غوثیہ کی دیگ

677

میں : آج کس خیال میں گم ہو۔
وہ : آہا… کاش غوثیہ کی دیگ پاکستان میں ہوتی
میں : تو پھر کیا ہوتا؟
وہ : جب دل چاہتا مفت میں بریانی کھا آتے پہلے تو ہفتے میں ایک بار بریانی پک جایا کرتی تھی پر جب سے تبدیلی آئی ہے مہینے میں ایک بار بھی مشکل ہی سے نصیب ہوتی ہے۔
میں : کہتے تو تم ٹھیک ہو۔
وہ : سنا ہے غوثیہ کی دیگ اتنی بڑی ہے کہ برسوں ہوگئے لوگوں کو کھاتے کھاتے لیکن دیگ ہے کہ ختم ہی نہیں ہورہی۔
میں : بھائی یہ تو اللہ میاں کی برکت ہے کہ لوگ صدیوں سے کھا رہے ہیں پھر بھی غوثیہ کی دیگ بھری ہی رہتی ہے اور ہزاروں لاکھوں غریب روزانہ اپنا پیٹ بھر رہے ہیں پر وہ تو ہندوستان میں ہے۔
وہ : ہمارا پاکستان بھی کیا غوثیہ کی دیگ سے کم ہے؟
میں : کیا مطلب؟
وہ : مطلب یہ میرے دوست پاکستان بھی تو ہم نے اللہ کے نام پہ حاصل کیا تھا۔
میں : ہاں تمہاری یہ بات بھی ٹھیک ہے۔ پاکستان کا مطلب کیا ۔۔۔ لااِلہَ اِلاّ اللہ لیکن پاکستان اور غوثیہ کی دیگ میں کیا مماثلت ہے؟
وہ : بھائی جان ہماری اشرافیہ کے لیے پاکستان غوثیہ کی دیگ ہی تو ہے۔ ۷۳سال سے سب بقدرِظرف جی کھول کے کھا رہے ہیں، یعنی جس کا جتنا بڑا برتن اس کا اتنا بڑا حصہ۔ اب تم اتنے بھی بھولے نہیں کہ یہ نہ جانتے ہو کہ سب سے بڑا برتن کس کا ہے۔ اور مزے کی بات یہ کہ پاکستان کی دیگ جیسے ہی خالی ہونے لگتی ہے غوثیہ کی دیگ کی طرح اللہ کی میاںکی برکت سے دوبارہ بھر جاتی ہے۔
میں : بھائی جان آرام سے ۔۔۔غوثیہ کی دیگ تک تو اللہ میاں کی برکت سمجھ میں آتی ہے، مگر یہ پاکستان کی دیگ میں کیسے؟
وہ : ابھی تو بتایا تھا کہ پاکستان اللہ کے نام حاصل کیا تھا لہٰذا جب عیاشیوں اور مراعات کے نام پر کروڑوں اربوں کے اخراجات کے بعد دیگ خالی ہونے لگتی ہے تو اپنا کاسہ لیکر عالمی چوراہے پر پھر سے کھڑ ے ہوجاتے ہیں اللہ کے نام پر دے دے بابا، اللہ کے نام پردے دے بابا دیگ پھر سے بھر جاتی ہے اور دیگ بھرنے کا تو یہ ایک طریقہ ہے ہم نے تو اسے بھرنے کے ایسے ایسے باعث شرم انداز اپنائے ہیں کہ الامان الحفیظ
میں : تم کہنا کیا چاہتے ہو؟
وہ : یادداشت بڑی کمزور ہے تمہاری، بھول گئے ایک باوردی حکمران نے ڈالروں کے عوض محب وطن پاکستانیوں کو دشمن کے حوالے کیا تھا۔ صرف اس لیے کہ دیگ خالی نہیں رہنی چاہیے ورنہ ہماری بھوکی ننگی غریب اشرافیہ تو فاقوں مرجائے گی۔
میں : تمہاری اس بات سے ایک اور بات ذہن میں آئی کہ غوثیہ کی دیگ تو بے چارے غریبوں ہی کا پیٹ بھرتی ہے لیکن پاکستان میں اشرافیہ کا پیٹ آدھا ملک ڈکارنے کے باوجود بھی خالی ہے۔
وہ : صرف یہی نہیں یہاں کا معاملہ اس لحاظ سے بھی برعکس ہے کہ ہمارے ہاں کے غریب پاکستان کی دیگ میں پکنے والی آگ کا ایندھن بنے ہوئے ہیں ۵۸ء سے تاریخ کے ورق الٹنا شروع کرو، ملکی ترقی کے نام پر لیے گئے ہر دور حکومت میں اربوں کھربوں کے قرضوں کا بوجھ عوام ہی تو اٹھا رہے ہیں۔ بجلی مہنگی، گیس مہنگی، پٹرول، آٹا، چینی، ٹماٹر اور دال تک مہنگی مگر مجال ہے اشرافیہ کے لیے چڑھائی گئی پاکستان کی دیگ میں کبھی چاولوں میں کنی اور ایک بوٹی بھی کچی رہ گئی ہو۔