اپوزیشن تحریک سے جماعت اسلامی کی لاتعلقی کیوں؟

920

فیس بک پر ایک محترم دوست (ثروت جمال اصمعی) نے یہ سوال اُٹھایا ہے کہ جماعت اسلامی ’’بحالی جمہوریت کی موجودہ تحریک‘‘ میں حصہ کیوں نہیں لے رہی؟ یہ سوال بظاہر جماعت اسلامی کے قائدین سے ہے اور وہ اپنی رابطہ عوام مہم میں اس سوال کا جواب دے بھی رہے ہیں۔ امیر جماعت محترم سراج الحق نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ اسے بحالی جمہوریت کی تحریک نہیں سمجھتے۔ یہ اقتدار کی جنگ ہے جس میں اپوزیشن کی بڑی جماعتیں اپنی باری کو یقینی بنانے کی کوشش کررہی ہیں۔ جب کہ اس کے برعکس جماعت اسلامی اس کرپٹ نظام کو تبدیل کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ وہ چہرے نہیں نظام کو بدلنا چاہتی ہے، اس کے لیے رائے عامہ کو ہموار کررہی ہے۔ محترم سراج الحق ان دنوں عوامی جلسوں میں جو خطاب کررہے ہیں مذکورہ بالا سطور انہی خطاب کا خلاصہ ہیں۔ محترم دوست نے جو سوال اُٹھایا ہے اس کا جواب ان سطور میں تلاش کیا جاسکتا ہے۔ آپ امیر جماعت کی رائے سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن ان کے خطاب کی معقولیت کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔
محترم دوست کا سوال ہم جیسے عامیوں کے لیے بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ ہم ان سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ انہوں نے یہ کیسے فرض کرلیا ہے کہ عمران حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں خاص طور پر مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کی احتجاجی تحریک واقعی بحالی جمہوریت کی تحریک ہے۔ تینوں جماعتوں کا متفقہ مطالبہ یہ ہے کہ عمران خان استعفا دیں، جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن تو اس مطالبے میں اتنے متشدد تھے کہ وہ عمران خان سے استعفا لینے کے لیے ایک بڑے جلوس کے ساتھ اسلام آباد پہنچ گئے تھے۔ وہ کئی دن تک وفاقی دارالحکومت میں دھرنا دیے بیٹھے رہے۔ آخر ایک ملفوف یقین دہانی کے بعد وہ اسلام آباد سے رخصت ہونے پر آمادہ ہوئے۔ اب اگر اپوزیشن کی موجودہ تحریک کے نتیجے میں عمران خان رخصت ہوجاتے ہیں تو کیا اس کے نتیجے میں جمہوریت بحال ہوجائے گی؟ ہمیں تو خدشہ ہے کہ اس کا نتیجہ نام نہاد جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی صورت میں برآمد ہوگا اور جو مقتدرہ اس وقت عمران خان کے پیچھے کھڑی ہے وہ کھل کر سامنے آجائے گی۔ اگر اس نے اقتدار براہ راست اپنے ہاتھ میں نہ لیا تو خود اپوزیشن میں سے ایسے مہرے مل جائیں گے جو عمران خان کی جگہ کٹھ پتلی بننے پر آمادہ ہوں گے اور کٹھ پتلی تماشا حسب معمول جاری رہے گا۔
اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کی بنیاد میاں نواز شریف کا یہ بیانیہ ہے کہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ اس بیانیے کو سنجیدہ سیاسی حلقوں میں بلاشبہ پزیرائی حاصل ہوئی ہے اور بعض کالم نگاروں نے اس پر اپنی دانشوری بھی بھگاری ہے لیکن میاں نواز شریف کے انداز سیاست پر ایک نظر ڈالی جائے تو ان کا یہ بیانیہ ایک فراڈ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ میاں صاحب تین مرتبہ وزیراعظم بنے اور تینوں مرتبہ انہوں نے اس بیانیے کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھا اور عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب ہونے والی قومی اسمبلی کو کوئی اہمیت نہ دی۔ قومی اسمبلی نے اپنے ووٹوں کے ذریعے انہیں وزیراعظم تو بنادیا لیکن انہوں نے باقاعدگی سے اسمبلی میں آنا اور اپنے فیصلوں میں اسے شریک کرنا گوارا نہ کیا۔ وہ تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے تو عوام کے ووٹ کو بے توقیر کرنے میں حد سے گزر گئے۔ انہوں نے نہایت ڈھٹائی سے یہ دعویٰ کیا کہ عوام نے انتخابات میں انہیں بھارت سے دوستی کا مینڈیٹ دیا ہے۔ حالاں کہ ان کی پوری انتخابی مہم اس بات کی گواہ ہے کہ انہوں نے اور ان کی پارٹی نے اپنی انتخابی مہم میں بھارت سے دوستی کے ایشو کو سرے سے چھیڑا ہی نہ تھا۔ اگر وہ یہ ایشو چھیڑتے تو شاید انتخابات میں ان کی کامیابی ہی مشکوک ہوجاتی۔ پھر جب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کا دعوت نامہ انہیں ملا تو دفتر خارجہ نے انہیں تقریب میں شرکت نہ کرنے کا مشورہ دیا لیکن وہ اس مشورے کو نظر انداز کرتے ہوئے اور قومی اسمبلی سے اجازت لیے بغیر نئی دہلی جا پہنچے اور پاکستان ہائی کمیشن میں ملاقات کے منتظر کشمیری رہنمائوں کو نظر انداز کرکے اپنے بھارتی دوستوں سے ملاقاتیں کرتے رہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ انہیں اسی شرط پر نئی دہلی بلایا گیا تھا کہ وہ کشمیری قائدین سے نہیں ملیں گے اور میاں نواز شریف نے یہ ذلت آمیز شرط خوشدلی سے قبول کرلی تھی۔ کیا ان کا یہ عمل عوام کے ووٹوں کی توہین نہ تھا؟
رہی پیپلز پارٹی تو وہ جب بھی برسراقتدار آئی ہے اس نے اپنی حرکت اور خلاف قانون سرگرمیوں سے ووٹ کے تقدس کو بُری طرح پامال کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو بلاشبہ ایک مقبول عوامی لیڈر تھے لیکن جب اقتدار ان کے ہاتھ آیا تو ان کے اندر چھپا ہوا منتقم مزاج جاگیردار کھل کر سامنے آگیا اور انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کا وہ حشر کیا کہ بدترین فوجی آمریتیں بھی اس کے آگے ماند پڑ گئیں۔ انہوں نے صرف اپنے سیاسی حریفوں ہی کو انتقام کا نشانہ نہیں بنایا بلکہ اپنی پارٹی کے اندر اختلاف رائے رکھنے والوں کو بھی معاف نہیں کیا اور ان کی زندگی عذاب بنادی۔ انہوں نے تمام جمہوری قدریں اپنے پائوں تلے روند ڈالیں اور ملک میں ایسی ہولناک فسطائیت قائم کی جس کی پاکستان کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ ظاہر ہے اس کا نتیجہ بھی اتنا ہی ہولناک برآمد ہوا۔ ملک میں مارشل لا لگ گیا اور بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ بعد میں پیپلز پارٹی کی جتنی بھی حکومتیں آئیں انہوں نے فسطائیت تو قائم نہیں کی البتہ کرپشن اور لوٹ مار کی انتہا کردی اور جمہوریت کو پامال کر ڈالا۔
اس وقت پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی تیسری بڑی جماعت مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام ہے اور حضرت مولانا ہی گیارہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد، پی ڈی ایم کی قیادت کررہے ہیں۔ لیکن ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ملک میں بحالی جمہوریت کی تحریکوں میں حضرت مولانا کا کردار کبھی قابل تحسین نہیں رہا۔ انہوں نے سیاست میں ہمیشہ اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھا ہے اور جمہوریت کو کبھی ترجیح نہیں دی۔ اس کا اندازہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ان کی پُراسرار سرگرمیوں سے لگایا جاسکتا ہے وہ نہ ہی جماعتوں کے اتحاد، متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے نہایت اہم پارٹنر تھے، ایم ایم اے کا بنیادی مقصد ملک کو جنرل پرویز مشرف کی فوجی آمریت سے نکال کر جمہوریت کی راہ پر گامزن کرنا تھا لیکن حضرت مولانا ایم ایم اے کی اس کوشش کو اپنے ذاتی اور گروہی مفاد کے لیے مسلسل سبوتاژ کرتے رہے۔ قاضی حسین احمد مرحوم جو ایم ایم اے کے سربراہ تھے حضرت مولانا کی سرگرمیوں سے اتنے زِچ ہوئے کہ بالآخر وہ قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہوگئے۔
محترم دوست ثروت جمال اصمعی نجانے کیوں اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ مذکورہ اپوزیشن جماعتیں بحالی جمہوریت کی تحریک چلارہی ہیں اور جماعت اسلامی اس سے لاتعلقی اختیار کیے ہوئے ہے۔ اگر وہ واقعی ملک میں ایک مضبوط جمہوری نظام کے قیام میں مخلص ہوتیں تو موجودہ یا سابق پارلیمنٹ میں اس کے لیے سنجیدہ کوششیں کرتیں۔ وہ منصفانہ اور شفاف انتخابات کے لیے ٹھوس انتخابی اصلاحات کا قانون منظور کرواتیں۔ انتخابی عمل میں اسٹیبلشمنٹ کے عمل دخل کو روکنے کے لیے قانون سازی کرتیں۔ احتساب کے قانون کو منصفانہ بناتیں۔ لیکن ہمارا خیال ہے کہ یہ معاملات ان جماعتوں کے پیش نظر ہیں ہی نہیں۔ وہ ایسے انتخابات چاہتی ہیں جن میں ان کی جیت کے امکانات واضح ہوں اور وہ بقائے باہمی کی پالیسی کے تحت باری باری اقتدار میں آسکیں۔ وہ انتخابی عمل میں اسٹیبشلمنٹ کی مداخلت کے خلاف بھی نہیں ہیں۔ اس کا اندازہ عمران خان کے اس انکشاف سے بخوبی ہوسکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے اہم رہنما خواجہ آصف جب انتخابات میں ہار رہے تھے تو انہوں نے جنرل باجوہ سے ٹیلی فون پر مدد کی اپیل کی تھی اور جنرل صاحب نے انہیں جتوا دیا تھا۔ یہ تو ایک ٹیلی فون کی کہانی ہے۔ انتخابات میں ایسی نجانے کتنی کہانیاں جنم لیتی ہیں۔ میاں نواز شریف کی تو یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ انہوں نے انتخابات میں تین چوتھائی اکثریت لینے کی خواہش ظاہر کی تھی اور ان کی یہ خواہش پوری کی گئی تھی۔
جناب اصمعی غور فرمائیں تو پاکستان میں جمہوریت کا بحران اس لیے ہے کہ خود ان اپوزیشن جماعتوں میں بھی جمہوریت نہیں ہے یہ موروثی جماعتیں ہیں اور پاکستان کو بھی موروثی نظام کے تابع رکھنا چاہتی ہیں۔ ان کی بحالی جمہوریت کی تحریک سراسر دھوکا ہے، اسی لیے جماعت اسلامی نے اس سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے کیوں کہ وہ اپنی نہاد میں ایک جمہوری جماعت ہے۔ یوں دیکھا جائے تو جماعت اسلامی ہی اصل اپوزیشن ہے اور کسی کا دم چھلّا بننے کے بجائے اپنے بل پر بحالی جمہوریت کی تحریک چلا رہی ہے۔