فیٹف: بھارت کے منہ پر طمانچہ

777

ایف اے ٹی ایف کے صدر شیالگمن لو نے پریس کانفرنس کے دوران میں بھارتی صحافی کے سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان کو ’’بلیک لسٹ‘‘ کرنے کی کوئی تجویز نہیں تھی اس لیے پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پاکستان کے بارے میں ٹاسک فورس کے فیصلوں پر مفصل بریفنگ دیتے ہوئے صدر نے کہا کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے پاکستان کے حوالے سے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ پاکستان نے 27آئیٹم میں سے 22آئیٹم پر قوانین بنا لیے ہیں اور اس پر عمل بھی شرع ہوگیا ہے اس لیے امید کی جارہی ہے کہ وہ فروری 2021ء تک ’’وائٹ لسٹ‘‘ میں شامل کر دیا جائے گا اوراس کی ’’واچ لسٹ یا گرے لسٹ‘‘ سے جان جھوٹ جائے گی۔
اس سلسلے میں مزید آگے بڑھنے سے پہلے ایک غلط خبر پر بات کر لی جائے تو بہتر ہو گا۔ پاکستانی میڈیا اور سوشل میڈیا خبر دے رہا ہے کہ سعودی عرب نے ’’ایف اے ٹی ایف‘‘ کے اجلاس میں بھارت کی حمایت کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف اپنا ووٹ استعمال کیا اور اس سلسلے میں متعدد پاکستانی اینکرز نے بھی سعودی عرب کا نام لیا جو سراسر غلط اور عالمی سیاست میں پاکستان کی اہمیت سے ناواقف ہونے کی دلیل ہے۔ سعودی عرب ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اللہ نہ کرے اگر پاکستان کو ’’بلیک لسٹ‘‘ کردیا گیا تو پاکستانی فورس اور لیبر کو سعودی عرب سے ہر صورت نکلنا ہو گا۔
پاکستان کو جون 2018ء سے گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنانسنگ روکنے کے نظام میں موجود خامیوں کو ختم کرنا تھا۔ پاکستان نے اعلیٰ سطح پر یقین دہانیوں کو عملی طور پر نافذ کیا جس کا ایف اے ٹی ایف خیر مقدم کرتی ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے صدر شیالگمن لو نے بھارتی صحافی گیتا موہن جن کا تعلق انڈیاٹوڈے سے ہے اس کے علاوہ سنجے سوری اور سیدات کے سخت سوالوں کا جواب دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ’ایف اے ٹی ایف پاکستان کی جانب سے معیارات کو پورا کرنے کا خیر مقدم کرتا ہے‘۔ لیکن اس کو ہدایت کی ہے کہ فروری 2021ء تک اپنے مکمل ایکشن پلان کو تیزی سے پورا کرے تاکہ اس کو وائٹ لسٹ میں شامل کر دیا جائے۔ صدر نے مزید کہا کہ پاکستان اس پر بھرپور انداز سے کام کر رہا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے اجلاس کے بعد صدر شیالگمن لو نے کہا کہ: ’’پاکستان کے ساتھ کوئی الگ طریقہ کار نہیں اپنایا جارہا ہے‘‘۔ پاکستان کے علاوہ کمبوڈیا، گھانا، آئس لینڈ، منگولیا، پاناما، شام، یمن، زمبابوے سمیت افریقا کے نہایت ہی پسماندہ ملک رہ گئے ہیں جبکہ بلیک لسٹ میں صرف شمالی کوریا اور ایران شامل ہیں۔
پاکستان نے اکتوبر 2019ء میں 5پلان مکمل، 17پر کام جاری تھا اور 5پر کوئی کا م نہ ہو سکا تھا، فروری 2020 میں 14پلان مکمل، 11پر کام جاری اور 2پر کام شروع ہو چکا تھا۔ پاکستان نے اس سلسلے میں تیزی سے قانون سازی کی اور اکتوبر 2020 میں پاکستان نے جو کچھ کیا اس کا اعلان بھر پور انداز سے ’’ایف اے ٹی ایف‘‘ کے اجلاس میں کیا گیا۔ پاکستان کے حوالے سے اپنے اعلامیے میں ایف اے ٹی ایف نے 6 ایسے نکات کی نشاندہی کی جن پر پاکستان کو کام کرنے کی ضرورت ہے ان میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنانسنگ کی روک تھام سے متعلق اپنے قوانین اور طریقہ کار عالمی معیار کے مطابق بناسکے۔ سال 2009ء میں پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی شرائط کو پورا کرنے کی غرض سے نیشنل ایگزیکٹو کمیٹی (این ای سی) قائم کی جس کی سربراہی وفاقی وزیرِ خزانہ کو دی گئی۔ اس کمیٹی میں وفاقی سطح پر موجود تمام اداروں کو شامل کیا گیا ہے اور یہ کمیٹی عالمی قوانین کے مطابق رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتی ہے۔
اس کے علاوہ وزارتِ قانون، وزارتِ داخلہ، اسٹیٹ بینک، سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن، پاکستان اسٹاک ایکسچینج، نیب، ایف آئی اے، اے این ایف، ایف بی آر (کسٹم اور ان لینڈ ریونیو)، نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی، قومی بچت، پاکستان پوسٹ، آئی کیپ، پاکستان بار کونسل اور صوبائی سطح پر پولیس، محکمہ قانون و داخلہ اور سماجی بہبود کے ادارے اپنے اپنے دائرہ اختیار کے مطابق منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنانسنگ کی روک تھام میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور اس سے متعلق معاملات کی نگرانی کے ساتھ ساتھ ان کیسز کو رپورٹ کرنے کی ہدایات بھی دی گئی ہیں۔ پاکستان نے بہت پہلے سے منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے عالمی قوانین کو اپنانا شروع کردیا تھا۔ 2010ء میں پاکستان
نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنانسنگ کی روک تھام کے حوالے سے پہلا قانون متعارف کروایا تھا جسے بعدازاں 2016ء میں ایف اے ٹی ایف کی شرائط پوری کرنے کی غرض سے بذریعہ ترمیم بہتر بنایا گیا۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے قیام کا فیصلہ 30 سال قبل جی سیون (G-7) ملکوں نے 1989ء میں فرانس میں منعقد ہونے والے اجلاس میں کیا تھا۔ بعد ازاں جی سیون اتحاد کے ارکان کی تعداد 16 ہوئی جو اب بڑھ کر 39 ہوگئی ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے اراکین کی تعداد 39 ہے جس میں 37 ممالک اور 2 علاقائی تعاون کی تنظیمیں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ایف اے ٹی ایف سے 8 علاقائی تنظیمیں بھی منسلک ہیں۔ پاکستان ایف اے ٹی ایف سے وابستہ ایشیا پیسفک گروپ کا حصہ ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی براہِ راست اور بالواسطہ وسعت 180 ملکوں تک موجود ہے۔
ایف اے ٹی ایف کے اس اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلوانے کے لیے سب سے اہم کر دار ’’ترکی‘‘ نے ادا کیا ترکی نے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس کو بتایا کہ وہ پاکستان جاکر ازخود تمام اقدامات جائزہ لے۔ ترکی نے اس بات کی سخت مخالفت کہ پاکستان کے جاری 6نکات کو ناقابلِ قبول اور کم بتایا جائے۔ ترکی نے اجلاس کو بتایا کہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی تمام شرائط پر کام مکمل کر لیا ہے اس لیے اس کو گرے لسٹ سے نکالا جائے۔ پاکستان کو گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں ڈالنے کے لیے 12ووٹ کی ضرورت ہے اور ایف اے ٹی ایف کے لیے یہ کام بہت مشکل ہے۔ اس لیے فروری 2021ء میں پاکستان ہر صورت ایف اے ٹی ایف کی وائٹ لسٹ میں شامل ہو جائے گا۔