پاکستان میں صرف آمریت ہے، جمہوریت کا ناٹک چل رہا ہے

263

کراچی (رپورٹ: جہانگیر سید) پاکستان میں صرف آمریت ہے، جمہوریت کا ناٹک چل رہا ہے، ملک میں کبھی جمہوریت رہی نہ عوام کو اس سے کوئی غرض ہے، ماضی اور حال کے حکمرانوں کا عوامی فلاح وبہود سے کوئی واسطہ نہیں، سیاسی رسہ کشی سے ملک کمزور ہورہا ہے، حلف تو سب اٹھاتے ہیں لیکن اس کی پاسداری کوئی نہیں کرتا۔ ان خیالات کا اظہار عام لوگ اتحاد پارٹی کے سربراہ سابق ریٹائرڈ جسٹس وجیہہ الدین احمد ،سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر محمد یایسن آزاداورآل کراچی تاجر اتحاد کے چیئرمین عتیق میر نے جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین نے کہا کہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے بیان سے مکمل اتفاق ہوں کہ ماضی اور حال کے حکمران اپنی پارٹی کی لڑائی لڑرہے ہیں،پاکستان میں اقتدار میں آنے اور رہنے کی سیاست ہوتی ہے اور ہورہی ہے، پرانے سیاستدان دوبارہ اقتدار میں آنے اور نئے سیاستدان اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کی لڑائی لڑرہے ہیں،انہیں اپنا مفاد عزیز ہے ،لوگوں کی فلاح و بہبود سے ان کا کوئی واسطہ نہیں ہے، ان کا عوام سے بھی تعلق نہیں ہے، جوسیاسی جماعت کارکردگی نہ دکھائے اس کا ایجنڈا عوامی مفاد نہیں ہوتا، عوام اس سے مایوس ہوجاتے ہیں ان کو ماضی میں برسراقتدار پارٹی ہی اچھی لگتی ہے، اس کشمکش میں عوام پڑے رہتے ہیں، حکمران طبقے میں اقتدار میں اپنی باریاں لینے کی جنگ شروع ہوجاتی ہے،لاہور کے جلسے میں عمران خان نے نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’او میاںصاحب! ساڈی باری بھی آنے دو‘‘ ظاہر ہے حکمرانوں میں اقتدار کی باریاں لگی ہوئی ہیں، یہ اپنی باری حاصل کرنے کی کوششوںمیں سرگرم رہتے ہیں،عوام کی خدمت کرنے کے دعوے فراموش کردیتے ہیں، اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے عوام پڑھے لکھے سمجھدار نہیں، اپنا نفع نقصان تک نہیں جانتے، ان میں سیاسی سمجھ بوجھ بھی نہیں ہے، ایسے سادہ لوح عوام کو دھوکا دینا بالکل آسان ہوتا ہے ،اس لیے سیاستدانوں کی دلچسپی صرف پیسے بنانے ، جیبیں بھرنے اور فارن اکائونٹس کھولنے، عیش و عشرت تک ہوتی ہے، 72 سال کے عرصے میں کوئی ایک لیڈر دکھا دیں جو جو قوم و ملک کی خدمت اور اس سے محبت رکھنے والا ہو، آپ بتادیں کوئی ہو مجھے تو کوئی نظر نہیں آتا،ہمارے حکمرانوں اور ملک کے کرتا دھرتاافراد نے ملک و قوم سے وفاداری کے حلف بھی اٹھائے ہیں لیکن اس کی پاسداری کون کرتا ہے، افواج کے لوگ بھی آئین و قانون اور ملک سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں، آئینی حکومت گرا کر اقتدار میں آجاتے ہیں، یہ آئین شکنی نہیں تو کیا ہے، اس طریقے سے حج صاحبان میں بھی طالع آزما ہوتے ہیں، وہ اپنا آئینی حلف توڑتے ہیں اور غیر آئینی حکومت کے تحت حلف اٹھا لیتے ہیں، میری نگاہ میں ایسے جج فاسق اور فاجر ہوتے ہیں پھر موقع پرست جج طالع آزما حکمرانوں کو آئینی تحفظ فراہم کردیتے ہیں، حلف کی تو یہاں کو اہمیت ہی نہیں ہے۔ اس سارے بحران کا حل یہ ہے کہ قوم کو تعلیم دے کر باشعور بنایا جائے، سیاسی شعور کے بغیر ہم سیاسی حقوق کیسے حاصل کرسکتے ہیں۔ دوسری اہم ترین بات یہ ہے کہ جو دو تین بڑی جماعتیں ن لیگ اور پیپلز پارٹی ہیں انہیں آزمایا جاچکا ہے، ان سے جان چھڑائیں، اس وقت جمہوری اور عوامی فلاح و بہبود کے حوالے سے صرف جماعت اسلامی ہے جو قیام پاکستان سے مصروف عمل ہے، اس جماعت پر آج تک کوئی کرپشن کا الزام نہیں لگا سکا، اس کے قائدین بھی صاف ستھرے کردار کے مالک ہیں، یہ جماعت سیاست برائے سیاست یا اقتدار نہیں بلکہ سیاست برائے عوامی فلاح میں مصروف ہے،دوسری جماعت ہماری ہے عام لوگ اتحاد پارٹی اسے قائم ہوئے تین چار سال ہی ہوئے ہیں گوکہ ابھی یہ نئی سیاسی جماعت ہے۔ اس کا منشور اور ایجنڈا عام لوگوں کی حالت تبدیل کرنا ہے۔ ان دو ہی پارٹیوں سے قوم کے خیر کی امید رکھی جاسکتی ہے۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر محمد یایسن آزاد کا کہنا تھاکہ سراج الحق کے اس بیان کی مکمل حمایت کرتا ہوں کہ نئے اور پرانے حکمران اپنی باری کی لڑائی لڑرہے ہیں، یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے عوام کے حقوق کی پامالی پر آواز اٹھائی ہے جس میں جماعت اسلامی بھی شامل ہے،میں نے حقوق کی جنگ لڑتے اور سچ کہتے ہوئے جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو بارہا دیکھا ہے،پاکستان کے 22 کروڑ عوام کتنی مشکلات سے دوچار ہیں،ماضی اور حال کے حکمرانوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ پاکستان کے عوام کو درپیش سنگین مسائل سے نجات دلانے کے لیے بھرپور کردار ادا کریں۔ ملک کے حالات دیکھ لیں 5 اگست کو سقوط کشمیر ہوا ہماری سیاسی جماعتوں نے اس صورت حال کے خلاف بھرپور ردعمل نہیں دیا۔ ہمارے حکمرانوں کو معاشی طور پر برباد ہونے والے ملک کو مضبوط اور توانا کرنے کے لیے سر توڑ کوشش کرنا چاہیے۔ معاشی طور پر کنگال ملک کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ہمارے حکمرانوں کو پارٹیوں کے مفادات سے بلند ہو کر کردار ادا کرنا چاہیے۔ پہلی مرتبہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لگایا گیا اس نعرے میں کتنی حقیقت اور اس کے پیچھے کھڑے رہنے کی کس میں کتنی ہمت ہے‘ یہ تو وقت ہی ثابت کرے گا‘ جہاں تک جماعت اسلامی جیسی سیاسی جماعت کے کردار کو تسلیم کرنے اور انتخابات کے ذریعے جیت کر نہ آنے کی بات ہے میرا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی میں واقعی عوامی نمائندگی کی بھرپور صلاحیت ہے لیکن اسے تمام سیاسی قوتوں کے ساتھ مل کر جدوجہد کرنا چاہیے‘ تنہا اڑان سے وہ نتائج حاصل نہیں کیے جاسکتے جو اقتدار کی بھاری ذمے داری نبھانے کے لیے ضروری ہے،سراج الحق کے سیاسی کردار کو بھی بھرپور انداز میں سراہتا رہتا ہوں کیوں کہ یہ قومی نمائندوں کے چنائو میں اہلیت اور دیانت داری کے عنصر کی بات کرتے ہیں، لوگوں کے مسائل کو حل کرنے کی بات کرتے ہیں۔ آخر میں مسئلہ یہ کھڑا ہوتا ہے کہ ہمارا ووٹر جب تک باشعور نہیں ہوگا ایک‘ دو ہزار روپے لے کر کسی کے ڈبے میں ووٹ نہیں ڈالے گا‘ مثبت نتائج کیسے حاصل ہوسکتے ہیں، ایسے بے شعور لوگوں کے ووٹوں سے جو امیدوار کامیاب ہو کر اقتدار میں آتے ہیں ان میں کچھ کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے نہ وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں۔آل کراچی تاجر اتحاد کے چیئرمین عتیق میر نے کہا کہ سراج الحق کی بات سو فیصد درست ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے، ماضی اور حال کی حکمران سیاسی جماعتوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی بڑی شدت سے جاری ہے اس کشمکش سے ملک کمزور ہورہا ہے،عوام کی کمر توڑی جارہی ہے، یہ ذاتی اور سیاسی مفادات کی لڑائی ہے جو ہرگز قومی مفاد میں نہیں ہے،ماضی میں جمہوریت کے نام پر بار بار اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعتوں نے عوام کے بنیادی حقوق سلب کیے، موجودہ حکمران بھی اقتدار کو قائم رکھنے کی کوششوں میں یہی کچھ کررہے ہیں،ماضی کے حکمران عوام کا اعتماد کھوچکے ہیں اور موجودہ حکمراں بھی قوم کا اعتماد کھو رہے ہیں، ان سب ہی نے قوم کو بری طرح مایوس کیاہے،عوام کو تو علم ہی نہیں کہ جمہوریت اورجمہوری حقوق کیا ہوتے ہیں، جمہوریت کے ہونے نہ ہونے سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا، ملک میں جمہوریت کبھی نہیں رہی، جمہوریت کے دعویداروں نے ہی جمہوری نظام برباد کیا ہے، اس نظام کو لوٹ کھسوٹ اور کرپشن کا نظام بنایا، اگر آپ کو میری باتوں سے جمہوریت کی نفی کرنے کا تاثر ملا ہو تو ایسا نہیں ہے، میری خواہش ہے کہ سب سے پہلے جمہوریت کو درست راہ پر ڈالا جائے تب ہی پھل کی امید رکھی جائے، یہ سوال اکثر پوچھا جاتا ہے کہ اتنی ساری سیاسی جماعتوں میں کوئی ایک تو جماعت ہوگی جو سیاسی طور پر منظم کرپشن سے پاک سماجی خدمات کے حوالے سے معتبر ہو جس پر لوگ اعتبار اور اعتماد کریں اس کو حقیقی نمائندہ جماعت کے طور پر کامیاب کراکے اقتدار میں لائیں، جماعت اسلامی جمہوری معیار پر نظر آتی ہے لیکن یہ صرف سیاسی جماعت نہیں ہے بلکہ ایک مذہبی سیاسی جماعت ہے، مذہبی جماعت کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ عوام اس کو کسی خاص مسلک اور فقہ کی جماعت گردانتے ہیں جس کی وجہ سے اس طرح کی جماعت اوراس جماعت کے وٹرز محدود ہوجاتے ہیں، یوں تمام تر جمہوری اوصاف کے باوجود وہ اکثرتی جماعت کے طور پر نہیں ابھر پاتی، شاید جماعت اسلامی کے ساتھ بھی یہ مسئلہ ہے۔انہوں نے کہاکہ نئے اور پرانوں سیاسی کھلاڑیوں کی کھنچا تانی نے ملک کو برباد کردیا، پاکستان میں جمہوریت کے نگراں اس مرتبہ کچھ ایسا کریں کہ جمہوریت کے پردے میں عوام کی جان نکالنے والوں کو جمہوری عمل کا حصہ ہی نہ بننے دیا جائے، پورے نظام کو کرپٹ سیاست دانوں سے ہمیشہ کے لیے پاک کر دیا جائے، اس دفعہ حقیقی نمائندو ں کو ہی سیاسی عمل سے گزرنے کا موقع ملنا چاہیے، تب ہی عوام کا جمہوریت اور جمہوری نمائندوں پر اعتبار بحال ہوگا ورنہ جمہوریت کی آڑ میں یوں ہی لوٹ مار کا بازار گرم رہے گا یہ جو پاکستان میں جمہوری ناٹک چل رہا ہے یہ جمہوریت کے لبادے میں آمریت ہے۔ مستقبل قریب میں بھی صاف ستھری جمہوریت آتے نہیں دیکھ رہا جس پر عوام کو بھروسہ ہووہ ان کے حقیقی نمائندہ ثابت ہوں۔