جائیداد میں بہنوں اور بیٹیوں کو حصہ نہ دینا قرآن سے متصادم ہے

1699

کراچی (رپورٹ: حماد حسین) قرآن میں وراثت دینے کا حکم ہے نہ دینا ظلم ہے،اور ظلم حرام ہے۔بہنوں اور بیٹیوں کو جایدا د یاوراثت میں حصہ نہ دینے کامعاملہ جاگیردار، وڈیرے اور سیاستدانوں میںاب بھی موجود ہے کیونکہ وہ یہ نہیں چاہتے کہ زمینیں تقسیم درتقسیم ہوں۔ جہیز دے کر وراثت سے بے دخل کر دیا جاتا ہے۔ وراثت میں حصہ نہ لینے کے لیے سماجی دباؤ بھی ڈالا جاتا ہے۔ان خیالات کا اظہار سابق ڈین سوشل سائنسز جامعہ کراچی پروفیسرڈاکٹر احمد قادری ،اسلامک فقہ اکیڈمی پاکستان کے ڈائریکٹر مصباح اللہ صابر،عورت فاؤنڈیشن کی چیئرمین مہناز رحمن اور سندھ ہائی کورٹ کے وکیل عثمان فاروق ایڈووکیٹ نے کیا۔ سابق ڈین سوشل سائنسز جامعہ کراچی پروفیسرڈاکٹر احمد قادری کا کہنا تھاکہ ہمارے معاشرے میں بیٹیوں اور بہنوں کو میراث سے ان کاحصہ نہ دینا بھی عام ہوتا جا رہا ہے حالانکہ باپ کے مال میں بیٹیوں کاحق قرآنِ مجیدمیں واضح طورپر ہے جسے کوئی ختم نہیں کر سکتا۔ یاد رہے کہ لڑکیوں کو حصہ نہ دینا حرامِ قطعی ہے، لہٰذا اگر والدین نے وصیت وغیرہ کے ذریعے بیٹیوں کو ان کے حصے سے محروم کر دیا یا بیٹوں نے بہنوں کو ان کا حصہ دینے کے بجائے سارا مال آپس میں تقسیم کر لیا، یا ان کا حصہ کسی غیر وارث کو دیدیا تو یہ ظلم ہے اور ایسے لوگوں پر توبہ کے دروازے بند ہیں۔ واضح رہے کہ والدین کے ترکہ میں جس طرح ان کی نرینہ اولاد کا حق وحصہ ہوتا ہے اسی طرح بیٹیوں کا بھی شرعی حق وحصہ ہوتا ہے، والدین کے انتقال کے بعد ان کے ترکہ پر بیٹوں کا خود تنِ تنہا قبضہ کرلینا اور بہنوں کو ان کے شرعی حصے سے محروم کرنا ناجائز اور سخت گناہ ہے، بھائیوں پر لازم ہے کہ بہنوں کو ان کا حق وحصہ اس دنیا میں دے دیں ورنہ آخرت میں دینا پڑے گا اور آخرت میں دینا آسان نہیں ہوگا۔ اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اولاد کے درمیان اپنی تقسیم کرنا چاہتا ہے توسب بیٹے، بیٹیوں کو برابر برابر دینا افضل ہے اور اگر اولاد میں کوئی علمِ دین سیکھنے اور دینی خدمت میں مشغول ہے تو اسے دوسروں سے زیادہ دے سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں اولاد اپنے والدین کو اس بات پر مختلف طریقوں سے مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں جائیداد تقسیم کر دیں، ان کا یہ جبری مطالبہ ناجائز ہے کیونکہ یہ والدین کی دل آزاری کا سبب ہے جو کہ ناجائز وگناہ ہے۔ اخلاقی طور یا سماجی طور پر لوگ اس بات کو محسوس ہی نہیں کرتے کے بہنوں کا یا بیٹیوں کا کیا حصہ ہے اور کیونکہ مردوں کا معاشرہ ہے تو مردوں کے معاشرے میں عام طور پر جو لوگ ہیں اپنی فلاح وبہبود اور اپنی اولاد کی فلاح وبہبود کے لیے وہ حقیقت کو بھول جاتے ہیں اور نہ قبر کا خوف ہوتا ہے اور نہ ہی رشتوں کا پاس ہوتا ہے نتیجہ یہ ہے کہ اخلاقی قدریں پامال ہوتی ہیں اور شرعی اعتبار سے انسان جب یہ حقوق اپنے اوپر لے کر جاتا ہے تو اس کے نتائج یہی ہوتے ہیں کے قبر اندر کبھی آسانی نہیں ملتی۔ اسلامک فقہ اکیڈمی پاکستان کے ڈائریکٹر مصباح اللہ صابرکا کہنا تھا کہ سورہ النساء کی آیات نمبر11،12میں پورا وراثت کا قانون بیان کیا گیا ہے۔ بہنوں کی وراثت کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہیے بلکہ بیٹیوں کی وراثت کا استعمال کرنا چاہیے۔ وراثت دینے کا حکم ہے اور نہ دینا ظلم ہے، اور ظلم حرام ہے‘ بہنوں یا بیٹیوں میں وراثت کی تقسیم کی بات کی جائے تو اکثر لوگوں کا ذہین ہوتا ہے کہ ہمارے جائیداد تقسیم ہو رہی ہے یا ہمارے باپ کی جائیداد کسی اور کے گھر میں جا رہی ہے، ظاہر سی بات ہے کہ اگر بہن یا بیٹی کو جائیداد میں حصہ ملتا ہے تو وہ یقینا کسی کی بیوی ہوگی۔ اور سمجھتے ہیں کہ ہماری جائیداد بہنوئی کو منتقل ہو رہی ہے۔ حالانکہ معاشرتی اقدار سے یہ غلط سوچ ہے۔ دوسری وجہ ظلم ہے لوگ زبردستی بہنوں اور بیٹیوں کا حصہ روک لیتے ہیں۔ مال کی ہوس اس کی بڑی وجہ ہے۔ عورت فاؤنڈیشن کی چیئرمین مہناز رحمن کا کہنا تھا کہ بہنوں اور بیٹیوں کو جائیدا د یا وراثت میں حصہ نہ دینے کا معاملہ اب کافی حد کم ہوگیا ہے۔ خاص طور پر شہری علاقوں میں بہنوں یا بیٹیوں کو وراثت میں حصہ نہ دینے کے شاید ہی کوئی کیس ہو۔ تاہم ہمارے دیہاتوں میں جاگیردار، وڈیرے اور سیاستدانوں میںاب بھی وراثت تقسیم نہ کرنے کامسئلہ موجود ہے موجود ہے کیونکہ وہ یہ نہیں چاہتے کہ زمینیں تقسیم در تقسیم ہوں۔ کیونکہ ان زمینوں کی ہی وجہ سے ان کی جاگیرداری چل رہی ہے۔ اگر زمینیں تقسیم ہوگئیں تو ان کی جاگیرداری بھی ختم ہوجائے گی۔ اس مسئلے کی وجہ سے دیگر برائیاں جنم لیتی ہیں۔ وہ اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو ساری عمر گھر بیٹھا کر رکھتے ہیں، اور ان کی شادی نہیں کرتے یا پھر قرآن سے شادی کرادی جاتی ہے۔ یا پھر خاندان میں بے جوڑ شادی کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ لڑکی چھوٹی ہوتی ہے اور لڑکا بڑا ہوتا ہے۔ شہروں میں جو طبقہ ہے چاہے ان کا چھوٹا سا ہی کیوں نہ ہو وہ اپنی بہن اور بیٹی کو اس کا وہ حصہ جو شرعی طور پر ہے دے دیا جاتا ہے۔ ایک بات اور ہے کہ وراثت میں حصہ نہ دینے والے اکثر یہ کہتے ہیں کہ ہم نے جہیز دے دیا تھا۔ جبکہ یہ کوئی منطق نہیں ہے۔ جہیز دینے کا یہ قطعی مطلب نہیں ہے کہ آپ نے اگر جہیز دے دیا تو بہن کا وراثت میں حصہ ختم ہوگیا۔ عام طور پر بہنوں اور بیٹیوں کو بھائیوں پر قربانی کا درس شروع سے ہی دیا جاتا ہے، اور وراثت نہ لینے کے حوالے سے سماجی دباؤ بھی ہوتا ہے، اب تو وراثت کا قانون بھی بن گیا اور عورتوں کو پتا ہونا چاہیے کہ ان کا وراثت میں کتنا حصہ ہے، سندھ ہائی کورٹ کے عثمان فاروق ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں ایک غلط نظریہ ہے کہ جو بھی جائیداد ہے چاہے اس میں مکان ہو یا زمین یہ ماں باپ کی نشانی ہے، اس لیے اس کی تقسیم ٹھیک نہیں ہے اور اس گھر میں بھائی رہ رہے ہیں اور بہنیں شادی ہو کر اپنے گھر جاچکی تھیں، اس وجہ سے ان کو وراثت میں حصہ نہیں ملتا۔ وراثت میں حصہ نہ دینے کی ایک وجہ ہمارے سامنے مختلف مقدموں میں یہ بھی سامنے آتی ہے کہ ہم نے بہن یا بیٹی کی شادی میں جہیز کی صورت میں جو اس کا حصہ تھا دے دیا تھا لہٰذا اب ان کا کوئی حصہ نہیں بنتا ہے، جبکہ اگر بہن یا بیٹی اپنے حصہ کی بات کرتی تو ان کو یہ کہہ کر مورد الزام ٹھیرایا جاتا ہے کہ ان میں لالچ آگیا ہے۔ وراثت خالصتاً اسلامی معاملہ ہے اور اس کی جو بھی تقسیم کا معاملہ ہے وہ قرآن میں موجود ہے۔ لہٰذا وراثت کے مقدمات میں قرآن کے احکامات کی روشنی میں فیصلے کیے جاتے ہیں ماسوائے سیکشن4 کے جس میں پوتا پوتی اور نواسے نواسیوں کا بھی حصہ رکھا گیا ہے جو اسلامی شریعت کے خلاف ہے اور یہ قوانین ایوب خان میں فیملی رولز میں شامل کیے گئے تھے۔ اسی طرح یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر بہن نے اپنا حصہ مانگ لیا تو خاندان کے لوگ ان پر دباؤ ڈالتے ہیں کہ اگر گھر فروخت ہوگیا اور تمہیں حصہ مل گیا تو بھائی دربدر ہو جائیں گے، بہن اور بیٹی پر سماجی دباؤ ڈالا کر ان کا جائز حق لینے سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔