’’تحفظِ ختم ِ نبوت‘‘ کے لیے تلوار کی ضرورت ہے

889

ترک صدر رجب طیب اردوان نے اپنے فرانسیسی ہم منصب ایمانویل ماکروں کے بارے میں بیان دیا تھا کہ انہیں دماغی علاج کی ضرورت ہے۔ اردوان نے یہ بیان ماکروں کے مسلمانوں اور اسلام سے متعلق رویے کے پس منظر میں دیا تھا۔ فرانسیسی صدر نے کہا ہے کہ صدر اردوان کا بیان قابل قبول نہیں ہے۔ فرانسیسی صدر کو دیکھا جائے تو وہ خود اور ان کی پارلیمنٹ اسلام اور مسلمان دشمن ہے پوری دنیا کے امن کو تباہ کر نے کی کو کشش کررہی ہے۔ اس کے ساتھ پورا عالم کفر اور نام نہاد ’’یورپی یونین‘‘ نے بھی یہ ثابت کر دیا ہے وہ اور اس کی تمام پالیسی یہودیوں کی حامی اور عالم اسلام اور مسلمانوں کی مخالف بنی ہوئی ہے۔ یورپی یو نین کے علاوہ بھارت نے بھی فرانس کو ہر طرح سے مدد کی پیشکش کی ہے اور یہ سلسلہ عالم کفر میں جاری ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان اور افغانستان میں بدامنی کے لیے پوری امریکی کابینہ جس میںسیکرٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو اور وزیرِ دفاع ایسپر اور متعدد سیکرٹری بھی بھارت پہنچ گئے ہیں اور ان کی مدد سے بھارت نے 46دنوں کے دوران 11عام میزائل اور دو سُپر سونک SANT میزائل سیریز کا کامیاب تجربہ کر لیا ہے اور اب بھارت کے بر عکس عالم اسلام کے حکمران اپنے اقتدارکو بچانے کی باتوں کو ہی اپنا اصل ہدف بنائے بیٹھے ہیں۔
فرانس میںکیا ہوا اس کی تفصیل گزشتہ آرٹیکل میں لکھ چکا ہوں 18اکتوبر کو فرانس میں ایک استاد ایموئل پیٹی نے طلبہ کو پیغمبر ِ اسلام سے متعلق خاکے دکھائے تھے جس کو قانونی کارروائی مکمل ہونے کے بعد قتل کیا گیا۔ اردوان نے اس معاملے پر ایک خطاب کے دوران کہا کہ: ’’میں ایسے صدر کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں جو مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لاکھوں لوگوں سے ایسا برتاؤ کرتا ہے‘‘۔ اردوان نے مزید کہا کہ ’’ماکروں کو دماغی علاج کی ضرورت ہے‘‘۔ انہوں نے عندیہ دیا کہ انہیں امید نہیں کہ فرانسیسی رہنما 2022 کے انتخابات میں جیت سکیں گے۔ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے اور انقرہ میں فرانسیسی اشیا کے بائیکاٹ کے مطالبات تشویش ناک ہیں۔ رواں ماہ ماکروں نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اسلام پوری دنیا میں ’’بحران کا مذہب‘‘ بن گیا ہے اور ان کی حکومت دسمبر میں مذہب اور ریاست کو الگ کرنے والے 1905 کے قوانین کو مزید مضبوط کرے گی۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ گزشتہ اور موجودہ صدی کے دوران فرانس اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کام کر رہا ہے۔
پیٹی تاریخ اور جغرافیہ کا استاد تھا۔ اس نے حالیہ برسوں میں متعدد مرتبہ کلاسوں میں اپنے شاگردوں کو یہ خاکے دکھائے اور مسلمان طالب علموں سے وہ یہ ہی کہتے تھے کہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ یہ خاکے ان کے لیے ناقابل برداشت یا اشتعال انگیز ہیں تو وہ انہیں نہ دیکھیں اور اپنی نظریں پھیر لیں۔ مسلمانوں کے عقائد کے مطابق پیغمبر اسلام کا کسی قسم کا عکس یا تصویر ممنوع ہے اور اس کو انتہائی قابل مذمت سمجھا جاتا ہے۔
قبل ازیں طنزیہ جریدے چارلی ہیبڈو میں خاکے شائع کیے جانے کے بعد انتہائی سنگین صورت حال ہوگئی تھی۔ ملک میں یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب 2015 میں چارلی ہیبڈو کے دفتر پر حملے میں دو افراد کی سہولت کاری کے الزام میں 14 افراد پر مقدمہ چل رہا ہے۔ اس واقعے میں 12 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ فرانسیسی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ انہیں ان کے اپنے ملک میں نسل پرستانہ اور امتیازی رویوں کا اکثر سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کی وجہ ان کا عقیدہ اور مذہب ہے۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو فرانس میں ایک عرصے سے عناد اور کشیدگی کی وجہ بنا ہوا ہے اور اس پر ساری دنیا خاموش ہے جس میں اسلامی ممالک بھی شامل ہیں۔
فرانس کی حکومت نے کہا ہے وہ دسمبر میں مذہب اور ریاست کو الگ کرنے والے 1905 کے قوانین کو مزید مضبوط کرے گی۔ اس با ت سے ثابت ہوتا ہے فرانس میں اس صدی کے آغاز سے قبل ہی مسلمانوں پر مظالم کا اک سلسلہ جاری ہے۔ اسی تناظر میں دیے گئے صدر ماکروں کے حالیہ بیانات کے بعد بہت سے مسلمان ممالک خاص کر مشرقِ وسطی میں فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم نے زور پکڑا ہے۔ حالیہ دنوں میں چند ایسی ویڈیوز سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ہیں جن میں کویت، اُردن اور قطر سمیت دیگر ممالک کے کاروباری حضرات کو اپنی دکانوں سے فرانسیسی مصنوعات کو ہٹاتے اور ان مصنوعات کو دوبارہ فروخت نہ کرنے کا عزم کرتے دکھایا گیا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ ایک ہفتہ سے فرانس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کے ٹرینڈ میں اضافہ ہوا ہے۔ اس پوری صورتحال میں اسلامی ممالک کے حکمران نہ صرف خاموش تماشائی بنے ہو ئے ہیں اور بلکہ متعدد اسلامی ممالک کی حکومتیں فرانس ہی کو درست قرار دے رہی ہیں۔ سب سے پہلے طیب اردوان اور اس کے بعد وزیرِاعظم عمران خان نے فرانسیسی صدر ماکروںکی خوب خبر لی۔ لیکن عالم عرب کا حال اس کی ایک خبر سے سامنے آجاتا ہے کہ: ’’ہیم سبان: نے اسرائیلی اخبار Haaretz کو ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ محمد بن سلمان نے ان کو بتایا ہے اگر سعودی عرب اسرائیل سے تعلقات معمول پر لایا تو ایران کے لوگ اسے مار ڈالیں گے۔ ’ہیم سبان‘ اسرائیل میں رہتے ہیں اور یہ دنیا کے دو یا تین اہم ’’عالمی اسٹیبلشمنٹ‘‘ کے ارکان میں سے ایک ہیں۔ جن سے محمد بن سلمان اپنا دکھ بیان کیا ہے، یہ بات دنیا بھر میں مشہور ہے کہ ’’محمد بن سلمان‘‘ ایک بہادر اور نڈر شخصیت کے مالک ہیں۔ جن کو بس اپنی جان کی فکر ہے ان جیسے حکمران آج عالم اسلام پر قابض ہیں اور ان کی ڈوریں عالم کفر سے براہ راست ملتی ہیں۔
آغاشورش کاشمیری نے اس مسئلہ پر چٹان میں لکھا تھا ’جن لوگوں نے شیدائیان ِ ختم ِنبوت کو شہید کیا اور ان کے خون سے ہولی کھیلی ان پر کیا بیت رہی ہے؟ اور کون کن کن حادثات و سانحات کا شکار ہوا، اللہ تعالیٰ نے اْن کے قلوب کا اطمینان سلب کرلیا اور اْن کی روحوں کو سرطان میں مبتلا کر دیا ہے‘‘۔ پاکستان تحریک ختم ِ نبوت اپنے مدارج طے کرتی رہی، ختم ِنبوت کا قافلۂ سخت جان ہمت سے آگے بڑھتا رہا ہے 7 ستمبر 1974ء کو قومی اسمبلی نے متفقہ قرار دار کے ذریعے قادیانیوں، مرزائیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا۔ آج ایک مرتبہ پھر ’’عالمی ختم ِنبوت‘‘ کے قافلۂ سخت جان کی مسلمان حکمرانوں کو ضرورت ہے۔ ان حکمرانوں کو ختم ِ نبوت کے اغراض ومقاصد کا علم ہونا ضروری ہے ان کو اس بات کا بھی ادراک ہوگا کہ ختمِ نبوت کے لیے باتوں کے علاوہ ہتھیار کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔