۔ تہذیب ِمغرب کا بھانڈا بیچ چوراہے میں پھوٹ چکا ہے کہ اس کی بنیادیں ایسے دیدہ زیب نعروں پر قائم ہیں جو مفہوم ومعانی سے محروم ہیں۔
سکنڈے نیوین ممالک کی یہ شرمناک جسارتیں اور اس پر مستزاد اہل مغرب کی حمایت وتائید اس حقیقت کا بین ثبوت ہے کہ دورِ حاضر کی سا لمیت اور امن وامان کو خطرہ ان مزعومہ اسلامی انتہاپسندوں سے نہیں جنہیں مغرب جارح اورجابر قرار دینے کی ہردم رَٹ لگائے رکھتا ہے، بلکہ دنیا میں بسنے والوں کو المناک اذیت اور نظریاتی جارحیت سے دوچار کرنے والے لوگ وہی ہیں جو اپنے تئیں بڑے روشن خیال اور اعتدال پسند قرار دیے جاتے ہیں۔
اسلام کو عدم روا داری کا طعنہ دینے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ماضی قریب میں مذہبی جارحیت کی مسلسل وارداتیں مسلمانوں کی بجائے مغرب کے ہی حصے میں آئی ہیں، جب قرآنِ عظیم کے بالمقابل ‘فرقان الحق’ کے نام سے ایک اور فرضی قرآن شائع کرنے، قرآنِ مجید کو غسل خانوں میں بہا دینے، مسجد ِاقصیٰ ودیگر تاریخی مساجد کو مسمار کرنے، داڑھی اور حجاب جیسے اسلامی شعارات کو ہدفِ تنقید بنانے اور اہانت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ مستمرہ ایسے سیاہ کارنامے مغرب کے نامۂ اعمال کا حصہ بنے ہیں۔ اس کے بالمقابل غیرمسلموں کے کسی مذہبی شعار، شخصیت یا مقدس ومتبرک کتاب کو نشانۂ جارحیت بنانے کی کوئی ایک کاروائی بھی مسلمانوں کی طرف سے سامنے نہیں آئی کیونکہ دیگر اقوام کے مقدس شعائر کی توہین کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے۔ یہ ایک قوم کے نظریات کی برملا فتح اوراس کی مذہبی شائستگی کا واضح اظہار ہے جس کے بعد مغرب کو مسلمانوں کو رواداری اور اعتدال پسندی کی مسلسل تلقین سے باز آکر اپنی اَقوام کی تربیت پر متوجہ ہوجانا چاہئے کیونکہ مغرب کے عالمی برادری اور پر امن بقائے باہمی کے تصورات کو خطرہ مسلمانوں کی بجائے اپنے فرزندانِ مغرب سے ہی ہے۔
سولوں کی توہین ایسا مکروہ عمل تاریخ انسانی میں پہلے بھی وقوع پذیر ہوتا رہا ہے۔ اللہ کے دشمنوں کی یہ دیرینہ روایت رہی ہے جس کا شکوہ قرآنِ کریم میں بڑے دل گیر انداز میں موجود ہے۔ سورئہ یاسین میں ارشادِ باری ہے:
”ان بندوں (کی نامرادی ) پر افسوس و حسرت! ان کے پاس جو رسول بھی آتا ہے ، تو یہ اس کا تمسخر اْڑانے سے نہیں چوکتے۔”پھر اللہ نے اسے قوموں پر عذابِ الیم کی ایک اہم وجہ قرار دیا ہے:
”رسولوں کا اس سے پہلے بھی مذاق اْڑایا جاتا رہا۔ تو میں کافروں کو ڈھیل دیتا رہا، پھر میری پکڑ نے ان کو آلیا … پھر کیسا رہا میرا عذاب!!”
البتہ زمانۂ حال میں سامنے آنے والی جسارت جہاں اپنی وسعت اور اصرار وڈھٹائی کے لحاظ سے انوکھی ہے، وہاں اس کے مرتکب اس کو جمہوری ثقافت اور اپنا انسانی حق قرار دینے پربھی تلے ہوئے ہیں۔ یادرہے کہ اس معاملے کو بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ درجہ بدرجہ آگے بڑھایا جارہا ہے جس کی پشت پر اقوام متحدہ کے منظور کردہ انسانی حقوق کے چارٹر کی بعض شقوں کو پیش کرنے کی روایت پختہ کی جا رہی ہے۔
فی زمانہ توہینِ رسالت کے اس مکروہ عمل کی وجوہات اس تہذیبی و نظریاتی تصادم میں پیوست ہیں جس کی پیش بندی نیو ورلڈ آرڈر کے تحت، سرد جنگ کے بعد سے ‘سبز خطرہ’ کے زیر عنوان، عالمی استعمار مسلسل چند دہائیوں سے کررہا ہے۔ توہین رسالت کے حالیہ واقعات نائن الیون کے اس امریکی وحشت وجنون کا ایک نمایاں اظہار اور منطقی نتیجہ ہیں جس کو مخصوص ملکی متعصبانہ مقاصد کے لیے امریکی میڈیا نے حادثۂ نیویارک کے بعد کے سالوں میں اختیار کیا تھا۔ ستمبر 2005ء میں پہلی بار شائع ہونے والے یہ خاکے ڈینیل پائپس نامی متعصب امریکی یہودی کے شرپسند دماغ کی پلاننگ کے نتیجے میں منظر عام پر آئے تھے۔ یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں بلکہ باقاعدہ مذموم مقاصد واہداف کے پیش نظر کارٹونوں کے مقابلے منعقد کروا کر ڈنمارک کے اخبارات کو اس بنا پر ان کی اشاعت کے لیے منتخب کیا گیاکہ وہاں تہذیب ِجدید کے چند کھوکھلے نعرے زیادہ شدت اور شوروغلغلہ کے ساتھ زیر عمل ہیں۔ پھر ان ممالک میں مروّج اباحیت، مادر پدر آزادی اور یہودیوں کی بڑی جمعیت اس پر مستزاد تھے۔
یوں تو شائع ہونے والے یہ خاکے محمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے بڑھ کر کئی مقدس اسلامی تعلیمات تک پھیلے ہوئے تھے، جن میں بالخصوص یہودیوں کے بارے میں مسلمانوں کے تصورات کو ہدفِ طنز وتمسخر بنایا گیا ہے۔ لیکن اس میں سب سے شدید ردعمل اس خاکے پر سامنے آیا ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرئہ انور کو نعوذ باللہ کراہت آمیز مشابہت دے کر، عمامۂ مبارک علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والتسلیم میں ایک بم کو چھپا ہوا دکھایا گیا تھا جس کا سرا ایک طرف سے اْبھرا نظر آتا ہے۔ یہ خاکہ گویا اس امر کا ایک رمزی اظہار ہے کہ اسلام دینِ امن نہیں بلکہ عصبیت وجارحیت کا علم بردار مذہب ہے۔ اس علامتی اظہار کے ساتھ الفاظ میں بھی اس مکروہ الزام کودہرایا جاتا رہا ہے کہ آپ کی ذاتِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم جارحیت اور جنگ وجدل کی ایک علامت ہے۔ معاذ اللہ… اسی طرح دیگر خاکوں میں اسلام کے تصورِ جہاد کو بھی ہدفِ ملامت قرار دیتے ہوئے گہرے طنز کے تیر چلائے گئے ہیں۔ مزید برآں دیگر اقوام یا کفر وشرکے بارے میں اسلام کے نظریات کو بھی کارٹونوں کی زبان میں ہدفِ ملامت ٹھہرایا گیا ہے۔ان خاکوں کے سرسری جائزے سے اس امر میں کوئی شبہ نہیں رہتا کہ یہ سارا عمل ایک منظم منصوبہ بندی، واضح اہداف کے ساتھ اس نظریاتی جنگ اور الزام تراشی کا حصہ ہے جسے مغرب اسلام سے مزعومہ’ سبز جنگ’ کے لیے درجہ بدرجہ آگے بڑھا رہا ہے۔
ستمبر2005ء میں شائع ہونے والے ان خاکوں پر عالم اسلام میں ایک شدید ردّ عمل سامنے آیا جس پر مغرب کے بعض حکومتی ذمہ داران نے معذرت خواہانہ رویہ اختیار بھی کیا، لیکن اس کو زیادتی باور کرانے کی بجائے مغربی میڈیا نے اظہارِ رائے پر قدغن قرار دیتے ہوئے اپنے ہم وطنوں کے سامنے یہ اشتعال انگیز تصور پیش کیا کہ مسلمانوں کے اس شدید احتجاج کا مطلب یہ ہوا کہ آئندہ ہمیں اپنی رائے کے اظہار کے لیے مسلمانوں سے اجازت لینا ہوگی۔ ان چیزوں سے بھی مغربی میڈیا سے صہیونی اشتراک کا بخوبی علم ہوتا ہے۔
یوں تو انسانی حقوق کے چارٹر کا یہ مسئلہ ہر صاحب ِدانش کے ہاں معروف ہے کہ اس کی غیرمحدود تعمیم اور متزلزل تفصیل اس کے میزانِ عدل قرار پانے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے،لیکن ان تمام باتوں سے قطع نظراس حرکت کا تجریدی مطالعہ اس نفسیاتی کیفیت کی ضرور غمازی کرتا ہے جس کا مغربی میڈیا کے اربابِ اختیار شکار ہیں۔ ایک شریف النفس، معتدل ومتوازن اور متین و حلیم شخصیت سے یہ توقع کس طرح کی جاسکتی ہے کہ وہ کسی عام فرد کی توہین کو اپنا حق باور کرنے کی سنگین غلطی کا شکا رہوگا۔چہ جائیکہ کسی عام فرد کی بجائے اس عظیم المرتبت ہستی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کا ارتکاب کیا جائے جو ڈیڑھ ارب آبادی کی محبوب ومقدس ترین شخصیت ہے۔پھر یہ محترم ہستی ایسی نہیں جو صرف مسلمانوں کے ہاں متبرک و مقدس ہو بلکہ تاریخ عالم کی یہ واحد ہستی ہے جس کی تعریف میں ازل سے اَبد تک ہردور کے نامور مشاہیر، عوام اور خواص رطب اللسان رہے ہیں۔ ان کے اْسوئہ حسنہ نے ہر شعبۂ حیات کے ماہرین کو ایسا چیلنج دیا ہے جس کا وہ اعتراف کرتے ہوئے اپنے عاجزی ودرماندگی کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ اس مقبولیت اور شانِ محمودیت کی وجہ اللہ تعالیٰ کا ذاتِ نبویٔ سے وہ قرآنی وعدہ ہے کہ ہم نے تیرا ذکر بلند کردیا اور تیرا دشمن ضرور خاکسار ہوکر رہے گا۔
ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے۔
٭اپنے عمل سے فرامین نبوی پر مہر تصدیق ثبت کریں ۔
٭ سیرت رسول اور فرمودات نبوی کو دنیا کے کونے کونے تک پھیلائیں
٭اپنے کسی عمل سے کسی بد عملی یا کوتاہی سے توہین رسالت کا کوئی عملی شائبہ تک پیدا نہ ۔
٭ ایسے تمام ممالک کا اقتصادی بائیکاٹ کیا جائے جو ایسے قبیح افعال کی سر پرستی اور وکالت کرتے ہیں۔ خواہ فرانس ہو ، جرمنی ہو یا امریکا یا برطانیہ۔
٭عوامی سطح پر ایسے کسی بھی احتجاج میں ضرور شرکت کی جائے تاکہ عوام کے دبائو سے مسلم حکومتیں بھی تعلقات توڑنے پر مجبور ہو جائیں ۔
٭قلم و قرطاس کے ذریعے سیرت کو دور دور تک پہنچائے ، میڈیا کا ہر ذریعہ استعمال کرنے کی ضرورت ہے ۔
٭ اس کام میں اپنا وقت مال اور صلاحیت سب کچھ استعمال کیا جائے ۔
٭ تمام چیزوں کی قبولیت کی شرط اخلاص نیت ہے۔ اس کے بغیر ہماری نجات ممکن نہیں ۔ شان رسالت پر تو کوئی حرف پھربھی نہیں آئے گا ۔