جو چپ رہے گی زبانِ خنجر

345

گزشتہ دنوں سندھ کے وزیر اعلیٰ بہت ہی غصے میں تھے۔ پاکستان کا المیہ ہی یہ ہے کہ جس جس کی دم پر پاؤں پڑتا ہے وہ چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے لیکن جب کوئی اور دْم دبا دیے جانے پر دہائیاں دے رہا ہوتا ہے تو پورا پاکستان اس پر قہقہے لگا رہا ہوتا ہے۔ جن باتوں پر آج پی ڈی ایم کی ساری پارٹیاں پاکستان بھر میں شور مچاتی پھر رہی ہیں، جن قانونی بے ضابطگیوں کا ذکر شدو مد کے ساتھ ہو رہا ہے، جس دہرے معیارِ انصاف کا رونا رویا جا رہا ہے، جن غیر جمہوری رویوں کی باتیں کی جا رہی ہیں اور مخالفین کو دبانے کے لیے جن جن ہتھکنڈوں کے استعمال کا گلہ کیا جا رہا ہے کیا یہ سب پاکستان میں پہلی مرتبہ ہو رہا ہے۔ کیا اس سے قبل پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا رہا۔ کیا پارٹیوں کو اسی طرح نہیں توڑا اور جوڑا جاتا رہا۔ کیا سیاسی مداخلتیں اس سے قبل کبھی نہیں ہوئیں اور کیا عوام کی رائے کو بوٹوں تلے کبھی روندا نہیں گیا۔
آج وزیر اعلیٰ سندھ، کیپٹن صفدر (ر) کے کیس کا بہانہ بنا کر جس طرح سندھ کے ساتھ امتیازی سلوک کا رونا رو رہے ہیں، ماضی میں ان کے صوبے میں ایسا نہیں ہوتا رہا۔ آج وہ چند جزائر پر وفاق کی دسترس بڑھ جانے پر جس بری طرح چراغ پا ہیں کیا سندھ کے سب سے بڑے شہر، کراچی کے ساتھ بہت کچھ نہیں ہوتا رہا۔ کیا پاکستان کے بانی، بابائے قوم نے اسے پاکستان کا دارالحکومت نہیں بنایا تھا۔ کیا دارالحکومت اسلام آباد لیجانے پر ان کو آج تک دکھ ہوا۔ کیا اس شہر کے لیے کوٹا سسٹم نافذ کرکے ان ہی کے صوبے میں رہنے والے انسانوں کے ساتھ امتیازی سلوک پر انہیں کوئی غم ہے۔ کیا ان ہی کے صوبے میں پیدا ہونے والے پاکستان کے قائدِ اعظم کی بہن کو ہندوستان کا ایجنٹ نہیں کہا گیا۔ ایوبی دور کے حکمرانوں نے جب اپنی مخالفت کے رد عمل کے طور پر ان ہی کے صوبے میں رہنے والی ایک آبادی پر لشکر کشی کی تو کیا ان کے صوبے والوں نے اسے صوبے کے ساتھ زیادتی قرار دیا۔ بھٹو دور میں جب سندھ کی ایک کمیونٹی کے خلاف اہل سندھ کی جانب سے غیر انسانی سلوک ہوا، ان کی عزت و آبرو کو خطرے میں ڈالا گیا، حتیٰ کہ انہیں نقلِ مکانی پر مجبور کردیا گیا تو کیا اس وقت سندھ کا کوئی وڈیرہ اس ظلم کے خلاف میدان میں کودا۔
بہت دور نہیں جاتے ہیں، اسی سندھ میں جب قائم علی شاہ وزیر اعلیٰ ہوا کرتے تھے اور اے پی سی واقعے کے بعد ہمارے ایک ادارے کو منہ زور اختیارات محض اس لیے در کار تھے کہ وہ پورے پاکستان میں جس انداز کا چاہے آپریشن کریں تو کوئی ان کو کچھ نہ کہے، پورے سندھ سمیت اِس وقت کی پی ڈی ایم میں شامل ہر جماعت اس بات پر رضا مند تھی کہ ان کی منشا کے مطابق قانون سازی کر دی جائے۔ شاید اندرونِ خانہ قائم علی شاہ ہی ایک واحد رہنما تھے جو ایسا سب کچھ نہیں چاہتے تھے اس لیے جب تک وہ وزیراعلیٰ رہے، سندھ حکومت پاکستان کی سب سے بری حکومت کہلائی جاتی رہی اور ہر روز یہی سننے میں آتا رہا کہ سندھ میں صبح کو نہیں تو شام کو اور شام کو نہیں تو صبح کو گورنر راج نافذ ہو جائے گا۔ آخر مراد علی شاہ صاحب میں ایسے کون سے ہیرے موتی جڑے تھے کہ ان کے آتے ہی پاکستان کا سب سے پاک صاف صوبہ سندھ کہلانے لگا اور پھر کراچی کا منظر نامہ دیکھتے ہی دیکھتے تبدیل ہوتا چلا گیا۔ پارٹیوں کو توڑا جاتا رہا۔ اِدھر اُدھر جانے والے نیک اور شریف بنتے چلے گئے، ڈٹے رہنے والے اٹھتے چلے گئے اور مراد علی شاہ آسمان کے سب سے روشن ستارے کہلائے جانے لگے، آخر کیوں؟۔
آج مراد علی شاہ صاحب کی دم پر پاؤں کیا پڑا کہ ان کی چیخیں بلند ہونا شروع ہو گئیں۔ فرماتے ہیں کہ ’’ن لیگ کے رہنما کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی گرفتاری کے معاملے میں مجھے صوبائی حکومت ختم کرنے کی دھمکی دی گئی‘‘۔ سندھ کے جس شہر (کراچی) میں قائد کی بہن بھارتی ایجنٹ قرار دی گئی ہو وہاں کیپٹن صفدر کی گرفتاری پر زلزلہ آجانا کیا حیرتناک بات نہیں۔ جہاں گزشتہ چار دھائیوں سے کسی کی بھی جان و مال محفوظ نہیں وہاں ایک ’’عزت دار‘‘ کی توہین پر ہنگامہ، کیا یہ دہرا معیار انصاف نہیں۔ کہتے ہیں کہ مجھے صوبائی حکومت کو ختم کر نے دھمکیاں دی گئیں تو کیا اس سے قبل سندھ میں گورنر راج کبھی نافذ نہیں کیا گیا۔ جس ملک کی قومی حکومتیں جوتوں کی نوک پر رہی ہوں وہاں صوبائی حکومتیں کیا اہمیت رکھتی ہیں۔ ظلم کئی دھائیوں سے جاری ہے لیکن یہ ظلم جس جس کے مفاد میں ہوتا ہے وہ ہمیشہ تالیاں ہی بجاتا نظر آیا۔
آج کل ہر ایک کی زبان پر چالیس سال پہلے کہے گئے الفاظ ہیں، وہی طمطراق ہے، بیانات میں وہی کاٹ ہے، ادارے اور خود ریاست سے وہی شکایات ہیں، اور ہر شاکی کو اسی نام سے یاد کیاجا رہا ہے۔ جب کل یہ باتیں، یہ شکایات، یہ الفاظ ملک وقوم سے غداری سمجھے جاتے تھے آج کیسے وفاداری مان لیے جائیں۔ میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ ظلم ظلم ہوتا ہے خواہ وہ کسی کے بھی خلاف ہو۔ جو ظلم پر خاموش رہتا ہے وہ بھی ظالموں ہی کا ساتھی ہوتا ہے۔ آج سارے ظالم مظلوم کہلائے جانے کی جدو جہد میں مصروف ہیں۔ پاکستان میں ایسا ہوجانا بعید از قیاس بھی نہیں لیکن ان ظالموں کو حساب تو دینا ہوگا۔ حساب دینا ہوگا ایک شہر پر کوٹا سسٹم کا، معاشی قتل عام کا، انہیں چوتھے درجے کا شہری سمجھے جانے کا، اس شہر کے 50 ہزار جونوں کے قتلِ عام کا اور ہر لحاظ سے ان کے ساتھ متعصبانہ و امتیازی رویوں اور سلوک کا۔ امیر مینائی کیا خوب کہہ گئے ہیں کہ
قریب ہے یارو روزِ محشر چھپے گا کشتوں کا خون کیونکر
جو چپ رہے گی زبانِ خنجر لہو پکارے گا آستیں کا